بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا۱ۙ
قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو ڈوب کر(یعنی کافروں کے اجسام کی گہرائیوں تک پہنچ کرسختی سے ان کی روحیں) کھینچ نکالتے ہیں۔
اس سورۃ میں فرشتوں کے فرائض کا اجمالاً اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی قسم کھائی ہے۔
وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا۲ۙ
وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا۳ۙ
فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا۴ۙ
فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا۵ۘ
اور جو(اہل ایمان کی روح) آسانی کے ساتھ نکال لیتے ہیں۔(ان کے جسم سے روح کا بندھن کھول دیتے ہیں)
(احکام الٰہی کی تعمیل میں) تیزی کے ساتھ کائنات میں رواں دواں ہوتے ہیں۔
اپنے فرائض کی بجاآوری میں سبقت کرتے ہیں۔(حکم الٰہی کے مطابق) کائنات کا نظم چلاتے ہیں۔
یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ۶ۙ
جس دن زلزلہ کا جھٹکا زمین اور اس کی ہرچیز کوتہہ وبالا کردے گا۔
تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ۷ۭ
پھر اس کے بعد ایک اور جھٹکا پڑے گا۔
یعنی پھر صورپھونکا جائے گا یہ نفخۂ ثانیہ ہوگا، جس کے بعد تمام مردے زندہ ہوجائیں گے۔
قُلُوْبٌ یَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَۃٌ۸ۙ
اس دن (کی ہولناکیوں سے) لوگوں کے دل سخت مضطرب ہوں گے۔
اَبْصَارُہَا خَاشِعَۃٌ۹ۘ
یَقُوْلُوْنَ ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَۃِ۱۰ۭ
ان کی نگاہیں (خوف سے) ٹھٹری ہوئی ہوں گی۔
قیامت کے وقوع پذیر ہونے والے احوال سن کر منکران آخرت تعجب سے پوچھتے تھے۔ کیا ہم(مرنے کے بعد پہلی حالت پردوبارہ اپنے جسموں کے ساتھ) پلٹا کرواپس لائے جائیں گے؟
ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً۱۱ۭ
قَالُوْا تِلْکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ۱۲ۘ
فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۱۳ۙ
فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ۱۴ۭ
کیا جب ہم کھوکھلی اور بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے؟
(وہ آپس میں اپنے ساتھیوں سے مذاقاً) کہنے لگے،اگر ایسا ہو تو وہ یہ واپس بڑے ہی گھاٹے اور نقصان کی ہوگی
پھر وہ ایک ہی کڑاکے کی آواز ہوگی
(جس کے نتیجہ میں) اسی وقت وہ سب(جِنْ وانس) میدان حشر میں موجود ہو جائیں گے۔
ہَلْ اَتٰىکَ حَدِیْثُ مُوْسٰى۱۵ۘ
اِذْ نَادٰىہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۱۶ۚ
ائے نبی(ﷺ) کیا آپ کوموسیؑ کے واقعہ کی خبر پہنچی ہے؟
جب کہ ان کے پروردگار نے انھیں مقدس وادی طوی میں پکارا تھا۔
(یہ وادیٔ طور تھی، جہاں حضرت موسیؑ کو نبوت سے سر فراز کیا گیا تھا )
اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى۱۷ۡۖ
فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَکّٰى۱۸ۙ
(انھیں حکم دیا گیا) فرعون کے پاس جائیں کہ وہ جبار وسرکش ہوگیا ہے۔
پھر اس سے کہیں کیا توکفر اورسرکشی (کی گندگیوں) سے پاک ہونا چاہتا ہے۔
وَاَہْدِیَکَ اِلٰى رَبِّکَ فَتَخْشٰى۱۹ۚ
فَاَرٰىہُ الْاٰیَۃَ الْکُبْرٰى۲۰ۡۖ
اور میں تیرے رب کی طرف رہنمائی کروں تا کہ اس کا خوف تیرے اندرپیدا ہو(اور تواپنی اصلاح کرلے)
پھر موسیٰ نے اس کو بڑی نشانی دکھائی (یعنی معجزہ کا ظہور)
فَکَذَّبَ وَعَصٰى۲۱ۡۖ
ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰى۲۲ۡۖ
فَحَشَرَ فَنَادٰى۲۳ۡۖ
پس اس نے (حضرت موسیٰؑ کو) جھٹلایا اور (دعوت حق کو) نہ مانا۔
پھر(موسیؑ کے خلاف ) چال بازیاں کرنے کے لئے پلٹا۔
چنانچہ لوگوں کوجمع کیا اور پکارا۔
فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰى۲۴ۡۖ
فَاَخَذَہُ اللہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰى۲۵ۭ
کہنے لگا میں تمہارا رب مقدر اعلیٰ ہوں۔
پس اللہ تعالیٰ نے اسکودنیا وآخرت کے (عبرت ناک) عذاب میں ماخوذ کیا۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰى۲۶ۭۧ
ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۰ۭ بَنٰىہَا۲۷۪
اس واقعہ میں ہر اس شخص کے لئے عبرت ہے جو خوف خدا رکھتا ہے۔
کیا تم کوپیدا کرنا زیادہ سخت اورمشکل کام ہے یا آسمان کو ؟
اللہ نے اس کو بنایا
رَفَعَ سَمْکَہَا فَسَوّٰىہَا۲۸ۙ
وَاَغْطَشَ لَیْلَہَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىہَا۲۹۠
اس کی چھت خوب بلند کی پھر اس کا توازن قائم کیا۔
(یعنی اس کی ساخت میں کسی قسم کا عیب اور کجی نہیں رکھی)
اور اسی سے رات کا پردہ ڈال دیا اور اسی سے دن نکالا(یعنی آسمان پر
آفتاب کے طلوع وغروب سے دن رات ظہورمیں آئے)
وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا۳۰ۭ
اَخْرَجَ مِنْہَا مَاۗءَہَا وَمَرْعٰىہَا۳۱۠
وَالْجِبَالَ اَرْسٰىہَا۳۲ۙ
اور اس کے بعد زمین کواسی نے بچھایا (تا کہ مخلوقات اس پر سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں)
اس میں سے اس کا پانی اورچارہ نکالا۔
اور پہاڑوں کواس پر (میخوں کی طرح) گاڑدیا۔
مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ۳۳ۭ
یہ سب کچھ سامان زیست تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کیلئےہے۔
ان عقلی اور فطری دلائل کے بعد بھی اگر تم حیات آخرت کونہیں مانتے تونہ مانو۔
فَاِذَا جَاۗءَتِ الطَّاۗمَّۃُ لْکُبْرٰى۳۴ۡۖ
پھر جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہوگا۔
یَوْمَ یَتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰى۳۵ۙ
اس روز انسان اپنے کئے اعمال کویاد کرے گا (یعنی اس کواپنی ساری حرکتیں یاد آنے لگیں گی)
وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى۳۶
اور ہردیکھنے والے کے سامنے دوزخ نمایاں کردی جائے گی۔
فَاَمَّا مَنْ طَغٰى۳۷ۙ
وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۳۸ۙ
فَاِنَّ الْجَــحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰى۳۹ۭ
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ
وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۴۰ۙ
فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰى۴۱ۭ
پس جس نے سرکشی کی تھی ۔
اور دنیا ہی کی زندگی کوآخرت پر ترجیح دی تھی۔
تودوزح ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی۔
اور جو کوئی(جواب دہی کے خوف سے) قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے سے ڈرتا رہے
اور اپنے آپ کوبری خواہشات سے باز رکھے
توجنت اس کا ٹھکانہ ہوگی۔
یَسْـــَٔــلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰـىہَا۴۲ۭ
فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِکْرٰىہَا۴۳ۭ
اِلٰى رَبِّکَ مُنْتَہٰىہَا۴۴ۭ
(ائے نبیﷺ) یہ لوگ ( بطور استہزأ) آپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی؟
اس کے بیان سے آپ کا کیا تعلق ؟
اس کے واقع ہونے کاعلم آپ کے پروردگار ہی کو ہے۔
اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىہَا۴۵ۭ
کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـیَّۃً اَوْ ضُحٰىہَا۴۶ۧ
آپؐ تو صرف خبردار کرنے والے ہیں،ہر اس شخص کو جو اس (دن) کے آنے کا خوف رکھتا ہے۔
جس روز وہ اس کودیکھ لیں گے توانھیں محسوس ہوگا گویا کہ وہ دنیا میں (یا عالم برزخ میں )صرف شام یا صبح کے ایک پہر تک ہی رہے تھے۔