☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

الۗمّۗ۝۱ۚ

ٓ ا، ل، م۔ یہ حروف مقطعات ہیں۔ ان کے کوئی معنی بہ سند صحیح رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہیں۔

غُلِبَتِ الرُّوْمُ۝۲ۙ

اہل روم مغلوب ہوگئے ۔

فِیْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ

(اہل فارس کے مقابلہ میں ملک کے اس حصہ میں جواہل فارس کی سرحدات سے ملتا ہے)

توضیح :اہل روم کے مغلوب ہوجانے کی خبر سن کر مشرکین مکہ اہل ایمان کوطعنہ دینے لگے کہ تم اور اہل روم (عیسائی) اہل کتاب ہیں، ہم اور اہل فارس غیر اہل کتاب۔ اہل فارس کا اہل روم پرغالب آجانا ہمارے لئے شگون نیک ہے۔ اور بالآخر ہم تم پر غالب آجائیں گے۔ اس بات پر اس سورۃ کی ابتدائی چند آیتیں نازل ہوئیں۔

وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَ۝۳ۙ

اور وہ اپنی اس مغلوبیت کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے ۔

فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ۝۰ۥۭ

چند ہی سال میں۔

بضع سنین ۳ سے ۹ سال تک کی درمیانی مدت کوکہتے ہیں۔ (ساتویں سال روم وفارس میں پھرمقابلہ ہوا تورومی اہل فارس پر غالب آئے)

لِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ۝۰ۭ

پہلے (جوشکست ہوئی تو) اللہ ہی کے حکم سے اور دوسری دفعہ (اہل روم جوغالب ہوں گے تو) اللہ ہی کے حکم سے (ہرطرح کا اختیار اللہ ہی کو ہے)

وَیَوْمَىِٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۴ۙ بِنَصْرِ اللہِ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ کی اس فتح ونصرت پر اس دن اہل ایمان خوش ہوجائیں گے۔

یَنْصُرُ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ جس کومناسب سمجھتے ہیں فتح ونصرت عطا فرماتے ہیں۔

وَہُوَالْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۝۵ۙ

وہ بڑے ہی زورآور، اوراہل ایمان پر بڑی ہی شفقت کرنے والے ہیں۔

(بلا اسباب ظاہری کمزور سے کمزور کو زورآور پرغالب کردیتے ہیں)

وَعْدَ اللہِ۝۰ۭ لَا یُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۶

یہ اللہ کا وعدہ (ایک پیشین گوئی ہے) اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں فرماتے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں ۔

یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۝۰ۚۖ

یہ لوگ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کوجانتے ہیں۔

وَہُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ۝۷

اور وہ (انجام) آخرت سے بے خبر ہیں۔

توضیح : ابن عباسؓ، ابوسعید خدریؓ، سفیان ثوریؒ سدی وغیرہ حضرات کا بیان ہے کہ ایرانیوں پررومیوں کی فتح اور جنگ بدر میں مشرکین پرمسلمانوں کی فتح کا زمانہ ایک ہی تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو دوہری خوشی حاصل ہوئی یہی بات ایران اور روم کی تاریخوں سے ثابت ہے۔ ۶۲۴ء ہی وہ سال ہے جس میں جنگ بدر ہوئی اور یہی وہ سال ہے جس میں قیصر روم نے ایران کے سب سے بڑے آتش کدے کومسمار کردیا۔ (تفہیم القرآن)

اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ۝۰ۣ

کیا انہوں نے اپنے فطری مطالبات میں کبھی غور نہیں کیا کہ

خود ان کی فطرت ہمیشگی کی خوش حال زندگی اور عیش دوام چاہتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ انسان مرنا نہیں چاہتا۔ اور خالق فطرت نے ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کی زندگی کے لئے وہ سارے سامان راحت، جنت میں مہیا رکھے ہیں جن کا وہ طلبگار ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (حٰمٓ سجدہ آیت ۳۱) تمہارے لئے جنت میں وہ سب چیزیں مہیا ہوں گی جو تمہارا جی چاہے گا اور جوتم طلب کروگے۔

مَا خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمین کواور جو کچھ ان کے درمیان ہے نہایت ہی مناسب انداز میں ایک وقت مقررہ تک کے لئے پیدا کیا ہے (عبث، بلاانجام، بے نتیجہ نہیں پیدا کیا)

وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗیِٔ رَبِّہِمْ لَکٰفِرُوْنَ۝۸

(لقائے رب کا فطری مطالبہ رکھتے ہوئے) اکثر لوگ اپنے رب سے ملنے کے قائل نہیں۔

توضیح :  عالم آخرت کی جواب دہی کے لئے زندہ اٹھائے جانے اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کئے جانے کے منکر ہیں۔

اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ

کیا یہ لوگ زمین پرچلے پھرے نہیں ہیں؟ کاش کہ وہ اپنے سے پہلے کے لوگوں کا انجام دیکھ لیتے کہ (نافرمانی کے نتیجہ میں) کس طرح تباہ وتاراج کردیئے گئے۔

کَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً

وہ ان سے زور وقوت (شان وشوکت) میں بڑھے ہوئے تھے

وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَــرُوْہَآ اَکْثَرَ مِمَّا عَمَــرُوْہَا

اورانہوں نے زمین کو(زرعی اغراض کے لئے) خوب جوتا (بھر پور فائدہ اٹھایا) اور جتنا انہوں نے اس کوآباد کیا اس سے زیادہ انہوں نے اس کو ترقی دی تھی۔

وَجَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ۝۰ۭ

اور رسول ان کے پاس کھلے معجزات کے ساتھ آئے تھے۔

توضیح :تا کہ لوگوں کواللہ کے رسول ہونے کا یقین آجائے مگر انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی، نہ مانا تباہ وتاراج کردیئے گئے۔

فَمَا کَانَ اللہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰکِنْ

اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ لیکن

کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۹ۭ

وہ اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے (ان کی نافرمانی کے نتیجہ میں تباہیاں آئیں)

ثُمَّ کَانَ عَاقِبَۃَ الَّذِیْنَ اَسَاۗءُوا السُّوْۗآٰى

پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا۔

اَنْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللہِ وَکَانُوْا بِہَا یَسْتَہْزِءُوْنَ۝۱۰ۧ

کہ وہ اللہ کی آیتوں کوجھٹلاتے اور ان کی ہنسی اڑاتے تھے۔

اَللہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۱۱

اللہ ہی نے انسان کوپہلی بار پیدا کیا دوبارہ بھی وہی پیدا کرے گا پھر تم سب (محاسبۂ اعمال کے لئے) اسی کی طرف لوٹادیئے جاؤگے۔

وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۱۲ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ مِّنْ شُرَکَاۗىِٕہِمْ شُفَعٰۗـؤُا

اور جس دن قیامت برپا ہوگی، گنہگار نا امید ہوجائیں گے اور ان کے خود ساختہ شرکاءمیں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا۔

وَکَانُوْا بِشُرَکَاۗىِٕہِمْ کٰفِرِیْنَ۝۱۳

اور ان کے یہی شرکاء ان سے بے رخی برتیں گے۔

توضیح : اپنے گھڑے ہوئے شرکاکے بااختیار ہونے کا جو تصور انہوں نے قائم کررکھا تھا قیامت کے دن ان کا بے اختیار ہونا، ان پر ظاہر ہوجائے گا۔

وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ۝۱۴

اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن سب منتشر ہوجائیں گے (آپس میں پھوٹ وجدائی ہوگی، کوئی کسی کے کام نہ آئے گا)

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

لہٰذا جو لوگ ایمان لائے (الٰہی تعلیمات کوقبول کیا) اور صالح زندگی بسر کی۔

فَہُمْ فِیْ رَوْضَۃٍ یُّحْبَرُوْنَ۝۱۵

تو وہ جنت کے باغ میں نہایت ہی عزت کے ساتھ خوش وخرم رہینگے۔

وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَلِقَاۗیِٔ الْاٰخِرَۃِ فَاُولٰۗىِٕکَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ۝۱۶

اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیتوں اور آخرت کے پیش آنے کوجھٹلایا توایسے سب لوگ دائمی عذاب میں گرفتار رہیں گے۔

فَسُـبْحٰنَ اللہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ۝۱۷

لہٰذا تم صبح وشام (بصورت نماز) اللہ تعالیٰ کی تسبیح کیا کرو۔

وَلَہُ الْحَمْــدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ۝۱۸

اور(ان ہی اوقات میں) آسمانوں اورزمین میں اس اللہ کی تسبیح ہوتی رہتی ہے۔ ظہر وعشاء کے وقت

