☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

اَلرَّحْمٰنُ۝۱ۙ
عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۝۲ۭ

اللہ رحمٰن (ہی نے)
(محمدﷺکو) قرآن کی تعلیم دی

توضیح :یعنی یہ کسی کا گھڑا ہوا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے،جو بہ کمال رحمت،بندوںکی ہدایت کے لئے محمدﷺپر نازل فرمایاگیاہے۔ رحمٰن اللہ تعالیٰ کا اسم حسن ہے۔ پوری سُورۃ میں رحمانیت کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ۝۳ۙ

اسی نے انسان کو پیدا کیا

توضیح : خالق ہی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی رحمت سے مخلوق کی رہنمائی کرے۔ چنانچہ ہر دور میں آسمانی احکام انبیاء علیہ السلام کے ذریعہ آتے رہے،اور آخر میں ان سب احکام و قوانین کا مجموعہ، قرآن نازل کیاگیا جو قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کرتارہے گا۔

عَلَّمَہُ الْبَيَانَ۝۴

اوراس کو بولناسکھایا

توضیح :قوتِ گو یا ئی بخشی تاکہ وہ اپنا مدعا بیان کرسکے۔اس کے علاوہ عقل وشعور، فہم وادر اک،بھلائی وبرائی کا امتیاز واختیار بخشتا۔ نیز سماعت وبصارت،دل ودماغ عطاکئے، اور تعلیم و تربیت کے لئے اپنی کتاب قرآن مجید نازل فرمائی۔

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ۝۵۠

سورج اور چاند(اپنے اپنے محور پر)ایک حساب کے ساتھ(باقاعدہ) گردش کرتے ہیں۔

تاکہ وقت، پہر، دن، رات،تاریخ کا حساب ہوتا رہے وار مو سم بدلتے رہیں۔

وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِ۝۶

اور تارےاور تنے دار دخت اسی کے تابع فرمان ہیں۔

توضیح :ہر درخت کے پھل پھول اور ہر جڑی بوٹی کی تاثیر اور ہر تخم کا مقررہ درخت، ان کے خواص وآثار اسی کے قانون کے پابند ہیں، ان کے مقررہ و متعینہ خواص وآثار میں سر مو تجا وز نہیں ہوتا۔ اور یہ سب اللہ رحمٰن کی تسبیح کرتے ہیں، جو سجدہ ریزی کے عین مترادف ہے۔

وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ۝۷ۙ
اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ۝۸
وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ۝۹

اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور میزان قائم کیا۔
تاکہ تم تو لنے میں کمی بیشی نہ کرو(کسی کا حق نہ مارو)
اور انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو
اور تول میں کمی نہ کرو۔

وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ۝۱۰ۙ
فِيْہَا فَاكِہَۃٌ۝۰۠ۙ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ۝۱۱ۖ

اور اسی نے زمین کو مخلوقات کے رہنے سہنے کے قابل بنا یا۔
اس میں (طرح طرح کے بہ کثرت لذیذ) میوے ہیں اور کھجور کے درخت جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں۔

یعنی چھلکوں کے اندر میوے محفوظ رہتے ہیں جیسے،بادام،، موزانار،سنترہ،ناریل وغیرہ

وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ۝۱۲ۚ

اور طرح طرح کابھو سی دار اناج خوشبو دار پُھول(اسی زمین سے پیدا کئے)

توضیح :اللہ تعالیٰ کا بلا شرکتِ غیرے تنہا بہ نفسِ نفیس اپنی قدرت کاملہ سے آسمانوں اور زمین کو مخلوقات کے رہنے سہنے کے قابل بنا نا۔ آگ،ہوا، پانی سورج، چاند تارے اور رات دن کا نظام قائم کرنا، مخلوقات کی رزق رسانی کے لئے زمین سے طرح طرح کے میوے،پھل، پھول، اناج وغیر ہ کا پیدا کرنا، خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری مخلوقات کے رب، خالق، مالک، حاجت روا، مشکل کشا، کار ساز، معبود ومستعان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر اللہ کو مدد کے لئے پکار نا،اللہ کے مقرب بندوں کو حاجت روا اور کار ساز سمجھنا،ان کا واسطہ ووسیلہ لینا،ان کی نیاز ونذر ماننا، انھیں مانع و معطی جاننا شرک ہے۔ جس کا انجام جہنم ہے۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۱۳

