☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰہَا وَفَرَضْنٰہَا

یہ ایک سورۃ ہے جس کوہم نے نازل کیا۔ اور ہم نے اس میں احکام مقرر کئے (یعنی احکام کی تعمیل تم پر فرض کردی)

وَاَنْزَلْنَا فِيْہَآ اٰيٰتؚ ٍ بَيِّنٰتٍ

اور ہم نے اس میں نہایت صاف واضح ہدایتیں نازل کیں تا کہ تم نصیحت

لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۱

پذیر ہوجاؤ۔

اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۝۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ

بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد(جب اس کی بدکاری ثابت ہوجائے) تو ان دونوں میں سے ہرایک کوسوکوڑے مارو اوراللہ تعالیٰ کے ان تعزیری احکام کی تعمیل میں ان مجرمین کے ساتھ رعایت یا نرمی نہ برتو(ان پر ترس نہ کھاؤ)

اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۚ

اگر واقعی تم اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پرایمان رکھتے ہو۔

توضیح : نبی کریمﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک حاکم لایا جائے گا، جس نے حد میں ایک کوڑا کم کردیا تھا۔ پوچھا جائیگا یہ حرکت تونے کیوں کی تھی۔ وہ عرض کرے گا، آپ کے بندوں پررحم کھا کر، ارشاد ہوگا، اچھا توان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا۔ پھر حکم ہوگا اسے دوزخ میں لے جاؤ۔ ایک اور حاکم لایا جائے گا۔ جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کیا تھا، پوچھا جائے گا یہ تونے کس لئے کیا تھا۔ وہ عرض کرے گا تا کہ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہوگا توان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا۔ پھر حکم ہوگا لے جاؤ اس کودوزخ میں (تفسیر کبیر ص: ۲۲۵) یہ تو اس صورت میں ہے، جب کہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بناء پر ہو (نیک نیتی پرمبنی نافرمانی بھی ناقابل قبول ) لیکن اگر کہیں احکام میں ردو بدل مجرموں کے مرتبہ کی بناء پر ہونے لگے توپھر یہ ایک بدترین جرم ہوگا۔
صحیحین میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے خطبہ میں فرمایا: لوگو تم سے پہلے جوامتیں گزری ہیں، وہ ہلاک ہوگئیں اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑدیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے۔ (نسائی ابن ماجہ)

وَلْيَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۲

اور انھیں سزا دیتے وقت اہل ایمان کی ایک جماعت بھی حاضر رہے (ایک مجمع کے روبرو یہ سزا دی جائے تا کہ عبرت ومعاشرے کی اصلاح ہو)

اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَۃً اَوْ مُشْرِكَۃً۝۰ۡ

زانی بدکار مرد، بدکار عورت مشرکہ ہی سے نکاح کرے۔

وَّالزَّانِيَۃُ لَا يَنْكِحُہَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ۝۰ۚ

اوربدکار عورت بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا کسی اور سے نکاح نہ کرے۔

وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ۝۳

اوراہل ایمان کیلئے اس کوحرام قرار دیا گیا ہے۔

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ

جو لوگ پاک دامن عورتوں پربدکاری کی تہمت لگاتے ہیں۔

ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ

پھر اپنے بیان کے ثبوت میں چار گواہ نہ لائیں۔

فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً

توان کواسی کوڑے مارو۔

وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۝۰ۚ

اور کسی معاملہ میں ان کی شہادت قبول نہ کرو۔

وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۴ۙ

اور وہ بڑے ہی نافرمان ہیں۔

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا۝۰ۚ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵

مگر جن لوگوں نے اس گناہ کے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کی طرف مائل ہوئے تواس کے بعد اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّہُمْ شُہَدَاۗءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس (خود ان کے سوا دوسرے) کوئی گواہ نہ ہوں۔

فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍؚ بِاللہِ۝۰ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۶

توان میں سے ایک شخص کی شہات یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ اپنے اس الزام میں سچا ہے۔

وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝۷

اور پانچویں بار کہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔

وَيَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہٰدٰتٍؚبِاللہِ۝۰ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝۸ۙ

اورعورت اس الزام سے اپنے کوبری کرنا چاہے تووہ چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ وہ شخص اپنے اس الزام میں جھوٹا ہے۔

وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللہِ عَلَيْہَآ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۹

اورپانچویں بار عورت کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو اگر وہ مرد سچ بولنے والوں میں سے ہے(اس کولعان کہتے ہیں)

وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ

اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو(ایسے معاملات میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتیں اور تم کوئی ضابطہ نہ بناسکتے جن سے ان جرائم کا انسداد ہوتا ہے)

وَاَنَّ اللہَ تَوَّابٌ حَكِيْمٌ۝۱۰ۧ

بیشک اللہ تعالیٰ بندوں کی حالت پرالتفات فرمانے والے اوربڑے ہی حکیم ہیں (معاشرے کے سنوارنے میں ساری تجاویز الٰہی بڑی ہی موثر وحکیمانہ ہیں)

اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَۃٌ مِّنْكُمْ۝۰ۭ

جن لوگوں نے( حضرت صدیقہؓ کی نسبت) بہتان طرازی کی ہے۔ تم میں کی ایک جماعت ہے( وہ پانچ آدمی تھے)

لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّكُمْ۝۰ۭ بَلْ ہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝۰ۭ