(نماز کے اوقات اور ان کی ترتیب رسول اللہﷺ کے عمل سے متعین ہے)

یُخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ

وہ مردہ سے زندہ کونکالتا ہے۔

وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْـحَیِّ

اور زندہ سے مردے کو

توضیح : مثلا نطفہ اور بیضہ سے انسان وحیوان کا پیدا کرنا اور پھر انہیں سے بے جان نطفہ وبیضہ پیدا کرنا۔

وَیُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ وَکَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ۝۱۹ۧ

اور وہی زمین کواس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندگی بخشتا ہے اوراسی طرح تم (دوبارہ زمین سے) نکالے جاؤگے ۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ

اور اس کی قدرت کاملہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تم کو(پورے لوازمات کے ساتھ) مٹی سے پیدا کیا

ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ۝۲۰

پھر تم(نطفہ کے ذریعہ) انسان بن کرہمارے ہی فضل سے زمین پرچلتے پھرتے ہو۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا

اوراس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے ہی جنس کی بیبیاں بنائیں تا کہ تم ان سے سکون وآرام حاصل کرسکو۔

وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ

اور تم(میاں بیوی) میں باہم انس محبت وہمدردی پیدا کی۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۝۲۱

اس میں ان لوگوں کے لئے جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے کامل القدرت ہونے کی نشانیاں ہیں۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

اور اللہ کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا۔

وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــلْعٰلِمِیْنَ۝۲۲

اور تمہاری زبانوں اور مختلف رنگ و روپ کا ہونا ہے قدرت کے ان محیر العقول کمالات میں سارے عالم کے لئے اللہ کے کامل القدرت، تنہا، فرماں روا، معبود ، مستعان مالک ومختار ہونے کی بے شمار نشانیاں ہیں۔

( جن کا انکار بے عقل کے سوا کون کرسکتا ہے ؟ اگر چہ کہ دنیوی اعتبار سے اس کی پہنچ شمس وقمر تک ہی کیوں نہ ہو)

وَمِنْ اٰیٰتِہٖ مَنَامُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَابْتِغَاۗؤُکُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ

اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن میں سونا اور اس کے فضل کوتلاش کرنا(یعنی رزق کی کوشش میں دوڑدھوپ ) بھی شامل ہے۔

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّــقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ۝۲۳

(گوش دل سے) سننے والوں کے لئے ان (مذکورہ کمالات) میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ان گنت نشانیاں ہیں۔

وَمِنْ اٰیٰتِہٖ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَـعًا

اوراللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ تم کوخوف وطمع کے ساتھ بجلی کی چمک دکھاتا ہے، بجلی گرنے کا خوف اورپانی برسنے کی امید،

وَّیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَیُحْیٖ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ

اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعہ خشک ومردہ زمین کوزندہ یعنی سرسبز شاداب کردیتا ہے،

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۲۴

بے شک اس میں عقل سے کام لینے والوں کے لئے (اللہ تعالیٰ کے ـالٰہ واحد معبود ومستعان، بلاشرکت غیرے تنہا فرماں روا ہونے کی اس قدر نشانیاں ہیں۔ (جوبیان سے باہر ہیں)

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ۝۰ۭ

اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان وزمین اسی کی توجہ اور اسی کے حکم سے قائم ہیں۔( ورنہ وہ ایک دوسرے پرگرپڑتے )

ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً۝۰ۤۖ مِّنَ الْاَرْضِ۝۰ۤۖ اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ۝۲۵

پھر جب وہ تم کو(تمہارے مرجانے کے بعد) زمین سے نکلنے کے لئے آواز دے گا تو تم اسی آن زمین سے نکل پڑوگے۔

وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

آسمان اور زمین میں جس قدر مخلوق ہے وہ سب اسی کے اختیار میں ہے۔

کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ۝۲۶

سب اسی کے تابع فرماں ہیں۔

وَہُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ

وہی توہے جوتخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

وَہُوَاَہْوَنُ عَلَیْہِ۝۰ۭ

او راس طرح دفعتہ پیدا کرنا اس اللہ کے لئے (نہایت) آسان ہے۔

وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ

آسمانوں اورزمین میں وہ اپنی مثال آپ ہے۔

وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۝۲۷ۧ

وہ بڑا زبردست حکیم ہے۔

(ایک بڑے ہی زبردست الحکیم کے حکیمانہ نظام فرماں روائی میں اس کی مخلوقات میں سے کوئی غیر حکیم کس طرح دخیل وشریک ہوسکتا ہے)

ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تمہاری ہی ایک مثال بیان کرتے ہیں۔

ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَاۗءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَاۗءٌ

کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی غلام تمہارے اس مال وزر میں برابر کا شریک ہے جو ہم نے تم کودیا ہے۔

توضیح : کیا وہ تمہاری طرح اپنے اختیار سے تصرف کرسکتا ہے۔ تم اپنی طرح کے انسان کو اپنا شریک نہیں سمجھتے تواللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کوکیوں اور کس بنا پر شریک قرار دیتے ہو۔

تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیْفَتِکُمْ
اَنْفُسَکُمْ۝۰ۭ

کیا تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں ہمسروں سے ڈرتے ہو( کہ کہیں کچھ تصرف کر بیٹھیں)

توضیح : تمہارے پاس توان غلاموں کی کوئی حیثیت ہی نہیں پھر اللہ تعالیٰ کے تعلق سے اس طرح کے غلط عقائد میں کیوں مبتلا ہوتے ہو۔

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝۲۸

سمجھ سے کام لینے والوں کے لئے ہم اسی طرح اپنے دلائل نہایت ہی تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

توضیح :ہم نے کسی نقص قدرت کی وجہ یا اعزازاً اپنے کسی مقرب بندہ کواختیار دے کر اپنا شریک کار نہیں بنایا ہے اورنہ ہمیں یہ اندیشہ ہوسکتا تھا کہ اگر ہم انہیں اختیارات نہ دیں تو وہ خود متصرف ہوجائیں گے۔ اس تفصیل میں سمجھ سے کام لینے والوں کے لئے کافی نشانیاں ہیں۔

بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ۝۰ۚ

بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ ظالم (مشرک) سوچے سمجھے بلادلیل اپنی خواہشات کی طرف چل پڑے ہیں۔

فَمَنْ یَّہْدِیْ مَنْ اَضَلَّ اللہُ۝۰ۭ

پس اللہ تعالیٰ جس کو اس کی اپنی گمراہی میں پڑا رہنے دیں توپھر کون ہدایت دے سکتا ہے ؟

وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۝۲۹

اور نہ ان کا کوئی حامی ومددگار ہوگا۔

فَاَقِـمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا۝۰ۭ

تم سب سے یکسو ہوکر اللہ کے دین پرقائم ہوجاؤ۔

فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا۝۰ۭ

یہی فطرت ہے اور اسی فطرت پراللہ تعالیٰ نے لوگوں کوپیدا کیا ہے۔

لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت میں تغیر وتبدل نہیں ہوتا۔

ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْـقَیِّمُ۝۰ۤۙ

یہی دین قیم (اسلام کا سیدھا راستہ) ہے

وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۳۰ۤۙ

لیکن اکثر لوگ (فطرت انسانی اور دین الٰہی کی ہم آہنگی کو) نہیں سمجھتے۔

مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ

پس (تمام معاملات، کاروبار، اصلاح حال کیلئے توبہ واخلاص کیساتھ) اسی اللہ کی طرف رجوع کرو، اور(خلاف فطرت روش اختیار کرنے سے ڈرو)

وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۝۳۱ۙ

اور نماز قائم کرو( مشرکانہ عقائد اختیار کرکے) مشرکین کی طرح نہ ہوجاؤ۔

مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا۝۰ۭ

ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ کرلیا اور اپنے کومختلف فرقوں میں بانٹ دیا۔

کُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ۝۳۲

ہرفرقہ (اپنے غلط اعتقادات پر) جو اس کے پاس ہیں خوش ہے(اپنے باطل عقائد کونجات کا ذریعہ سمجھ رہا ہے)

وَاِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّہُمْ مُّنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ

اور جب لوگوں کوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو(اخلاص کے ساتھ) اپنے پرردگار کی طرف رجوع ہوکرپکارتے ہیں

ثُمَّ اِذَآ اَذَاقَہُمْ مِّنْہُ رَحْمَۃً

پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل ومہربانی سے انہیں نوازتے ہیں۔

اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ بِرَبِّہِمْ یُشْرِکُوْنَ۝۳۳ۙ