لہٰذا( ائے جن وانس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤگے؟

توضیح : اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کی نعمتیں اپنے بندوں پر اس قدر ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کاہر شخص انھیں شمار کرنا چاہے تو وہ شمار نہیں ہو سکتیں۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۝۰ۭ (سورۃ ابراہیم آیت ۳۴) کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔
اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں اکتیس قسم کی نعمتوں کا ذکر فرما یا ہے، اور ہر ایک قسم کی نعمت کے ذکر کے بعد جن وانس سے پوچھا جارہاہے کہ تم آخراللہ تعالیٰ کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟
تر مذی، مستدرک، حاکم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ کے رو برو یہ سورۃ پڑھی۔ صحابہ ؓ سن کر خاموش بیٹھے رہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ تم لوگوں کی بہ نسبت جِنْ زیادہ قدر دان ہیں۔ کیونکہ جنات کے رو برو میں نے ایک رات یہ سورۃ پڑھی تو انھوں نے ہر دفعہ آیتفَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِکے بعد کہا تھا : لاَبِشَیْ ئٍ مِّنْ نِعْمَتِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ۔ ترجمہ ائے ہمارے پر ور دگار آپ کی نعمتوں میں سے ہم کسی نعمت کا انکار نہیں کرتے پس ساری تعریفیں آپ کے لئے ہیں۔ نیز جھٹلا نے سے مراد وہ متعدد رویے ہیں جنھیں بعض لوگ اختیار کئے ہوئے ہیں مثلاً:
۱۔ سرے سے مانتے ہی نہیں کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ مادّے کے اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے جس
میں کسی حکمت و صنا عی کا دخل نہیں ۔ یہ عقیدہ سراسر کفر ہے۔
۲۔ بعض سمجھتے ہیں کہ چیزوں کا پیدا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک فرمانروائی ٹھیراتے ہیں۔ انھیں نافع و ضار جانتے ہیں۔ ان کی نیاز و نذر مانتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا دیا کھا تے ہیں مگر دوسروں کے گن گاتے ہیں یہ بھی تکذیب ، شرک احسان فراموشی ہے۔ ۳۔ بعض ایسے بھی ہیں جو جانتے ہیں کہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا ہوئی ہیں اور ساری نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی بخشی ہوئی
ہیں مگر اس بات کو نہیں مانتے کہ انھیں اپنے مالک خالق محسن کے احکام کی بہ طیب خاطر تعمیل بھی کرنی ہے۔
۴۔کچھ ایسے بھی ہیں جو نہ نعمتوں کا انکار کرتے ہیں اور نہ نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلا تے ہیں۔ مگر عملاً ان کی زندگی منکر
ومکذب کی زندگی میں کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں ہو تا یہ تکذیب بالقول نہیں بالفعل ہے۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝۱۴ۙ

اُسی نے (دنیا کے پہلے انسان )انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹّی سے بنا یا ۔

(یعنی مٹی کا وہ سڑا ہوا گارا(کیچڑ) جو سو کھنے کے بعد پکی ہوئی مٹی کے ٹھیکرے کی طرح کھنکھنا تا ہے)

وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۝۱۵ۚ

اور جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا (وہ آگ جس میں دھواں نہ ہو)

توضیح :جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنا یا گیا پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزر تے ہوئے اس کے جسد خاکی نے گوشت پوست کے ساتھ زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے جاری ہوئی، اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا اور بعد میں اس کی ذرّیت سے جنون کی نسل پیدا ہوئی۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۱۶

پس ائے جن وانس تم اپنے رب کے کن کن عجائبِ قدرت کو جھٹلا ؤگے؟

توضیح : مٹی سے انسان جیسی اور آگ کے شعلے سے جن جیسی حیرت انگیز مخلوقات کو وجود میں لا نا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاایک عجیب و غریب کرشمہ ہے۔