اس واقعہ کواپنے لیے شرنہ سمجھو، بلکہ انجام کے اعتبارسے اس واقعہ میں تمہارے لئے خیر ہے۔

لِكُلِّ امْرِي ٍٔ مِّنْہُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ۝۰ۚ

اس الزام تراشی میں جس نے جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ کمایا۔

وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۱۱

اوران میں سے جس نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا۔ اس کے لیے بڑا ہی سخت عذاب ہے۔

لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ
بِاَنْفُسِہِمْ خَيْرًا۝۰ۙ

جب تم نے یہ بات سنی تھی تومومن مرد اور مومنہ عورتوں نے اپنے ان نیک دل ساتھیوں(سیدہ صدیقہؓ وحضرت صفوانؓ ) کے متعلق حسن ظن کیوں نہیں رکھا۔

وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ۝۱۲

اور کیوں نہ کہہ دیا یہ توصریح جھوٹا الزام ہے۔

لَوْلَا جَاۗءُوْ عَلَيْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ۝۰ۚ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بِالشُّہَدَاۗءِ فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللہِ ہُمُ الْكٰذِبُوْنَ۝۱۳

وہ اپنے اس الزام کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہیں لے آتے جب وہ گواہ نہ لاسکیں تو وہی اللہ کے پاس جھوٹے ہیں۔

وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ لَمَسَّكُمْ فِيْ مَآ اَفَضْتُمْ فِيْہِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۱۴ۚۖ

اور اگر دنیا وآخرت میں تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم جس بات کا چرچہ کرتے تھے اس کی پاداش میں تم پر ایک بڑا ہی سخت عذاب نازل ہوجاتا۔

اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِكُمْ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ہَيِّنًا۝۰ۤۖ

جب تم نے اپنی زبان سے ایک ایسی بات کہی جس کی صحت کا تم کوعلم نہ تھا۔ اور اس کو تم ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے۔

وَّہُوَعِنْدَ اللہِ عَظِيْمٌ۝۱۵

حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی۔

وَلَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِھٰذَا۝۰ۤۖ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِيْمٌ۝۱۶

جب تم نے ایسی بات سنی تھی توکیوں نہ کہہ دیا۔ ہمیں شایان نہیں کہ ایسی بات زبان پرلائیں۔ سبحان اللہ یہ توایک عظیم بہتان ہے۔

توضیح : عرب میں طریقہ تھا کہ جب کوئی تعجب خیز یاانوکھی بات سنتے توسبحان اللہ کہہ کرگفتگو کرتے۔

يَعِظُكُمُ اللہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٖٓ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۷ۚ

اللہ تعالیٰ تم کونصیحت کرتے ہیں۔ اگر تم مومن ہو توآئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا (ایمان کا یہی تقاضا ہے)

وَيُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ اپنے احکام صاف طورپر بیان کرتے ہیں تمہارے لئے

وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۱۸

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔
(یعنی اللہ تعالیٰ کی ہر ہدایت نہایت ہی عالمانہ وحکیمانہ ہے)

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحش پھیلے۔

لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ

ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب ہے۔

وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۱۹

(حقیقت حال کیا ہے) اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔

توضیح :اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ اس طرح کی ایک حرکت کے اثرات معاشرے پرکیا اثر ڈالتے ہیں، پوری قوت سے برائیوں کو مٹانے اور کسی قسم کی مداہنت نہ کرنے کی بھرپورکوشش کرنی چاہئے۔

وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ

اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو اس بہتان طرازی پر تم مستحق عذاب ہوتے)

وَاَنَّ اللہَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۲۰ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ بڑے ہی شفیق ورحیم ہیں( کہ تم کو توبہ کی توفیق بخشی اور اپنے عذاب سے بچالیا)

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا

ائے لوگو جو ایمان لائے ہو شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو (یعنی اس کے

خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّتَّبِـعْ
خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ

بہکاوے پر عمل نہ کرو) اور جو کوئی شیطان کی پیروی کرے گا۔

فَاِنَّہٗ يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝۰ۭ

وہ تو فحش وبے حیائی کے کاموں کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔

وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ

اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی۔

مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا۝۰ۙ

تو تم میں سے کوئی شخص کبھی پاک نہ ہوتا۔
(یعنی اپنے طورپر نفس کا تزکیہ نہ کرسکتا)

وَّلٰكِنَّ اللہَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

مگر اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں پاک کئے دیتے ہیں( یعنی اس کو توبہ کی توفیق بخشتے ہیں تووہ ندامت کے ساتھ تائب ہوتا ہے)

وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۱

اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی سننے والے جاننے والے ہیں (یعنی تزکیہ چاہنے والوں کی دعاؤں کوسننے والے اوران تجاویز کوبھی جاننے والے ہیں جن سے واقعی تزکیہ ہوتا ہے)