تواسی وقت ان میں کا ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔

توضیح : اس طرح سے کہ بزرگوں سے ہمیں نسبتیں حاصل نہ ہوتیں یا بزرگوں کی توجہ ہمارے شامل حال نہ ہوتی توہماری دعائیں قبول نہ ہوتیں۔

لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰہُمْ۝۰ۭ

تا کہ جن نعمتوں سے ہم نے انہیں نوازا ہے ان کی ناشکری کرتے رہیں۔

فَتَمَتَّعُوْا۝۰۪

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) پس کچھ دن مزے کرلو۔

فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝۳۴

چند ہی دنوں میں (ناشکری کے انجام کو) جان لوگے ۔

اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْا بِہٖ یُشْرِکُوْنَ۝۳۵

کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی دلیل نازل کی ہے جس کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے مشرکانہ اعمال کے جواز کوثابت کرتی ہو۔

توضیح :اگر لوگ تعلیمات الٰہی پرغور کرتے توکبھی بزرگوں کا واسطہ وسیلہ دے کراللہ تعالیٰ سے بے تعلق نہ ہوتے، آخر وہ کس بناء پر اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔

وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْا بِہَا۝۰ۭ

اور جب ہم لوگوں کواپنی رحمت سے نوازتے ہیں تو(اپنی ہی محنت کا نتیجہ سمجھ کر) اپنی خوش حالی سے خوش ہوتے ہیں

وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ اِذَا ہُمْ یَقْنَطُوْنَ۝۳۶

اور اگر انہیں ان کی اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں جوانہوں نے کئے ہیں۔ کوئی مصیبت پہنچتی ہے تواسی وقت (اللہ کی رحمت سے) نا امید ہوجاتے ہیں۔

(بزرگوں سے توقعات رکھنے والوں کے لئے چاہئے تویہ تھا کہ بزرگوں سے نا امید ہوجاتے)

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَقْدِرُ۝۰ۭ

کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ہی جس کیلئے چاہتے ہیں رزق میں کشادگی عطا کرتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں(اپنی حکمت کی بنا پر) رزق میں کمی کرتے ہیں ؟

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّـقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۳۷

بے شک (رزق کے اس نظام میں) اس قوم کے لئے جوایمان لاتی ہے(اللہ تعالیٰ کے کامل القدرت ہونے کی کئی ایک نشانیاں ہیں)

فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ۝۰ۭ

لہٰذا قرابت داروں، مسکینوں، محتاجوں اور مسافروں کوان کا حق دیتے رہو۔

ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّــلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ۝۰ۡوَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۳۸

اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہنے والوں کیلئے یہ بہترین طریقہ ہے اور وہی لوگ کامیاب وبامراد ہونے والے ہیں (جو ہرکام رضائے الٰہی کیلئے کرتے ہیں)

وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا۟ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۝۰ۚ

تم کسی کی مالی امداد اس لئے کرتے ہوکہ(وہ اس سے تجارت کرے اور ایک مقررہ نفع تم کودیا کرے تویہ بھی سود کی ایک شکل ہے) ایسا مال اللہ کے پاس نہیں بڑھتا(یعنی تم اللہ کے پاس کوئی نفع حاصل نہ کرسکوگے)

وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۝۳۹

ہاں اگر تم تزکیہ نفس خوشنودی رب کے لئے کسی کی اعانت کروگے توایسے ہی لوگ اپنا مال بڑھانے والے ہیں ۔

اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ۝۰ۭ

اللہ ہی توہے جس نے تم کوپیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا پھر تمہیں موت دے گا۔ پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔

ہَلْ مِنْ شُرَکَاۗىِٕکُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِکُمْ مِّنْ شَیْءٍ۝۰ۭ

تم نے یعنی افراد خلق کواللہ کا شریک قرار دیا ہے۔ کیا ان میں سے کسی کوذرہ برابر بھی ایسی قدرت حاصل ہے؟

سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۝۴۰ۧ

اس طرح کے مشرکانہ عقائد سے اللہ پاک بلند وبرتر ہے ۔

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ

انسان کے مفسدانہ اعمال کی وجہ خشکی وتری میں ہر جگہ فساد پھیل گیا۔

لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا

تا کہ انہیں ان کے اعمال کا مزہ چکھائے، ہوسکتا ہے کہ وہ (اپنے مفسدانہ

لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۝۴۱

اعمال سے باز آجائیں اور ) رجوع الی اللہ ہو کر اپنی اصلاح کرلیں۔

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ

کہئے زمین پر چل پھر کردیکھو جو لوگ تم سے پہلے گذرچکے ہیں ان کا کیسا(برا) انجام ہوا۔

کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّشْرِکِیْنَ۝۴۲

ان کی اکثریت مشرکین ہی کی تھی۔

فَاَقِـمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ الْقَیِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللہِ یَوْمَىِٕذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ۝۴۳

پس قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس کواللہ کے مقابلہ میں کوئی روک نہیں سکتا تم دین الٰہی کوقبول کرلو، اس دن سب لوگ منتشر ہوجائیں گے(کوئی کسی کے کام نہ آئے گا)

مَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ۝۰ۚ

جو کفر کرے گا اس کا وبال اسی پرپڑے گا۔

وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِہِمْ یَمْہَدُوْنَ۝۴۴ۙ

اورجوکوئی (ہدایت الٰہی کے مطابق) نیک عمل کرتا ہے توایسے ہی لوگ اپنے لئے سامان (آخرت) سنواررہے ہیں یعنی آراستہ کر رہے ہیں۔

لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ

تاکہ اللہ اپنے فضل سے ایمان لانے اور اچھے کام کرنے والوں کوان کی حسن کارگزاری کا صلہ دے۔

اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ۝۴۵

یقیناً اللہ دین حق کا انکار کرنے والے( کافروں) کوپسند نہیں فرماتے (چاہے ان کے بعض اعمال کتنے ہی اچھے ہوں)

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ یُّرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِیُذِیْقَکُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ

اور اللہ کے کامل القدرت ہونے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی مہربانی سے (تمہارے موافق حال) خوش خبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے

وَلِتَجْرِیَ الْفُلْکُ بِاَمْرِہٖ

کہ اس کے حکم سے کشتیاں چلیں

وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ

اور تم تلاش معاش کے لئے بہ آسانی سفر کرسکو۔

وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۝۴۶

اور اس کے شکر گزار بندے بنو۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلًا

اور ہم نے آپ سے پہلے بھی( متعدد بستیوںمیں)

اِلٰى قَوْمِہِمْ

انہی کی قوم سے رسول بھیجے۔

فَجَــاۗءُوْہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ

جب وہ ان کے پاس واضح نشانیاں( معجزات) لے کر آئے تو(ان کے انکار کے سبب)

فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا۝۰ۭ

ہم نے مجرموں سے انتقام لیا ہے۔

وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۴۷

اور اہل ایمان کی مدد کرنی ہم نے اپنے پرلازم کرلی ہے۔

اَللہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا

اللہ وہی توہے جوہواؤں کوچلاتا ہے، پھر وہ ہوا بادلوں کواٹھاتی ہے۔

فَیَبْسُطُہٗ فِی السَّمَاۗءِ کَیْفَ یَشَاۗءُ

پھر انہیں آسمان پرپھیلایا جاتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کومنظور ہوتا ہے۔

وَیَجْعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ۝۰ۚ

اوران (بادلوں) کوتہ بہ تہ کردیا جاتا ہے۔پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے بارش ہونے لگتی ہے

فَاِذَآ اَصَابَ بِہٖ مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۝۴۸ۚ

پھر وہ اپنے بندوں میں سے جن پرچاہتا ہے برساتا ہے تو وہ اس وقت خوشیاں کرنے لگتے ہیں۔

وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْہِمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمُبْلِسِیْنَ۝۴۹

ان پربارش برسائی جانے سے پہلے وہ (اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے ) ناامید ہوچکے تھے۔

فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللہِ کَیْفَ یُـحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ

تو ائے دیکھنے والے،اللہ کی رحمت کی نشانیوں کی طرف دیکھ کہ وہ کس طرح زمین کواس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ؟

اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰى۝۰ۚ وَہُوَعَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۵۰

یقیناً ان مشاہدات سے مردوں کا پھر سے زندہ کیا جانا ثابت ہوتا ہے، اور وہ ہرچیز پرقادر ہے۔

وَلَىِٕنْ اَرْسَلْنَا رِیْحًا فَرَاَوْہُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوْا مِنْۢ بَعْدِہٖ یَکْفُرُوْنَ۝۵۱

