☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

طٰسۗمّۗ۝۱

طٰ سٓ مٓ یہ حروف مقطعات ہیں ان کے کوئی معنی بہ سند صحیح رسول اللہﷺ سے منقول نہیں ہیں۔

تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۝۲

یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جس کی تعلیم نہایت ہی واضح صاف کھلی کھلی ہے۔

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝۳

منکران حق کے ایمان نہ لانے کی وجہ (ان کی غم خواری میں) کہیں آپ اپنی ہلاکت کا باعث نہ بنیں۔

اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰيَۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ

اگر ہم چاہیں توان پر آسمان سے کوئی ایسا معجزہ نازل کردیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں ( مگر زبردستی ان کے دلوں میں ایمان

لَہَا خٰضِعِيْنَ۝۴

اتارنا گویا ان کے اختیار کوسلب کرنا ہے جوایک طرح کا ظلم ہوگا اور حق تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر ہی ظلم کریں ؟ ایسے نقص سے پاک ہیں)

وَمَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْہُ مُعْرِضِيْنَ۝۵

واقعہ یہ ہے کہ رحمٰن کی طرف سے ان کے پاس جو بھی نصیحت آتی ہے وہ اس سے بے رخی برتتے ہیں ۔

فَقَدْ كَذَّبُوْا

تا آنکہ انہوں نے (دین حق ہی کو) جھٹلادیا۔

فَسَيَاْتِيْہِمْ اَنْۢــبٰۗـؤُا مَا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۝۶

اب جلد ہی ان کے پاس اس کا انجام آجائے گا، جس کی یہ ہنسی اڑاتے رہے تھے۔

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَـتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ۝۷

کیا انہوں نے زمین کونہیں دیکھا( زمین سے اگنے والی چیزوں پرغور نہیں کیا) ہم نے اس میں انواع واقسام کے بے شمار نفیس خوش رنگ خوش ذائقہ پودے اگائیں ہیں۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝۰ۭ

ان میں اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد معبود ومستعان ہونے کی نشانیاں ہیں۔

وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۸

(مگر اس کے باوجود) ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۹ۧ

بے شک آپ کا پروردگار بڑا ہی زبردست (باقدرت) اور (توبہ کرنے والوں پر) نہایت ہی رحم کرنے والا ہے۔

وَاِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۰ۙ

(اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب کہ آپؐ کے پروردگار نے موسیٰؑ کوآواز دی (اور حکم دیا کہ) آپ ظالم قوم کے پاس جائیں ۔

قَوْمَ فِرْعَوْنَ۝۰ۭ

کہ وہ فرعون کی قوم ہے،

اَلَا يَتَّقُوْنَ۝۱۱

کیا وہ (غضب الٰہی سے) بے خوف (وبے پروا ) ہوچکے ہیں؟

قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ۝۱۲ۭ

(موسیٰؑ نے ) عرض کیا ائے میرے پروردگار میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلادیں گے، میری نبوت کوتسلیم نہ کریں گے۔

وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ

اور میرا دل توگھٹنے لگتا ہے۔

وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ

میری زبان بھی صاف نہیں چلتی۔

فَاَرْسِلْ اِلٰى ہٰرُوْنَ۝۱۳

لہٰذا ہارونؑ کے پاس بھی حکم بھیجئے۔ (وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں)

وَلَہُمْ عَلَيَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ۝۱۴ۚ

اور ان کے پاس میرا ایک جرم ثابت ہے مجھے خوف ہے کہ (تبلیغ رسالت سے قبل ہی) وہ مجھے مار ڈالیں۔

توضیح : حضرت موسیٰؑ کے ہاتھوں قوم کا ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا، وہ بنی اسرائیل کے ایک شخص پر ظلم کررہا تھا آپ نے بیچ بچاؤ کی خاطر ایک مکہ لگایا تومرہی گیا۔

قَالَ كَلَّا۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ایسا ہرگز نہ ہوگا۔