توضیح :واقعہ افک یہ ہے کہ حضرت رسولﷺ ایک جہاد سے واپس آرہے تھے، رات کوراستے میں قیام فرمایا۔ صبح قافلہ کی روانگی سے پہلے سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ رفع حاجت کے لئے جا کر واپس آئیں توان کے گلے کا زیور گلے میں نہ تھا۔ وہ ڈھونڈھنے کے لئے چلی گئیں، اس اثنا میں قافلہ روانہ ہوگیا اور یہ سمجھا گیا کہ ام المومنینؓ اپنے ہودہ میں بیٹھی ہوئی ہیں۔
آپ واپس آئیں، قافلہ کوموجود نہ پا کر اللہ تعالیٰ کے بھروسہ بیٹھی رہیں۔ عرب میں طریقہ تھا کہ کوئی شخص اس خدمت پرمامور کیا جاتا تھا کہ قافلہ روانہ ہوجانے کے بعد وہ قافلہ کے پیچھے آئے تا کہ قافلہ والوں کا گرا پڑا سامان اٹھاکر لائے۔ جس کو عربی زبان میں حاطب الیل کہتے ہیں۔ اس قافلہ کے ساتھ اس پر صفوان نامی ایک صحابی مقرر تھے۔ اس اثنا میں وہ آگئے اور ام المومنینؓ کو اپنے اونٹ پر سوار کرایا اور خود پیدل چلتے ہوئے موصوفہ کومدینہ پہنچادیا۔ منافقین کوالزام تراشی کا موقع مل گیا اور سیدہ عائشہؓ پر بہتان باندھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان مذکورہ آیتوں میں ان کے بہتان کی پوری طرح تردید فرمائی ہے اور بہتان لگانے والوں میں سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے ایک غریب عزیز بھی تھے۔ سیدنا صدیق ؓ وقتا فوقتا ان کی مدد کردیتے تھے۔ اپنی دختر محترمہ کے تعلق سے آپ اپنے عزیز سے ناراض ہوگئے اور امداد بند کردی، اب اس کا بیان شروع ہوتا ہے۔

وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُہٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۝۰۠ۖ

تم میں جو لوگ صاحب فضل ہیں اور معاشی وسعت رکھتے ہیں ان کے لئے زیبا نہیں کہ کسی غلطی کی بناء پر اپنے قرابت دار مسکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے مہاجرین کی امداد بند کردینے کی قسم کھائیں۔

وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۝۰ۭ

بلکہ انھیں چاہئے کہ عفو و درگزر سے کام لیں۔

اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۲۲

کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰتم کومعاف فرمائیں اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم کرنے والے ہیں۔
(اہل ایمان کوچاہئے کہ اپنے اندر ایسے ہی اخلاق پیدا کریں)

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا

جو لوگ پاک دامن بے خبر ایمان والی بی بیویوں پر عیب لگاتے ہیں ان پر دنیا وآخرت میں لعنت ہے۔

وَالْاٰخِرَۃِ۝۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۲۳ۙ

اور ان کے لئے بڑا ہی سخت عذاب ہے۔

حضوراکرمﷺ نے فرمایا: قَذَفَ الْمُحْصَنٰۃٌ لَھَدَّمُ عَمَلُ مِائَ ۃَ سَنَۃ۔
ترجمہ:۔ ایک پاک دامن عورت پرتہمت لگانا سو برس کے اعمال کوغارت کردینے کے لئے کافی ہے۔

يَّوْمَ تَشْہَدُ عَلَيْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۴

یہ عذاب اس دن ہوگا جس دن ان کی زبانیں ان کے ہاتھ اور ا ن کے ہاتھ پیر ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے جنہیں وہ کیا کرتے تھے۔

يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْہِمُ اللہُ دِيْنَہُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ الْمُبِيْنُ۝۲۵

اس دن اللہ تعالیٰ انھیں بھر پور بدلہ دیں گے جس کے وہ مستحق ہیں اور (قیامت کے دن) یہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق کا حق اورباطل کا باطل ہونا ظاہر کرتے ہوئے ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرماتے ہیں ۔

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ

خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے اور خبیث مرد خبیث عورتوں

وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ۝۰ۚ

کے لئے۔

وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ۝۰ۚ

اورپاک دامن عورتیں پاک دامن مردوں کے لایق ہوتی ہیں اورپاک دامن مرد پاک دامن عورتوں کے لئے

اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ۝۰ۭ

یہ لوگ ان بدگوئیوں سے بالکل بری ہیں جن سے ان کی پاکدامنی پر حرف آتا ہے۔

لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝۲۶ۧ

ان کیلئے( ایسے ہی پاک بازوں کیلئے) مغفرت اور باعزت روزی ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَہْلِہَا۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ

ائے وہ لوگو جوایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں ان کی اجازت اورانھیں سلام کئے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ یہ طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے۔

لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝۲۷

یہ نصیحت اس لئے کی جاتی ہے کہ تم اس کومستحضر رکھو (اور اس کے مطابق عمل کئے جاؤ)

فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْہَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْہَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ۝۰ۚ

پھر اگر وہاں کسی کونہ پاؤ تو اس میں داخل نہ ہو جب تک کہ وہ تمہیں اجازت نہ دیں۔

وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ہُوَاَزْكٰى لَكُمْ۝۰ۭ

اور اگر تم کوواپس ہونے کے لئے کہا جائے تو (بغیر کسی گرانی اوررنجش کے) واپس ہوجاؤ۔ یہ تمہارے لئے پاک صاف طریقہ ہے۔

وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۲۸

جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے واقف ہیں۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَۃٍ فِيْہَا مَتَاعٌ لَّكُمْ۝۰ۭ

اگر تم ایسے گھروں میں داخل ہوجاؤ جس میں کوئی نہ رہتے ہوں اور اس میں تمہارا سامان ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔

وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ۝۲۹

اللہ تعالیٰ جانتے ہیں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ

ائے نبیﷺ مومن مردوں سے کہئے نظریں نیچی کرلیا کریں اور اپنی

اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۝۰ۭ

شرمگاہوں کی حفاظت کریں (یعنی ناجائز شہوت رانی اور اس کے متعلقات سے بچیں)

ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ۝۰ۭ

یہ ان کے لئےصاف طریقہہے۔

اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ۝۳۰

(اس حکم کی خلاف ورزی کیلئے) وہ جو کچھ حیلے بناتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ

اور(اسی طر ح ائے نبیﷺ مومن عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ

يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ

(جب مرد سامنے آجائیں تو) اپنی نظریں نیچی کرلیں اور اپنے شرمگاہ کی حفاظت کریں۔

یعنی ناجائز شہوت رانی اور اس سے قریب کرنے والے اعمال سے بچیں۔ اوراپنا ستر دوسروں کے سامنے نہ کھولیں۔

وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْيَضْرِبْنَ

اوراپنی زینت کوظاہر نہ کریں۔ بجز اس کے کہ کسی وجہ سے ظاہر ہوجائے۔ ( جیسے چادر کا ہوا سے اڑنا وغیرہ)

بِخُمُرِہِنَّ عَلٰي جُيُوْبِہِنَّ۝۰۠

اوراپنی اوڑھنیوں کواپنے سینوں پرڈالے رکھیں۔(یعنی اپنے سینہ کے ابھار کو چھپائیں)

وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ

اوراپنے شوہرکے سوا اپنی زینت عام لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کریں (ناجائز جنسی میلانات روکنے کے لئے یہ حکم دیا گیا)

اَوْ اٰبَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ

یا اپنے محرم مرد یعنی باپ یا اپنے شوہر کے باپ

اَوْ اَبْنَاۗىِٕہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ

یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں

اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِہِنَّ

یا اپنے حقیقی علاتی یا اخیافی بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں

اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕہِنَّ

یا اپنی حقیقی علاتی واخیافی بہنوں کے بیٹوں یا دینی مسلمان عورتوں

اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُنَّ

یا اپنے باندی غلام یا اپنے گھر کے وہ نوکر چاکر۔

اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَۃِ

جو اور کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں( جن کے دلوں میں تمہارا احترام ہو)

مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْہَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ۝۰۠

یا ان لڑکوں کے سامنے جوعورتوں کے پردہ کی باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔

جن کے دلوں میں ہنوز جنسی میلانات پیدا نہ ہوئے ہوں ایسے بچوں کی موجودگی میں زینت کونہ چھپاؤ توکوئی ہرج نہیں۔
کافر عورتوں کا حکم اجنبی مردوں کے مثل ہے۔

وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِہِنَّ۝۰ۭ

اورنہ اس طرح چلو کہ تمہارے پاؤں کے زیور کی جھنکار غیر لوگ سنیں۔ جو زینت چھپا کر رکھی گئی ہے اس کا علم لوگوں کوہوجائے۔

نگاہ کے سوا دوسرے حواس کومشتعل کرنے والی چیزوں سے بھی احتیاط کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ عطرلگا کرباہر نکلنے کی ممانعت ہے۔

وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۱

ائے ایمان والو(اب تک جو کچھ بے احتیاطی کرتے رہے تھے) تم سب ان سے توبہ کرو۔ تا کہ تمہیں فلاح آخرت نصیب ہو۔

وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ۝۰ۭ

اورتمہاری قوم کی وہ بیوہ عورتیں اور وہ مرد جن کی عورتیں فوت ہوچکی ہوں(اور وہ مرد جو مجرد ہوں) ان کا نکاح کردیا کرو اورتمہارے باندی غلام جو نیک کردار ہوں۔ ان کے نکاح کردیا کرو۔

اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِہِمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ

اگر وہ غریب ہوں تواللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انھیں غنی کردیں گے۔

وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝۳۲

اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے اور سب کچھ جاننے والے ہیں ۔

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ

اور جو لوگ زوجہ کا نفقہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اپنی عصمت کی حفاظت کریں یا ضبط نفس سے کام لیں تا آنکہ حق تعالیٰ اپنے فضل سے نفقہ ادا کرنے کی استطاعت پیدا کریں ۔

وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْہُمْ

اورتمہارے وہ غلام جو تم سے مکاتبت چاہیں توان سے مکاتبت کرلو۔

اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْہِمْ خَيْرًا۝۰ۤۖ

اگرتم اس میںخیر پاؤ

یعنی تمہارے باندی غلام تجارت کے ذریعہ اپنی قیمت ادا کرکے آزاد ہوجانے کا پیش کش کریں اور تمہیں اطمینان ہو۔

وَّاٰتُوْہُمْ مِّنْ مَّالِ اللہِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ۝۰ۭ وَلَا تُكْرِہُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا

اللہ تعالیٰ نے تم کو جومال دیا ہے اس میں سے ان کو قرض دو اوراپنی لونڈیوں کواگر وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہوں تو بے شرمی کے ساتھ دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لئے انھیں بدکاری پرمجبور نہ کرو (یعنی

لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۭ

ان کی عصمت فروشی نہ کرو۔)

وَمَنْ يُّكْرِھْہُّنَّ فَاِنَّ اللہَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاہِہِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۳

اور جو کوئی انھیں مجبور کرے گا اور وہ اس سے متنفر ہوں تواللہ تعالیٰ ان کے لئے غفور ورحیم ہیں انھیں معاف کردیں گے۔