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ۝۱۷ۚ

وہی دو نوں مشرقوں اور دو نوں مغربوں کا مالک و رب ہے۔

توضیح :مطلب یہ ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کا یہ نظام اللہ تعالیٰ ہی کا مقررکیا ہوا ہے، جس کی بدولت فصلوں اور موسموں کے تغیرات باقاعد گی کے ساتھ رونماہوتے ہیں، جن سے انسان وحیوان اور نبا تات سب کیلئے بے شمار مصالح وابستہ ہیں۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۱۸
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ۝۱۹ۙ
بَيْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ۝۲۰ۚ

پس ائے جن وانس تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں اور نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
اسی نے دو سمندر رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں ۔
دو نوںکے درمیان ایک قدرتی آڑ حائل ہے کہ جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتے ۔(یعنی ایک دوسرے میں مل نہیں جاتے)

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۲۱

يَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ۝۲۲ۚ
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۲۳
وَلَہُ الْجَوَارِ الْمُنْشَــٰٔتُ فِي الْبَحْرِ
كَالْاَعْلَامِ۝۲۴ۚ

لہٰذا ائے جن وانس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاوگے؟
ان سمندروںسے مو تی اور مو نگے نکلتے ہیں
پس ائے جن وانس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کما لات کو جھٹلاؤ گے؟
اور یہ جہاز اسی کے(اختیار میں ) ہیں،جو سمندر میں پہا ڑوں کی طرح اونچے کھڑے نظر آتے ہیں

توضیح : اللہ تعالیٰ ہی نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی کہ سمندروں کو پارکرنے کے لئے جہاز بنائے، اسی نے زمین پر وہ سامان پیدا کیا جس سے جہاز بن سکتے ہیں اور پانی کو ان قواعد کا پابند کیا جس کی وجہ پہاڑ جیسے جہازوں کا پانی پر چلنا ممکن ہوا۔ مہینوں اور برسوں کی راہ دنوں میں طے ہونے لگی۔ سفر اور تجارتی سامان کے حمل و نقل میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۲۵ۧ

پس ائے ان وانس تم اپنے رب کے کن کن احسانات کو جھٹلا ؤ گے؟

كُلُّ مَنْ عَلَيْہَا فَانٍ۝۲۶ۚۖ
وَّيَبْقٰى وَجْہُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ

ہر چیز جو زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے(یہاں کسی کو بقا نہیں)
اور صرف آپؐ کے پر ور دگار کا ذات باعظمت و جلال ہی باقی رہے گی(جوحَیّ و قیوم ازلی وابدی ہے)

توضیح :زمین پر جو چیز یں ہیں سب فنا ہو جانے والی ہیں بقا کے بعد فنا ہو تے رہنا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اگر انسان سمجھے، یہاں کی زندگی محدود، جاہ و حشم فانی، راحت و آرام اور چین و سکون عارضی۔ نیز و قتی دُکھ و درد اور رنج والم ایک مو من کے لئے آخرت کی یاد دلانے کے لئے تازیا نے سے کم نہیں۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۲۸
يَسْـَٔـلُہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

كُلَّ يَوْمٍ ہُوَفِيْ شَاْنٍ۝۲۹ۚ
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۳۰
سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّہَا الثَّقَلٰنِ۝۳۱ۚ

تو ائے جن وانس تم اپنے رب کے کن کن کمالات کو جھٹلا ؤ گے؟
آسمانوں اور زمین میں جس قدر مخلوق ہے سب کی سب اپنی حاجتیں اسی سے مانگ رہی ہے۔
وہ ہر روز اور ہر آن بہ شان رحمت مصروف عطا ہے ۔
پس ائے جن وانس تم اپنے رب کی کن کن عطائوں کی تکذیب کرو گے؟
ائے جن وانس ہم عنقریب(تمہیں دی گئی مہلت کے بعد)تمہارامحاسبہ کرنے کے لیئے متوجہ ہو جا تے ہیں ۔