فَاذْہَبَا بِاٰيٰتِنَآ

لہٰذا تم دونوں (موسیٰؑ وہارونؑ) ہمارے معجزات کے ساتھ چلے جاؤ۔

اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ۝۱۵

ہم تمہارے ساتھ ہیں( وہاں ہونے والی گفتگو) سنتے رہتے ہیں۔

فَاْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶ۙ

پس وہ دونوں فرعون کے پاس آئے اور کہا ہم رب العالمین کے بھجوائے ہوئے ہیں۔

اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝۱۷ۭ

(اوراس لئے آئے ہیں کہ) آپ بنی اسرائیل کوہمارے ساتھ کردیں۔

قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا

(فرعون نے موسیٰؑ سے) کہا کیا ہم نے شیر خوارگی کی حالت میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی( جب کہ تم دودھ پیتے تھے)

وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِـنِيْنَ۝۱۸ۙ

اور تم نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ ہم میں گزارا۔

وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِيْ فَعَلْتَ

اور تم نے وہ کچھ کیا جوتمہیں کرنا تھا۔

وَاَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۝۱۹

اور تم بڑے ہی احسان فراموش ہو۔

قَالَ فَعَلْتُہَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝۲۰ۭ

(موسیٰؑ نے کہا) ہاں وہ حرکت مجھ سے ناگہانی سرزد ہوگئی تھی۔ اورمیں ان خطاکاروں میں ہوگیا جوعمداً خطا نہیں کیا کرتے۔

فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ

جب مجھے تم سے خوف پیدا ہوا تو میں تم سے بھاگ نکلا۔

فَوَہَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝۲۱

اس کے بعد میرے پروردگار نے مجھے علم نبوت سے سرفرازی بخشی۔ اور مجھے پیغمبر کے زمرے میں شامل فرمایا۔

وَتِلْكَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَيَّ

اور کیا یہی وہ احسان ہے جوآپ مجھ پر جتارہے ہیں۔

اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝۲۲ۭ

کہ بنی اسرائیل کواپنا ذلیل ترین غلام بنائے رکھا ہے۔

قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ

فرعون( آپ کی اس بات سے) لاجواب ہوکر (بات کا رخ بدلتے

الْعٰلَمِيْنَ۝۲۳ۭ

ہوئے )آپ سے پوچھتا ہے رب العالمین کا کیا مطلب ہے۔

قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝۰ۭ

موسیٰؑ نے کہا آسمانوں اور زمین اورجو کچھ مخلوق ان کے درمیان ہے ا ن سب کا خالق وپروردگار ہے۔ (جوتنہا کائنات کا فرمانروا حاجت روا کارساز ہے)

اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ۝۲۴

اگر تم(میری ان باتوں کا) یقین کرلو (تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے گی)

قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗٓ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ۝۲۵

فرعون اپنے مصاحبین ودرباریوں سے کہنے لگا، کیا تم (موسیٰؑ کی بات) سن رہے ہو ؟

قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ۝۲۶

(سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے) موسیٰؑ نے کہا وہ تمہارا بھی پروردگار ہے اور تمہارے آبا واجداد کا بھی۔

قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ۝۲۷

فرعون نے (بنی اسرائیل سے) کہا یقیناً تمہارا رسول جوتمہاری طرف بھیجا گیا ہے، دیوانہ ہے۔

قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَہُمَا۝۰ۭ

موسیٰؑ نے پھر کہا مشرق اور مغرب اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ (مخلوق) ہے ان سب کا پروردگار (بلاشرکت غیرے تنہا فرماں روا حاجت روا مالک ومختار وہی ہے)

اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۲۸

اگر تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔(تویہ حقیقت تم پرواضح ہوجائے گی)

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــہًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ۝۲۹

فرعون نے کہا اگر تم میرے سوا کسی اور کومعبود مستعان قرار دوگے تومیں تمہیں قید خانے بھیج دوں گا۔

قَالَ اَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَيْءٍ مُّبِيْنٍ۝۳۰ۚ

موسیٰؑ نے کہا اگر میں تمہارے سامنے اپنے نبی ہونے کی واضح دلیل پیش کردوں (توکیا تب بھی میری بات نہ مانوگے)

قَالَ فَاْتِ بِہٖٓ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۳۱

فرعون نے کہا اگر تم سچے ہو تو اس کوپیش کردو۔

فَاَلْقٰى عَصَاہُ فَاِذَا ہِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ۝۳۲ۚۖ

چنانچہ انہوں نے اپنا عصا زمین پرڈال دیا تووہ اسی وقت ایک بڑا اژدھا بن گیا۔

وَّنَزَعَ يَدَہٗ فَاِذَا ہِىَ بَيْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِيْنَ۝۳۳ۧ