اور اگر ہم ایسی ہوائیں بھیجیں جس کے سبب ان کی کھیتی زرد پڑجائے تو اس حالت کودیکھ کرفوراً ہی ناشکری کرنے لگ جائیں (ان کا شکر، کفر ونافرمانی غرض کے تحت ہے)

فَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ۝۵۲

(ائے نبیﷺ) یقیناً آپ مُردوں کواپنی بات نہیں سنا سکتے۔ اور نہ بہروں کواپنی بات سنا سکتے ہیں جب کہ وہ (آپ کی مجلس سے) پیٹھ پھیر کرچلے جائیں۔

وَمَآ اَنْتَ بِہٰدِی الْعُمْىِ عَنْ ضَلٰلَتِہِمْ۝۰ۭ

اور نہ آپ اندھوں کوان کی گمراہی سے نکال کرراہ ہدایت پرلاسکتے ہیں۔
(کافر مُردوں کی طرح ہیں اس لئے کہ ان کے دل مُردہ ہیں)

اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۵۳ۧ

آپ توانہیں لوگوں کوسنا سکتے ہیں جوہماری آیتوں پرایمان لاتے ہیں پس وہی ہماری ہدایتوں کوبہ رضا ورغبت مان لیتے ہیں۔

اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ

اللہ ہی توہے جس نے تم کو(ابتداًء) کمزور (ناتوانی کی حالت میں) پیدا کیا۔

ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّۃً

پھر کمزوری کے بعد طاقتور بنایا۔

ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُؔعْفًا وَّشَیْبَۃً۝۰ۭ

پھر طاقت کے بعد کمزوری وبڑھاپے میں تبدیل کردیا۔

یَخْلُقُ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۚ وَہُوَالْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ۝۵۴

وہ جوچاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور وہی سب کچھ جاننے والا اوربڑی قدرت والا ہے۔

وَیَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَۃُ یُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۰ۥۙ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ۝۰ۭ کَذٰلِکَ کَانُوْا یُؤْفَکُوْنَ۝۵۵

اور جس دن قیامت برپا ہوگی گنہگار قسمیں کھائیں گے( اور کہیں گے) کہ وہ برزخ میں گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے اس طرح دنیا کی زندگی میں یہ لوگ (آخرت کے تعلق سے) دھوکا ہی کھاتے رہے۔

توضیح : آخرت کے تعلق سے بے ہودہ باتیں کرتے اور غلط اندازے لگاتے رہے کہ مرنے کے بعد کہاں کی زندگی۔ کہاں کی قیامت، کہاں کا حساب، کتاب وغیرہ۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ

اور جن لوگوں کوعلم وایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے۔

لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتٰبِ اللہِ اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ۝۰ۡ

یقیناً تم نوشتہ الٰہی کے مطابق قیامت کے دن تک رہے ہو۔

فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۵۶

تمہارے دوبارہ اٹھنے کا یہی دن ہے۔ لیکن تم کواس کا یقین آتا ہی نہ تھا۔

فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ
ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُہُمْ وَلَا ہُمْ
یُسْتَعْتَبُوْنَ۝۵۷

چنانچہ اس دن ظالموں کوان کا عذر کوئی فائدہ نہ دے گا اور نہ ان سے توبہ قبول کی جائے گی۔

وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ۝۰ۭ

اورہم نے لوگوں کوسمجھانے کے لئے اس قرآن میں ہرطرح کی مثالیں بیان کردی ہیں۔

وَلَىِٕنْ جِئْتَہُمْ بِاٰیَۃٍ لَّیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُبْطِلُوْنَ۝۵۸

اور اگر آپ ان کافروں کے پاس کوئی نشانی لے بھی آئیں توکافر یہی کہیں گے کہ تم بالکل جھوٹے ہو۔

کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۵۹

اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں پرمہر لگادیتے ہیں۔ جوحقائق کوجاننا نہیں چاہتے۔

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ

لہٰذا (ائے نبیﷺ) کفار کی اذیت رسانیوں پرصبرکیجئے، اللہ کا وعدہ نصرت حق ہے پورا ہوکر رہے گا

وَّلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ۝۶۰ۧ

جو لوگ (آخرت پر) یقین نہیں رکھتے وہ آپ میں کسی طرح کی کمزوری محسوس نہ کریں۔

(یعنی ان کی دل آزار باتیں کہیں آپ کی برداشت سے باہر نہ ہوجائیں۔ آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ پیدا کردیں۔