☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا۝۱ۙ

قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو ڈوب کر(یعنی کافروں کے اجسام کی گہرائیوں تک پہنچ کرسختی سے ان کی روحیں) کھینچ نکالتے ہیں۔

اس سورۃ میں فرشتوں کے فرائض کا اجمالاً اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی قسم کھائی ہے۔

وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا۝۲ۙ

وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا۝۳ۙ
فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا۝۴ۙ
فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا۝۵ۘ

اور جو(اہل ایمان کی روح) آسانی کے ساتھ نکال لیتے ہیں۔(ان کے جسم سے روح کا بندھن کھول دیتے ہیں)
(احکام الٰہی کی تعمیل میں) تیزی کے ساتھ کائنات میں رواں دواں ہوتے ہیں۔
اپنے فرائض کی بجاآوری میں سبقت کرتے ہیں۔(حکم الٰہی کے مطابق) کائنات کا نظم چلاتے ہیں۔

توضیح : وہ فرشتے متصرف فی العالم خود مختار اوراپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں بلکہ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ کے تحت جو حکم انھیں دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں انھیں اپنے طور پر کسی کمی وبیشی کا رتی برابر اختیار نہیں ہے اور نہ وہ قانون تعذیب ومغفرت میں دخیل وشریک ہیں۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ۝۶ۙ

جس دن زلزلہ کا جھٹکا زمین اور اس کی ہرچیز کوتہہ وبالا کردے گا۔

توضیح : حضرت اسرافیلؑ پہلی مرتبہ صورمیں پھونک ماریں گے یہ نفخہ اُولیٰ ہوگا جس سے سارے انسان مرجائیں گے۔ زمین اور اس کی ساری چیزیں اور اجرام فلکی سب کے سب برباد ہوجائیں گے۔

تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ۝۷ۭ

پھر اس کے بعد ایک اور جھٹکا پڑے گا۔

یعنی پھر صورپھونکا جائے گا یہ نفخۂ ثانیہ ہوگا، جس کے بعد تمام مردے زندہ ہوجائیں گے۔

قُلُوْبٌ یَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَۃٌ۝۸ۙ

اس دن (کی ہولناکیوں سے) لوگوں کے دل سخت مضطرب ہوں گے۔

توضیح : مومنین صالحین اس دن کی ہول وہیبت سے محفوظ رہیں گے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔لَایَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرْ۔ (سورۃ الانبیاء آیت ۱۰۲) حشر کی ہولناکیوں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوگا۔

اَبْصَارُہَا خَاشِعَۃٌ۝۹ۘ
یَقُوْلُوْنَ ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَۃِ۝۱۰ۭ

ان کی نگاہیں (خوف سے) ٹھٹری ہوئی ہوں گی۔
قیامت کے وقوع پذیر ہونے والے احوال سن کر منکران آخرت تعجب سے پوچھتے تھے۔ کیا ہم(مرنے کے بعد پہلی حالت پردوبارہ اپنے جسموں کے ساتھ) پلٹا کرواپس لائے جائیں گے؟

ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً۝۱۱ۭ
قَالُوْا تِلْکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ۝۱۲ۘ

فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۝۱۳ۙ
فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ۝۱۴ۭ

کیا جب ہم کھوکھلی اور بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے؟
(وہ آپس میں اپنے ساتھیوں سے مذاقاً) کہنے لگے،اگر ایسا ہو تو وہ یہ واپس بڑے ہی گھاٹے اور نقصان کی ہوگی
پھر وہ ایک ہی کڑاکے کی آواز ہوگی
(جس کے نتیجہ میں) اسی وقت وہ سب(جِنْ وانس) میدان حشر میں موجود ہو جائیں گے۔

ہَلْ اَتٰىکَ حَدِیْثُ مُوْسٰى۝۱۵ۘ
اِذْ نَادٰىہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۶ۚ

ائے نبی(ﷺ) کیا آپ کوموسیؑ کے واقعہ کی خبر پہنچی ہے؟
جب کہ ان کے پروردگار نے انھیں مقدس وادی طوی میں پکارا تھا۔
(یہ وادیٔ طور تھی، جہاں حضرت موسیؑ کو نبوت سے سر فراز کیا گیا تھا )

اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى۝۱۷ۡۖ
فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَکّٰى۝۱۸ۙ

(انھیں حکم دیا گیا) فرعون کے پاس جائیں کہ وہ جبار وسرکش ہوگیا ہے۔
پھر اس سے کہیں کیا توکفر اورسرکشی (کی گندگیوں) سے پاک ہونا چاہتا ہے۔

وَاَہْدِیَکَ اِلٰى رَبِّکَ فَتَخْشٰى۝۱۹ۚ

فَاَرٰىہُ الْاٰیَۃَ الْکُبْرٰى۝۲۰ۡۖ

اور میں تیرے رب کی طرف رہنمائی کروں تا کہ اس کا خوف تیرے اندرپیدا ہو(اور تواپنی اصلاح کرلے)
پھر موسیٰ نے اس کو بڑی نشانی دکھائی (یعنی معجزہ کا ظہور)

فَکَذَّبَ وَعَصٰى۝۲۱ۡۖ
ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰى۝۲۲ۡۖ
فَحَشَرَ فَنَادٰى۝۲۳ۡۖ