اور(اس کے علاوہ موسیٰؑ نے) اپنا ہاتھ گریباں سے جونکالا تو وہ ایک چمکتا دمکتا نہایت ہی روشن نورانیت لئے ہوئے تھا، دیکھنے والوں کی آنکھوں کوخیرہ کردیا۔

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَہٗٓ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ۝۳۴ۙ

فرعون نے اپنے مصاحبین اور اعلیٰ عہدہ داروں سے جواس کے قریب تھے کہنے لگا یقینا ًیہ ایک بڑا ہی ماہر جادوگر ہے۔

يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہٖ ۝۰ۤۖ

چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کوتمہارے ملک سے نکال دے۔

فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ۝۳۵

پھر تمہارا کیا مشورہ ہے۔

قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ

سرداروں نے کہا ان کو اوران کے بھائی کوچند ےمہلت دیجئے۔
(ان کے متعلق ابھی کوئی سزا تجویز نہ کیجئے)

وَابْعَثْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ۝۳۶ۙ

اور شہروں میں اپنے سپاہیوں کوبھیج دیجئے ۔

يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيْمٍ۝۳۷

تا کہ وہاں کے ماہر جادوگروں کوآپ کے پاس لے آئیں۔

فَجُمِــــعَ السَّحَرَۃُ لِمِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۳۸ۙ

پس جادوگر ایک مقررہ میعاد (یوم الزینہ) پر (بہ وقت صبح) جمع کرلئے گئے۔

وَّقِيْلَ لِلنَّاسِ ہَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ۝۳۹ۙ

اور لوگوں کو بھی (وقت مقررہ پر) جمع ہوجانے کا اعلان کردیا گیا۔

توضیح : اس اثنا میں حکومت کی طرف سے عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جاتی رہی کہ لاٹھی کا سانپ بن جانا کوئی خاص کمال نہیں ہے یہ کام ہمارے ملک کے جادوگر بھی کرسکتے ہیں، مقابلے میں یقیناً جادو گر غالب آجائیں گے۔

لَعَلَّنَا نَتَّبِـــعُ السَّحَرَۃَ

اگر جادوگر غالب آجائیں تو( ہمارا حق پرہونا ثابت ہوجائے گا)

اِنْ كَانُوْا ہُمُ الْغٰلِبِيْنَ۝۴۰

شاید کہ ہم کوجادوگروں کے دین ہی کی اتباع کرنی پڑے۔ (ابھی موسیٰؑ کی بات پرایمان لانے میں جلدی نہ کرنی چاہئے۔)

فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَۃُ

پھر جب جادوگر (اپنے مقررہ وقت پر) آگئے۔

قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىِٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ۝۴۱

توفرعون سے کہا اگر ہم غالب آگئے توہمیں کیا صلہ ملے گا (یعنی ہمیں کیا حقوق دیئے جائیں گے)

توضیح :جادوگروں کوتنی سمجھ تھی کہ انہوں نے قبل از قبل اپنے حقوق کا تحفظ کروالیا اور ایک ہم ہیں کہ اپنے حقوق کا تحفظ
کئے بغیر غیر مشروط طوپراہل باطل کی گرد راہ بنے ہوئے ہیں۔

قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۝۴۲

فرعون نے کہا، ہاں ہاں اس صورت میں تم (حکومتی سطح پر) مقربین میں شامل کرلئے جاؤگے۔

قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰٓي اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ۝۴۳

موسیٰؑ نے ان (جادوگروں) سے کہا ڈال دو، جو کچھ(جادو) تمہیں دکھانا ہے اس کوکرگزرو۔

فَاَلْـقَوْا حِبَالَہُمْ وَعِصِيَّہُمْ وَقَالُوْا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ

توانہوں نے اپنی رسیاں اورلاٹھیاں زمین پرڈال دیں اورکہا فرعون کی عزت (جاہ جلال) کی قسم

اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ۝۴۴

ہم ہی غالب ہوکر رہیں گے۔

توضیح : اس عمل کے ساتھ ہی وہ لاٹھیاں رسیاں جادو کے اثر سے سانپوں کی طرح حرکت کرتی ہوئی نظرآنے لگیں، جس کا ذکرقرآن مجید کی متعدد سورتوں میں آیا ہے۔ ترجمہ:۔ جب انہوں نے جادو کی چیزیں زمین پرڈال دیں تو لوگوں کی آنکھوں کومسحور کردیا اور ان کی نظرمیں لاٹھیوں ورسیوں کے سانپ دکھا کر دہشت زدہ کردیا گیا اور بڑا ہی جادو بنالائے، جب ان کی لاٹھیاں اور رسیاں جادوکے اثر سے موسیٰؑ کواس طرح محسوس ہوتی دکھائی دیں کہ وہ آپ کی طرف دوڑی چلی آرہی ہیں۔ اس کیفیت سے موسیٰؑ اپنے دل میں گھبراگئے (طہ آیت ۶۶،۲۷)

فَاَلْقٰى مُوْسٰي عَصَاہُ

پھر موسیٰؑ نے اپنا عصا(زمین پر) ڈال دیا۔

فَاِذَا ہِىَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ۝۴۵ۚۖ

تووہ اسی آن (ایک بڑے اژدھے کی شکل اختیار کیا) ان کے بنے بنائے سارے کرشموں کوفوراً ہی نگل گیا۔

فَاُلْقِيَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِيْنَ۝۴۶ۙ

(جادوگر اس واقعہ کودیکھ کر ایسے متاثر ہوئے کہ اس واقعہ نے سارے جادوگروں کوسجدہ ریز ہونے پرمجبور کردیا) پس وہ بے اختیار سجدہ میں گرپڑے اور ،

قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۴۷ۙ

بول اٹھے ہم نے سارے جہاں کے پروردگار کومان لیا

رَبِّ مُوْسٰي وَہٰرُوْنَ۝۴۸

جوموسیٰؑ و ہارونؑ کے بھی رب ہیں۔

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝۰ۚ

فرعون نے کہا کیا تم نے موسیٰؑ کی بات مان لی، قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا۔

اِنَّہٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ

یقیناً یہ (موسیٰؑ) تم میں کا سب سے بڑا جادوگر ہے جس نے تم کو جادو

السِّحْرَ۝۰ۚ

سکھایا ہے۔

فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝۰ۥۭ

لہٰذا ابھی تم کواس کا انجام معلوم ہوجائے گا۔

لَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ

میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوادوں گا۔
(یعنی ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پاؤں)

وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ۝۴۹ۚ

اور تم سب کوسولی پرچڑھوادوں گا۔

قَالُوْا لَا ضَيْرَ۝۰ۡ

(ایمان لانے والوں نے) کہا، کوئی مضائقہ نہیں،

اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ۝۵۰ۚ

ہم تواپنے رب کی طرف پلٹ چکے۔

اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لَنَا

ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب ہماری مغفرت فرمائے گا

رَبُّنَا خَطٰيٰنَآ

ہماری خطاؤں کودرگذر کرے گا۔

اَنْ كُنَّآ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۵۱ۭۧ

اس لئے کہ ہم نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے۔

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْٓ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ۝۵۲

اور ہم نے موسیٰؑ کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کوراتوں رات شہر سے لے کر چل نکلو۔ یقیناًتمہارا پیچھا کیا جائے گا۔

فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ۝۵۳ۚ

ادھرفرعون نے اعلیٰ افسروں کوشہر میں بھیج دیا کہ وہ فوراً فوج لے آئیں۔

اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِيْلُوْنَ۝۵۴ۙ

اورکہلا بھیجا کہ یہ لوگ (بنی اسرائیل) ہمارے مقابلے میں کم (زور) ہیں، مقابلہ کرنے میں کوئی اندیشہ نہیں ہے۔

وَاِنَّہُمْ لَنَا لَغَاۗىِٕظُوْنَ۝۵۵ۙ

اور یہ ہمیں غصہ دلارہے ہیں۔

وَاِنَّا لَجَمِيْعٌ حٰذِرُوْنَ۝۵۶ۭ

اور ہم توہر طرح کے عصری ہتھیار پوری طرح لیس ہیں۔

فَاَخْرَجْنٰہُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ۝۵۷ۙ

اس طرح ہم نے انھیں ان کے باغوں چشموں

وَّكُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ كَرِيْمٍ۝۵۸ۙ

اور خزانوں اور ان کے عمدہ عمدہ قیام گاہوں سے نکال باہر کردیا۔

كَذٰلِكَ۝۰ۭ وَاَوْرَثْنٰہَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝۵۹ۭ

اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کوان کا وارث بنادیا۔

فَاَتْبَعُوْہُمْ مُّشْرِقِيْنَ۝۶۰

(غرض فرعون کے ساتھ تعاقب کرتے ہوئے) ایک روز صبح صبح (دریائے نیل کے پاس) بنی اسرائیل کوجالیا۔

فلَمَّا تَرَاۗءَ الْجَمْعٰنِ

پھر جب دونوں جماعتیں (آمنے سامنے ہوئیں)ایک دوسرے کودیکھا تو

قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ۝۶۱ۚ

موسیٰؑ کے ساتھیوں نے کہا ہم توپکڑے گئے۔

قَالَ كَلَّا۝۰ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ۝۶۲

موسیٰؑ نے کہا ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ دکھائے گا۔

فَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ۝۰ۭ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ

پھر ہم نے موسیٰؑ کوحکم دیا کہ اپنا عصا دریا پرمارے،
(عصا کے ضرب کے ساتھ ہی)

فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ۝۶۳ۚ

دریا پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا ایک بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا۔

وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِيْنَ۝۶۴ۚ

اور (تعاقب کرنے والے) دوسرے گروہ کوبھی ہم نے (دریا میں) ان سے قریب کردیا۔

وَاَنْجَيْنَا مُوْسٰي وَمَنْ مَّعَہٗٓ اَجْمَعِيْنَ۝۶۵ۚ

اور ہم نے موسیٰؑ اوران کے سب ساتھیوں کو(فرعون کی گرفت سے) بچالیا۔

ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ۝۶۶ۭ

اور پھر دوسروں کوغرق دریا کردیا۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝۰ۭ

بے شک اس واقعہ میں عبرت ہے (کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اہل ایمان کی مدد کرتے ہیں)

وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۶۷

(یہ واقعہ سن کربھی) ان منکرین ومشرکین کی اکثریت ایمان نہیں لائی۔

وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَالْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۶۸ۧ

واقعہ یہ ہے کہ آپ کا پروردگار(بندہ مومن پر) بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کی رحمت یہ ہے کہ اہل ایمان کی جماعت کوقلت تعداد کے باوجود کامیابی وکامرانی عطا فرماتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا عمل بھی فرعونیوں جیسا تھا۔ انھیں ان آیات میں متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہارا حشربھی وہی کچھ ہوگا چنانچہ اپنے وطن سے باہر مقام بدر پران کا برا حشر ہوا۔ شکست فاش ہوئی اوربڑے بڑے سورما جنہیں ایک کے مقابلے میں ہزار پربھاری ہونے کا زعم تھا۔ قتل کردیئے گئے۔

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ اِبْرٰہِيْمَ۝۶۹ۘ

ائے نبیﷺ، ابراہیمؑ کا واقعہ بھی انھیں پڑھ کر سنائیے۔

اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ وَقَوْمِہٖ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۷۰

جب کہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا تھا، یہ کیا چیزیں ہیں جن کوتم پوجتے ہو۔

قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عٰكِفِيْنَ۝۷۱

انہوں نے کہا، (چند بت ہیں) بتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں۔ (اوریہ ہمارے ہی بزرگوں کی مورتیاں ہیں) اور ہم انھیں سے لولگائے بیٹھے رہتے ہیں۔

قَالَ ہَلْ يَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ۝۷۲ۙ

(ابراہیمؑ نے) کہا، کیا وہ تمہاری دعاؤں کوسنتے ہیں جب تم انھیں پکارتے ہو۔

اَوْ يَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ يَضُرُّوْنَ۝۷۳

یا وہ تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں۔

قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ۝۷۴

انہوں نے جواب میں کہا نہیں، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کواسی طرح کرتے پایا ہے۔