توضیح : اعمال کا منصفا نہ محا سبہ، بے لاگ فیصلہ، عادلا نہ جزا، قرار واقعی سزا یہ سب ایک دن ہوکر رہے گا۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۳۲
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۝۰ۭ
لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۝۳۳ۚ

پس ائے جن وانس تم اپنے پر ور دگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟
ائے گروہ جن وانس اگر تم زمین اور آسمانوںکی سر حدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ کر دیکھو۔

تم بھاگ نہیں سکتے، اس کے لئے بڑا زور چاہئے۔

توضیح :اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے، جس باز پرس کی تمہیں خبر دی جارہی ہے اس کا وقت آنے پر تم کسی جگہ اور کسی حالت میں بھی پکڑے جاؤ گے۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۳۴
يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ
نَّارٍ۝۰ۥۙ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِ۝۳۵ۚ

ائے جن وانس تم اپنے پر ور دگار کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاو گے؟
(بھاگنے کی کوشش کرو گے تو) تم پر آگ کا شعلہ اور دُھواں چھو ڑا جائے گاپھر تم اس کا مقابلہ بلہ نہ کر سکو گے۔

توضیح :شُوَاظٌاس خالص شعلہ کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دُھواں نہ ہو۔ اور نحاس اس خالص دھویں کو کہتے ہیں جس میں شعلہ نہ ہو۔ یہ دو نوں چیزیں یکے بعد دیگرے انسانوں اور جنوں پر اس حالت میں چھوڑی جائیں گی جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی باز پرس سے بچ کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگیں گے ۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۳۶
فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ وَرْدَۃً كَالدِّہَانِ۝۳۷ۚ

پھر ائے جن وانس تم اپنے رب کی کن کن قدرتوںکا انکار کرو گے؟
پھر (کیا بنے گی اس وقت)جب آسمان پھٹ جائے گاتیل کی تل چھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا۔

توضیح :یہ قیامت کے دن کا ذکر ہے۔آسمان کے پھٹنے سے مرادبندشِ افلاک کاکھل جانا اجرامِ سماوی کا منتشر ہو جا نا، عالم با لا کے نظم کا در ہم بر ہم ہو جا نا ہے۔اس ہنگامۂ عظیم کے وقت جو شخص زمین سے آسمان کی طرف دیکھے گا اسے یوں محسوس ہو گا جیسے سارے عالم با لا پر ایک آگ سی لگی ہے۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۳۸
فَيَوْمَىِٕذٍ لَّا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذَنْۢبِہٖٓ

ِ پھر اے جن وانس تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کا انکار کرو گے ؟
اس روز نہ تو کسی انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں پرسش کی

اِنْسٌ وَّلَا جَاۗنٌّ۝۳۹ۚ

جائے گی اور نہ کسی جن سے ۔

کیو نکہ ان کی زبوں حالی اور ہیئت کذائی خود پتہ دے گی کہ یہ کسی قسم کے مجرم ہیں۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۴۰

پھر (دیکھ لیا جائے گا کہ )تم دو نوں گروہ اپنے رب کے کن کن احسانات کا انکار کرتے ہو۔

توضیح : سورۂ تکاثر میں یہی بات اس طرح فرمائی گئی ہے۔ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْم ۔اس روز ضرور تم سے ان نعمتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی جو تمہیں دی گئی تھیں۔ اور تم یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ تمہیں اپنے آپ سے مل گئی ہیں یا انھیں اپنی محنت قابلیت و خوش نصیبی کا ثمرہ سمجھ رہے تھے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ۔

يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمٰہُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِيْ وَالْاَقْدَامِ۝۴۱ۚ

مجرم(وہاں) اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے اور انھیں سر کے بال اور پا ؤں پکڑ کر دوزخ کی طرف گھسیٹاجائے گا۔

قیامت کے دن مجرمین کو اس طرح ذلیل وخوار کرنا بھی اہل ایمان کے لئے ایک نعمت ہے۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۴۲
ہٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِيْ يُكَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُوْنَ۝۴۳ۘ
يَطُوْفُوْنَ بَيْنَہَا وَبَيْنَ حَمِيْمٍ اٰنٍ۝۴۴ۚ