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ

اوریقیناً ہم نے تمہارے(معاشرے کی اصلاح کے) لئے نہایت ہی واضح ہدایتیں نازل کی ہیں۔

وَّمَثَلًا مِّنَ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۳۴ۧ

اور ان لوگوں کے حالات و واقعات بھی (بیان کیے) جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں اور (اس میں) متقین کے لئے نصیحت ہے۔

اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اورزمین کا نور ہے

مَثَلُ نُوْرِہٖ كَمِشْكٰوۃٍ فِيْہَا مِصْبَاحٌ۝۰ۭ

اس کے نور کی مثال طاق جیسی ہے جس میں چراغ ہو

اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَۃٍ۝۰ۭ

اور چراغ شیشے کے فانوس میں ہو

اَلزُّجَاجَۃُ كَاَنَّہَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَكَۃٍ زَيْتُوْنَۃٍ

اورشیشہ گویا کہ موتی سا چمکتا دمکتا تارے کی طرح ہو اور وہ چراغ زیتون کے مبارک (کثیرۃ النفع) درخت کے تیل سے روشن ہوتا ہے۔

لَّا شَرْقِيَّۃٍ وَّلَا غَرْبِيَّۃٍ۝۰ۙ

جو نہ مشرقی ہو اورنہ مغربی

کھلے میدان میں بلندی پرواقع ہو جہاں صبح سے شام تک اس درخت پردھوپ پڑتی ہے ایسے ہی درخت کا تیل زیادہ لطیف اورزیادہ روشنی دیتا ہے۔

يَّكَادُ زَيْتُہَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۝۰ۭ

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا تیل آگ لگے بغیر جل اٹھنے کو ہے۔
(یعنی اس کو سلگ جانے کے لئے کسی خارجی آگ کی ضرورت نہیں ہے)

نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ۝۰ۭ

اس طرح روشنی پرروشنی پڑنے کے تمام اسباب مہیا ہوں۔

يَہْدِي اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف جسے چاہتے ہیں رہنمائی بخشتے ہیں۔

وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ۝۰ۭ وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۳۵ۙ

اور اللہ تعالیٰ لوگوں (کی ہدایت) کے لئے (ایسی) مثالیں بیان فرماتے ہیں۔ اوراللہ تعالیٰ ہرچیز سے واقف ہیں۔

فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ

اس علم کا چرچا ان گھروں اورعبادت خانوں میں ہوتا ہے، جس کو بلند

وَيُذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ۝۰ۙ

رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

يُسَبِّــحُ لَہٗ فِيْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۝۳۶ۙ

جہاں صبح وشام اس کی تسبیح کی جاتی ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ کا ہر نقص وعیب سے پاک ہونا کائنات کا بلا شرکت غیرے تنہا فرماں روا مالک معبود ومستعان ہونا بیان کیا جاتا ہے۔

رِجَالٌ۝۰ۙ لَّا تُلْہِيْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوۃِ۝۰۠ۙ

(ان مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے والے) وہ مرد ہیں جن کوان کے کاروبار اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کرتے اور وہ نمازیں قائم کرتے ہیں، اور زکوۃ دیا کرتے ہیں۔

يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۝۳۷ۤۙ

اوروہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی دہشت سے دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں اوپر کوچڑھ جائیں گی (پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی)

لِيَجْزِيَہُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا

(یہ دن اس لئے مقرر ہے) تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے نیک عمل کا بہتر سے بہتر بدلہ دیں

وَيَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ

اوراپنے فضل سے زیادہ بھی عطا کریں۔

وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝۳۸

اوراللہ تعالیٰ جس کوچاہتے ہیں بے حد وحساب عطا فرماتے ہیں

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا

اورجن لوگوں نے کفر کیا (دین حق، دین فطرت، دین اسلام کا انکار کیا،

اَعْمَالُہُمْ كَسَرَابٍؚ بِقِيْعَۃٍ يَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً۝۰ۭ

نہ مانا اوراپنے خود ساختہ عقاید واعمال میں مبتلا رہے اور اسی کونجات کا ذریعہ جانا) ان کے اعمال میدان کی ریت (سراب) کی طرح ہیں، جس کو دیکھ کر پیاسا پانی سمجھتا ہے۔

توضیح : ریگستان جب تپنے لگتا ہے تو شدت حرارت سے تپش چلنے لگتی ہے جس سے ریت بہتے ہوئے پانی کی طرح دکھائی دیتی ہے، جس سے یقینی طورپر اس کے پانی ہونے کا دھوکا ہوتا ہے۔

حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءَہٗ لَمْ يَجِدْہُ شَـيْــــًٔـا وَّوَجَدَ اللہَ عِنْدَہٗ

یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا، اور وہ وہاں اللہ تعالیٰ ہی کوپایا( یعنی پیاس ہی کی حالت میں جان دی)

فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ۝۰ۭ

پھر اللہ تعالیٰ نے اس (کی بدعقیدگیوں، بے ایمانیوں) کا پورا پورا حساب چکادیا۔ یعنی قرار واقعی سزادی۔

وَاللہُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝۳۹ۙ

اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والے ہیں(یعنی حساب لینے میں دیر نہیں لگتی)

اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشٰـىہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ۝۰ۭ 

یا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک گہرے سمندر کی تہہ کا اندھیرا جس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو، پھر موج پر دوسری موج چھا جائے، اور اس کے اوپر بادل ہوں۔

ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ۝۰ۭ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَہٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىہَا۝۰ۭ

اندھیروں پر اندھیرا تاریکیوں پرتاریکیاں ایک پر ایک چھائی ہوئی ہیں جب اپنا ہاتھ نکالے توکچھ دیکھ نہ سکے۔

وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ۧ

جس کو اللہ تعالیٰ علم وہدایت کی روشنی نہ بخشیں پھر اس کویہ روشنی کہاں سے میسر آسکتی ہے(یعنی جوطالب حق نہ ہو، دین حق کا انکار کرے، جہل کی

ان مذکورہ تاریکیوں میں پڑا رہے تواللہ تعالیٰ اس کونہ تو نورحق کی روشنی عطا کرتے ہیں، نہ وہ یہ روشنی کہیں اور سے پاسکتاہے۔)

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

(ائے نبیﷺ) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین میں جومخلوق ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی پاکیزگی بیان کرتی ہے

وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ۝۰ۭ

اور پرپھیلائے ہوئے اڑنے والے پرند بھی۔

كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِيْحَہٗ۝۰ۭ

ہرایک اپنی اپنی نماز اور تسبیح کوجانتا ہے

وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ۝۴۱

اور جو کچھ وہ کرتے ہیں سب اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔

وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَاِلَى اللہِ الْمَصِيْرُ۝۴۲

آسمانوں اورزمین میں اللہ تعالیٰ ہی کی فرماں روائی ہے، اور سب کواسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَہٗ

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بادلوں کوآہستہ آہستہ چلاتے ہیں، پھر ان کے ٹکڑوں کوآپس میں ملادیتے ہیں۔

ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُكَامًا

پھر انھیں دبیز(موٹا) بنایا جاتا ہے،

فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ۝۰ۚ

پھر تم بادلوں سے مینہ برستا ہوا دیکھتے ہو،

وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ

اورآسمان جیسی بلندی اورپہاڑوں جیسے بادلوں سے بارش برساتے ہیں،

فِيْہَا مِنْۢ بَرَدٍ

اس میں اولے بھی ہوتے ہیں۔

فَيُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ

پھر جس پرچاہتے برساتے ہیں۔

وَيَصْرِفُہٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اور اس سے جس کوچاہتے ہیں اس کا رخ پھیر دیتے ہیں۔

يَكَادُ سَـنَا بَرْقِہٖ يَذْہَبُ

بادل (میں جوبجلی ہوتی ہے اس) کی چمک نگاہوں کوخیرہ کئے دیتی ہے۔

بِالْاَبْصَارِ۝۴۳ۭ

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بینائی چھین لے گی۔

يُقَلِّبُ اللہُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ ہی رات اور دن کوبدلتے رہتے ہیں۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ۝۴۴

(اہل دانش) دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لئے ان واقعات میں اللہ تعالیٰ کے الہ واحد ہونے کی نشانیاں ہیں۔

وَاللہُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ۝۰ۚ

اور اللہ تعالیٰ نے (زمین پر رہنے والے) ہرجاندار کوپانی سے تخلیق فرمایا ہے

فَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي بَطْنِہٖ۝۰ۚ

تو ان میں بعض پیٹ کے بل چلتے ہیں( جیسے سانپ وغیرہ)

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي رِجْلَيْنِ۝۰ۚ

اور ان میں بعض دونوں پاؤں سے چلتے ہیں۔

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰٓي اَرْبَعٍ۝۰ۭ

اور ان میں بعض چاروں پاؤں سے چلتے ہیں

يَخْلُقُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ نے جس طرح چاہا تخلیق فرمایا

اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۴۵

بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پرقادر ہے۔

لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ۝۰ۭ

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) ہم ہی نے (تم کوسمجھانے کے لئے) نہایت ہی واضح آیتیں نازل کیں۔

یعنی تم پریہ بات واضح کردی ہے کہ ہم نے اپنے کسی مقرب بندہ کواپنا اختیار دے کرشریک فرماں روائی نہیں بنایا۔ ہم تنہا فرماں روائی پرقادر ہیں۔

وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۴۶

اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں(طالب ہدایت کوہدایت دی جاتی ہے)

وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا

اوربعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی(یعنی اللہ تعالیٰ کوالٰہ واحد مانا اللہ کے رسول کوبرحق جانا)

ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۝۰ۭ 

پھر اس( اقرار) کے بعد ان ہی میں کا ایک گروہ اطاعت سے پھرجاتا ہے۔

وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۴۷

دراصل یہ لوگ مومن ہی نہیں ہیں۔

وَاِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ

اور جب ان کواللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ

لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَ۝۴۸

(رسول اللہﷺ) ان کے درمیان فیصلہ کردے توان میں ایک فریق گریز کرتا ہے(تصفیہ کرانا نہیں چاہتا)

وَاِنْ يَّكُنْ لَّہُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْہِ مُذْعِنِيْنَ۝۴۹ۭ

اور اگر انھیں اپنا حق پہنچتا ہے توبہت ہی اطاعت کیش بن کر چلے آتے ہیں۔

اَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْٓا

کیا ان کے دلوں میں (کفر ونفاق کی) بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں

اَمْ يَخَافُوْنَ اَنْ يَّحِيْفَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَرَسُوْلُہٗ۝۰ۭ

یا انھیں یہ خوف ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ان کے حق میں ناانصافی کریں گے۔