پس اس نے (حضرت موسیٰؑ کو) جھٹلایا اور (دعوت حق کو) نہ مانا۔
پھر(موسیؑ کے خلاف ) چال بازیاں کرنے کے لئے پلٹا۔
چنانچہ لوگوں کوجمع کیا اور پکارا۔

فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰى۝۲۴ۡۖ
فَاَخَذَہُ اللہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰى۝۲۵ۭ

کہنے لگا میں تمہارا رب مقدر اعلیٰ ہوں۔
پس اللہ تعالیٰ نے اسکودنیا وآخرت کے (عبرت ناک) عذاب میں ماخوذ کیا۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰى۝۲۶ۭۧ
ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۝۰ۭ بَنٰىہَا۝۲۷۪

اس واقعہ میں ہر اس شخص کے لئے عبرت ہے جو خوف خدا رکھتا ہے۔
کیا تم کوپیدا کرنا زیادہ سخت اورمشکل کام ہے یا آسمان کو ؟
اللہ نے اس کو بنایا

رَفَعَ سَمْکَہَا فَسَوّٰىہَا۝۲۸ۙ

وَاَغْطَشَ لَیْلَہَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىہَا۝۲۹۠

اس کی چھت خوب بلند کی پھر اس کا توازن قائم کیا۔
(یعنی اس کی ساخت میں کسی قسم کا عیب اور کجی نہیں رکھی)
اور اسی سے رات کا پردہ ڈال دیا اور اسی سے دن نکالا(یعنی آسمان پر
آفتاب کے طلوع وغروب سے دن رات ظہورمیں آئے)

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا۝۳۰ۭ

اَخْرَجَ مِنْہَا مَاۗءَہَا وَمَرْعٰىہَا۝۳۱۠
وَالْجِبَالَ اَرْسٰىہَا۝۳۲ۙ

اور اس کے بعد زمین کواسی نے بچھایا (تا کہ مخلوقات اس پر سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں)
اس میں سے اس کا پانی اورچارہ نکالا۔
اور پہاڑوں کواس پر (میخوں کی طرح) گاڑدیا۔

توضیح : تا کہ زمین اپنی جگہ قائم رہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ (سورہ لقمان) اورزمین میں پہاڑ بنا کر رکھ دیئے۔ تا کہ تم کو ہلا نہ دے، جھکولے کا باعث نہ بنے۔

مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ۝۳۳ۭ

یہ سب کچھ سامان زیست تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کیلئےہے۔

ان عقلی اور فطری دلائل کے بعد بھی اگر تم حیات آخرت کونہیں مانتے تونہ مانو۔

فَاِذَا جَاۗءَتِ الطَّاۗمَّۃُ لْکُبْرٰى۝۳۴ۡۖ

پھر جب وہ ہنگامہ عظیم برپا ہوگا۔

توضیح : یعنی قیامت واقع ہوجائے گی اور تمام کائنات ارضی فنا کردی جائے گی اور تمام جن وانس محاسبہ اعمال کے لئے پیش کئے جائیں گے اور ہر ایک کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔

یَوْمَ یَتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰى۝۳۵ۙ

اس روز انسان اپنے کئے اعمال کویاد کرے گا (یعنی اس کواپنی ساری حرکتیں یاد آنے لگیں گی)

وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى۝۳۶

اور ہردیکھنے والے کے سامنے دوزخ نمایاں کردی جائے گی۔

فَاَمَّا مَنْ طَغٰى۝۳۷ۙ
وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۝۳۸ۙ
فَاِنَّ الْجَــحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰى۝۳۹ۭ
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ

وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۝۴۰ۙ
فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰى۝۴۱ۭ

پس جس نے سرکشی کی تھی ۔
اور دنیا ہی کی زندگی کوآخرت پر ترجیح دی تھی۔
تودوزح ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی۔
اور جو کوئی(جواب دہی کے خوف سے) قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے سے ڈرتا رہے
اور اپنے آپ کوبری خواہشات سے باز رکھے
توجنت اس کا ٹھکانہ ہوگی۔

توضیح : گناہ کرنے کے سارے اسباب موجود ہوں اور کوئی منع کرنے والا نہ ہو، کسی کا خوف بھی نہ ہوتواس وقت گناہ سے اپنے آپ کومحض اللہ کے خوف سے بچائے رکھنا تقویٰ ہے اور جو صاحب تقویٰ ہے وہ متقی ہے اور متقی کے لئے ہی جنت کا وعدہ ہے۔

یَسْـــَٔــلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰـىہَا۝۴۲ۭ
فِیْمَ اَنْتَ مِنْ ذِکْرٰىہَا۝۴۳ۭ
اِلٰى رَبِّکَ مُنْتَہٰىہَا۝۴۴ۭ

(ائے نبیﷺ) یہ لوگ ( بطور استہزأ) آپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی؟
اس کے بیان سے آپ کا کیا تعلق ؟
اس کے واقع ہونے کاعلم آپ کے پروردگار ہی کو ہے۔

اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰىہَا۝۴۵ۭ

کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـیَّۃً اَوْ ضُحٰىہَا۝۴۶ۧ

آپؐ تو صرف خبردار کرنے والے ہیں،ہر اس شخص کو جو اس (دن) کے آنے کا خوف رکھتا ہے۔
جس روز وہ اس کودیکھ لیں گے توانھیں محسوس ہوگا گویا کہ وہ دنیا میں (یا عالم برزخ میں )صرف شام یا صبح کے ایک پہر تک ہی رہے تھے۔