اس وقت تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟
(اس وقت کہا جائے گا) یہ وہی جہنم ہے جسے مجرم جھٹلا تے تھے۔

وہ دوزخ اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان گردش کرتے (گھومتے) پھریں گے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ منصفانہ نظام بھی اہل ایمان کے لئےایک نعمت ہے۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۴۵ۧ

پھر (ائے جن وانس )تم اپنے پر ور دگار کی کن کن قدرتوں کو جھٹلا ؤگے۔

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۝۴۶ۚ

اور ہر اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتاہو، اس کے لئے بہشت میں دو باغ ہیں ۔

توضیح :جو یہ سمجھتا ہوکہ مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا اور اپنے اعمال کو جواب دینا ہے تو یقیناً ایسا شخص مر ضیاتِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی حتی الا مکان کوشش کرے گا۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۴۷ۙ
ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ۝۴۸ۚ

پھر تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلا ؤ گے؟
(وہ دونوں باغ) کثیر شاخوں والے (یعنی خوب سا یہ دار) ہوںگے۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۴۹
فِيْہِمَا عَيْنٰنِ تَجْرِيٰنِ۝۵۰ۚ

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۱
فِيْہِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِہَۃٍ زَوْجٰنِ۝۵۲ۚ

تو( ائے جن وانس )پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا و گے۔
ان دو نوں باغوں میںدو چشمے ہوں گے جو ہمیشہ بہتے ہوں گے (ایک کانام تسنیم ہے اور دوسرے کا سلسبیل)
تو (ائے جن وانس )تم اپنے پر ور دگار کے کن کن انعامات کو جھٹلا ؤ گے؟
ان دو نوں باغوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہوں گی ۔

توضیح : ان میں سے ہر باغ میں ایک قسم کے پھل معروف ہوں گے جنھیں وہ دنیا میں پہچانتے تھے۔ خواہ وہ مزے میں دنیا کے پھلوں سے کتنے ہی بہتر ہوں ۔ اور دوسری قسم کے پھل نادر ہوں گے جو دنیا میں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ گزرے تھے۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۳

پس (ائے جن وانس) تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤگے؟

مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي فُرُشٍؚبَطَاۗىِٕنُہَا
مِنْ اِسْتَبْرَقٍ۝۰ۭ
وَجَنَا الْجَنَّـتَيْنِ دَانٍ۝۵۴ۚ

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۵

جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگائے (شاہانہ انداز سے) بیٹھے ہوں گے، جن کے استر دیباوریشم کے ہوں گے
اور ان باغوں کی ڈالیاں میوؤں کے وزن سے جھکی پڑرہی ہوں گی (جن تک ہاتھ پہنچ رہے ہوں گے)
سو (ائے جن وانس )تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤگے؟

فِيْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ۝۰ۙ لَمْ يَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۵۶ۚ

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۷ۚ

ان میں نیچی نگاہ رکھنے والی (نہایت ہی شر میلی حو ریں) ہوں گی جنھیں اس سے قبل کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہ لگا یا ہوگا۔(کسی کے تصرف میںآئی ہوئی نہ ہوںگی)
پس (ائے جن وانس )تم اپنے پر ور دگار کی کن کن نعمتوںکا انکارکروگے؟

كَاَنَّہُنَّ الْيَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ۝۵۸ۚ

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۵۹
ہَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۝۶۰ۚ

وہ ایسی خوبصورت ہوں گی گو یا کہ یا قوت و مر جان ہیں۔(یعنی ان کاجسم نہایت پر رونق ہوگا)
پس (ائے جن وانس )تم اپنے پر وردگارکے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟
نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟

حسن و خوبی کے ساتھ عبادت کرنے کا صلہ بھی انتہائی حسن و خوبی کے ساتھ دیا جائے گا۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۱
وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ۝۶۲ۚ
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۳ۙ

پس (ائے جن وانس )تم اپنے پر ور دگار کے کن کن انعامات کو جھٹلا ؤ گے؟
اور ان دو با غوںکے علاوہ دو باغ اور ہوںگے۔
پس (ائے جن وانس) تم اپنے پر وردگارکی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟

مُدْہَاۗمَّتٰنِ۝۶۴ۚ
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۵ۚ
فِيْہِمَا عَيْنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ۝۶۶ۚ
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۷
فِيْہِمَا فَاكِہَۃٌ وَّنَخْلٌ وَّرُمَّانٌ۝۶۸ۚ
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۶۹ۚ

نہایت ہی سر سبز و شاداب باغ۔
پس (ائے جن وانس) تم اپنے پر ور دگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟
ان دوباغوں میں دو چشمے فوارہ زن ہوں گے ۔
پس (ائے جن وانس )تم اپنے پر ور دگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟
ان دو باغوں میں بہ کثرت میوے اور کھجور اور انار ہوں گے۔
پس (ائے جن وانس )تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟

فِيْہِنَّ خَيْرٰتٌ حِسَانٌ۝۷۰ۚ
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۷۱ۚ
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِي الْخِيَامِ۝۷۲ۚ

ان میں خوب سیرت و خوبصورت عورتیں ہوں گی ۔
پس (ائے جن وانس) تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
وہ حوریں خیموں میں مستور ہوں گی ۔

توضیح :ان جنتیوں کی حسین و جمیل بیویاں عالی شان محلات و قصروں میں ہوں گی۔ ان کے علاوہ امراء و رو ساء کی طرح سیر گاہیں ہوں گی، ان سیر گا ہوں میں جا بجا خیمے لگے ہوں گے، جن میں یہ حو ریں ان کے لطف و لذت کا سامان فراہم کریں گی حضرت امہ سلمہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پو چھا ’’یا رسول اللہ دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟‘‘ حضور ﷺ نے جواب دیا:دنیا کی عورتوں کو حو روں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ابرے کو استر پر ہو تی ہے۔ میں نے پوچھا: کس بناء پر؟ حضور ﷺنے فرمایا: اس لئے کہ ان عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں۔روزے رکھے ہیں اور عبادتیں کیں ہیں۔(طبرانی)
اس سے معلوم ہواکہ اہل جنت کی بیویاں تو وہ خواتین ہوں گی جو دنیامیں ایمان لائیںاور اعمال صالحہ کرتی ہوئی دنیا سے رخصت ہوئیں۔یہ اپنے ایمان وحسن عمل کے نتیجہ میں جنت میں داخل ہوں گی۔اور بذات خود جنت کی نعمتوں کی مستحق ہوں گی۔ یہ اپنی مر ضی اور پسند کے مطابق یا تو اپنے سابق شوہروں کی بیویاں بنیں گی اگر وہ بھی جنتی ہوں۔
یا پھر اللہ تعالیٰ کسی دوسرے جنتی سے ان کو بیاہ دیں گے، اس صورت میں جب کہ وہ دو نوں ایک دوسرے کی رفاقت پسند کریں۔
رہیں حوریں تو وہ اپنے کسی حسن عمل کے نتیجہ میں خود اپنے استحقاق کی بناء پر جنتی نہیں بنیں گی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی دوسری نعمتوں کی طرح انھیں بھی اہل جنت کے لئے ایک نعمت کے طور پر حسین وجمیل عورتوں کی شکل میں عطاہوںگی۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۷۳ۚ
لَمْ يَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝۷۴ۚ
فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۷۵ۚ
مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ۝۷۶ۚ

پس (ائے جن وانس) تم اپنے پر ور دگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟
انھیں اس سے قبل کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہ لگایا ہوگا (کسی کے تصرف میں آئی نہ ہوںگی )
پس (ائے جن وانس) تم اپنے پر ور دگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟
وہ جنتی سبز قالینوں اور نفیس ونادر فرشوں پر تکیے لگائے ہوئے(رئیسا نہ شان سے) بیٹھیںگے۔

فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۷۷
تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۷۸ۧ

پس (ائے جن وانس) تم اپنے پر وردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلا ؤ گے؟ ائے نبی ﷺ آپ کے رب کا نام بڑاہی باعظمت سرا پا خیر واحسان جو دو کرم ہے۔