بَلْ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۵۰ۧ

بلکہ یہ خود ہی ظالم ہیں۔

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ

اہل ایمان کے خصوصیات ہی یہ ہوتی ہیں۔

اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ

جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق باہم فیصلے کے لئے بلائے جاتے ہیں۔

اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ

تو وہ صمیم قلب کے ساتھ کہتے ہیں ہم نے سنا اورمان لیا
( یعنی شریعت کے مطابق ہمیں فیصلہ منظور ہے)

وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵۱

ایسے ہی لوگ آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔

وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَخْشَ اللہَ وَيَتَّقْہِ

اور جو اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں (یعنی اس کی نامرضیات سے پرہیز کرتے ہیں)

فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۵۲

یہی لوگ کامیاب وبامراد ہوں گے۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ

اور منافقوں کا یہ حال ہے کہ (اپنے مومن باور کرانے کے لئے) اللہ تعالیٰ کی بڑی سے بڑی قسمیں کھاتے ہیں (اورکہتے ہیں)

لَىِٕنْ اَمَرْتَہُمْ لَيَخْرُجُنَّ۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ) اگرآپ انھیں حکم دیں تووہ سب (اپنے گھر بار چھوڑکر جہاد کے لئے) نکل کھڑے ہوں۔

قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا۝۰ۚ

ان سے کہئے قسمیں نہ کھائیں۔

طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ۝۰ۭ

تمہاری اطاعت کاحال معلوم ہے۔

اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۵۳

بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہیں۔

قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ۝۰ۚ

ائے نبی (ﷺ) کہہ دیجئے، اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرو اور رسول اللہ کے حکم پر چلو

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ۝۰ۭ

پھر اگر تم احکام الٰہی سے منہ موڑوگے توسن لو رسول اپنے فرائض منصبی کوتم تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اور تعمیل احکام کی ذمہ داری تم پر ہے (نافرمانی کا وبال تم ہی پرہوگا)

وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۝۰ۭ

اگر تم رسول کی اطاعت کروگے توسیدھا راستہ پاؤگے۔

وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۝۵۴

اور رسول کے ذمہ توصاف صاف (بلاکم وکاست) احکام الٰہی پہنچا دیناہے۔

وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور الٰہی تعلیم کے مطابق نیک کام کرتے رہیں توان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ

لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠

انھیں خلافت ارضی عطا کریں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کوعطا کی گئی تھی۔

وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ

اور جس دین اسلام کواللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند کیا ہے، اس میں انھیں استحکام بخشیں گے۔

وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ

اور (دشمنوں کا) جو خوف انھیں لگا ہوا ہے اس کوامن سے بدل دیں گے (مگر شرط یہ ہے کہ)

يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ

وہ میری ہی عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی اور کو(کسی بھی حیثیت سے) شریک نہ کریں۔

وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ

اور اس کے بعد جو کوئی کفر اختیار کرے گا( یعنی دین سے ہٹ جائے گا )

فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۵۵

توایسے ہی لوگ فاسق وگنہگار ہیں۔

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ

اورنماز قائم کرو اور زکوۃ دیتے رہو۔

وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۵۶

اور رسول اللہﷺ کے حکم پر چلتے رہو( خلافت ارضی کے یہی بنیادی فرائض ہیں) اوریہ احکام اس لئے دیئے گئے ہیں کہ تم رحمت الٰہی کے مستحق بنو۔

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝۰ۚ

کافروں کی نسبت کبھی ایسا خیال بھی نہ کرنا کہ وہ (ہمارے عذاب سے بچنے کے لئے) زمین کے کسی حصہ میں بھاگ کربچ بھی سکیں گے؟

وَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ۝۰ۭ وَلَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۵۷ۧ

(آخرت میں) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِـيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ۝۰ۭ

ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لونڈی غلام اور تمہارے وہ لڑکے جو ابھی سن بلوغ کونہیں پہنچے ہیں۔ (یا سن بلوغ کے قریب ہیں) تم سے تین موقعوں پراجازت لئے بغیر تمہاری خلوت گاہوں میں داخل نہ ہوا کریں۔

مِنْ قَبْلِ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّہِيْرَۃِ

صبح کی نماز فجر سے پہلے اور دوپہر کے وقت جب کہ تم گرمی سے اپنے کپڑے اتار کر آرام لیتے ہو۔

وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوۃِ الْعِشَاۗءِ۝۰ۣۭ

اور عشاء کی نماز کے بعد،

ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ۝۰ۭ

یہ تینوں اوقات تمہارے پردے کے ہیں۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْہِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَہُنَّ۝۰ۭ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝۰ۭ

اس کے بعد کام کاج کے لئے اجازت کے بغیر آنے جانے میں تم پر اور ان پرکوئی گناہ نہیں ہے۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ۝۰ۭ

اسی طرح اللہ تعالیٰ (تمہارے معاشرہ کی اصلاح کے لئے) واضح احکام بیان فرماتے ہیں۔

وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۵۸

اوراللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔ (یعنی ہر حکم نہایت ہی عالمانہ وحکیمانہ ہے)

وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا كَـمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ

اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں توانھیں بھی اسی طرح اجازت لینی چاہئے، جس طر ان سے پہلے کے (بڑے) اجازت لیا کرتے تھے۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝۵۹

اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام واضح طورپر ارشاد فرماتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں۔
(یعنی اللہ تعالیٰ کا ہر حکم عالمانہ اور ہرتجویز حکیمانہ ہے)

وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا

وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا

فَلَيْسَ عَلَيْہِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَہُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍؚبِزِيْنَۃٍ۝۰ۭ

اگر وہ جو ان عورتوں کی طرح (چادر) سے ستر پوشی نہ کریں تو، ان پر کوئی گناہ نہیں، بہ شرطیکہ انھیں اپنے حسن کی نمائش مطلوب نہ ہو۔

وَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّہُنَّ۝۰ۭ

تا ہم اگر وہ احتیاط برتیں توانھیں کے لئے بہتر ہے۔

عورت کا ستر، گلے سے لے کر ہاتھ کے پہنچوں اور پاؤں کے ٹخنوں تک ہے اور سر کے بال بھی ستر میں داخل ہیں۔

وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۶۰

اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والے ہیں۔

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ

نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اورنہ بیمار پر، اورنہ خود تم پر،

اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَاۗىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّہٰتِكُمْ

کہ تم اپنے گھروں میں کھاپی لویا اپنے باپ کے گھر یا اپنی ماؤں کے گھر

اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ

یا اپنے بھائیوں کے گھر

اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ

یا اپنی بہنوں کے گھر

اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ

یا اپنے چچاؤں کے گھر

یا اپنے چچاؤں کے گھر

یا اپنی پھوپیوں کے گھر

اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ

یا اپنے ماموں کے گھر

اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ

یا اپنی خالاؤں کے گھر یا ان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں (یعنی اپنے آزاد کردہ غلام)

اَوْ صَدِيْقِكُمْ۝۰ۭ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ

یا اپنے گہرے دوستوں سے گھروں میں کھانے پینے کا انتظام کرلو تو کوئی حرج نہیں۔

اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْـتَاتًا۝۰ۭ

چاہے سب مل کر کھاؤ یا اپنی اپنی سہولت کے لحاظ سے

فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ

علیحدہ علیحدہ (مگر کسی کے دل میں یہ بات نہ آنی چاہئے کہ کس نے کم یا زیادہ کھایا)

تَحِيَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللہِ

لہٰذا جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کوسلام کیا کرو۔

مُبٰرَكَۃً طَيِّبَۃً۝۰ۭ

کیونکہ سلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کی ہوئی نہایت ہی پاکیزہ اور بڑی ہی بابرکت دعا ہے۔

كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۶۱ۧ

اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام نہایت ہی وضاحت کے ساتھ کھول کھول کربیان کرتے ہیں۔ تا کہ تم سمجھ لو۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ

دراصل مومن( مسلم) تو وہی ہیں جو صدق دل سے اللہ تعالیٰ پر اوراس کے رسولؐ پر ایمان رکھتے ہیں۔

وَاِذَا كَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْہَبُوْا حَتّٰى يَسْتَاْذِنُوْہُ۝۰ۭ

اور جب کسی اجتماعی مہم میں رسولؐ کے ساتھ ہوں۔ تو ان سے اجازت لئے بغیر نہ جائیں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۚ

جو لوگ آپؐ سے اجازت مانگتے ہیں۔ وہی اللہ تعالیٰ اور رسول پرایمان رکھتے ہیں۔

فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْہُمْ

جب یہ لوگ آپؐ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت مانگیں توآپ ان میں سے جس کوچاہیں اجازت دیں۔

وَاسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللہَ۝۰ۭ

تو ان کے لئے دعائے مغفرت بھی کیا کریں۔ (کیونکہ اجتماعی ضرورت انفرادی ضرورت پرمقدم ہے)

اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۶۲

یقیناً (توبہ واستغفار کے بعد) اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ

(ائے ایمان والو) رسول اللہﷺ تم کو(کسی بھی معاملہ میں) بلائیں توفورا ًحاضر ہوجاؤ۔ (اس بلانے کومعمولی بلاوا نہ سمجھیں)

بَعْضِكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ

جیسے آپس میں ایک دوسرے کوبلاتے ہو(جب تک جی چاہا بیٹھے رہے، جب چاہا اجازت بغیر چل دیئے، رسول کی اجازت بغیر چلے جانا حرام ہے)

قَدْ يَعْلَمُ اللہُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا۝۰ۚ

بلاشبہ، اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کوخوب جانتے ہیں جو (اجازت بغیر مجلس نبوی سے آہستہ آہستہ) سرکتے ہوئے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں (یہ منافقین کی روش ہے)

فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِيْبَہُمْ فِتْنَۃٌ

جو لوگ آپؐ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں وہ پریشانی میں مبتلا نہ کردیئے جائیں۔

اَوْ يُصِيْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۶۳

یا ان پر تکلیف دہ عذاب نازل ہو۔

اَلَآ اِنَّ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

خبردار (یاد رکھو) جو کچھ زمین وآسمان میں ہے، سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ (اسی کے حکم واختیار میں ہے)

قَدْ يَعْلَمُ مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ۝۰ۭ

یقیناً اللہ تعالیٰ جانتے ہیں تم کس حال میں ہو

وَيَوْمَ يُرْجَعُوْنَ اِلَيْہِ فَيُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا۝۰ۭ

اور جس دن وہ اس کے پاس لوٹائے جائیں گے تواللہ تعالیٰ انھیں بتادیں گے کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں۔

وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۶۴ۧ

اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتے ہیں۔