قَالَ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ۝۷۵ۙ

ابراہیمؑ نے کہا، کیا تم نے کبھی غور بھی کیا ہے جن کی عبادت

اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ۝۷۶ۡۖ

تم اور تمہارے باپ دادا کرتے چلے آرہے ہیں۔

فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ۝۷۷ۙ

وہ سب کے سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے ۔

الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَہُوَيَہْدِيْنِ۝۷۸ۙ

کہ جس نے مجھے پیدا کیا اسی نے مجھے راہ حق دکھائی ۔

وَالَّذِيْ ہُوَيُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِ۝۷۹ۙ

اور وہی توہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔

وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَيَشْفِيْنِ۝۸۰۠ۙ

اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے۔

وَالَّذِيْ يُمِيْـتُـنِيْ ثُمَّ يُحْيِيْنِ۝۸۱ۙ

وہی تو ہے، جو مجھے موت دے گا پھر دوبارہ زندگی بخشے گا۔

وَالَّذِيْٓ اَطْمَــعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗــــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ۝۸۲ۭ

اور میں اسی سے امید رکھتا ہوں، وہی قیامت کے دن میری خطائیں معاف فرمائے گا۔

رَبِّ ہَبْ لِيْ حُكْمًا وَّاَلْـحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۝۸۳ۙ

ائے میرے پروردگار مجھے حکمت ودانش عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ کردے۔

وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ۝۸۴ۙ

اورمیرے بعد آنے والوں میں میرا ذکر خیر جاری فرما (تا کہ وہ میرے طریقہ کواختیار کریں اور اس کا اجر مجھے ملتا رہے)

وَاجْعَلْنِيْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِيْمِ۝۸۵ۙ

اور مجھ کو جنت نعیم کے وارثوں میں شامل فرمادیجئے۔

وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۝۸۶ۙ

اور(ایمان کی توفیق دے کر) میرے باپ کی بخشش فرما کہ وہ گمراہوں میں سے ہے۔

وَلَا تُخْزِنِيْ يَوْمَ يُبْعَثُوْنَ۝۸۷ۙ

اور اس دن کی رسوائی سے بچالے کہ جس دن سب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ (وہ سب دیکھیں گے کہ ابراہیمؑ کا باپ سزا بھگت رہا ہے)

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۝۸۸ۙ

جس دن نہ مال فائدہ دے گا اور نہ اولاد،

اِلَّا مَنْ اَتَى اللہَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ۝۸۹ۭ

سوائے اس کے کہ جو قلب سلیم لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں آئے(یعنی جو کفر شرک نافرمانی فسق وفجور سے پاک ہو)

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ۝۹۰ۙ

اور جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی۔
(تا کہ اہل جنت خوش ہوں)

وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَ۝۹۱ۙ

اوردوزخ سرکشوں، گمراہوں کے سامنے ظاہرکردی جائے گی۔
(تا کہ کافر اس کی ہولناکیوں کودیکھ لیں)

وَقِيْلَ لَہُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ۝۹۲ۙ

پھر ان سے کہا جائے گا کہ اب کہاں ہیں وہ جنہیں تم

مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ

اللہ کے سوا پوجتے تھے۔

ہَلْ يَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ يَنْتَصِرُوْنَ۝۹۳ۭ

کیا وہ آج تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا اپنا آپ بچاؤ کرسکتے ہیں۔

فَكُبْكِبُوْا فِيْہَا ہُمْ وَالْغَاوٗنَ۝۹۴ۙ

پھر وہ اورن کے معبود اورتمام گمراہ، سرکش اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔

وَجُنُوْدُ اِبْلِيْسَ اَجْمَعُوْنَ۝۹۵ۭ

اور ابلیس کے لشکر بھی تمام کے تمام

قَالُوْا وَہُمْ فِيْہَا يَخْتَصِمُوْنَ۝۹۶ۙ

اور وہ وہاں آپس میں جھگڑیں گے۔

تَاللہِ اِنْ كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۹۷ۙ

اور یہ کہ گمراہ لوگ (اپنے معبودوں سے) کہیں گے، خدا کی قسم! ہم توکھلی گمراہی میں تھے۔

اِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۹۸

جب کہ ہم تمہیں رب العالمین کے برابر کا درجہ دیتے تھے۔

وَمَآ اَضَلَّنَآ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ۝۹۹

اور ہم کو تو(ان ہی) مجرمین نے گمراہ کیا تھا۔

فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِيْنَ۝۱۰۰ۙ

اب نہ توہمارا کوئی سفارشی ہے۔

وَلَا صَدِيْقٍ حَمِيْمٍ۝۱۰۱

اور نہ کوئی مخلص دوست۔ (جو ہماری مدد کرسکے)

فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّۃً فَنَكُوْنَ

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پھر ہم دنیا میں دوبارہ بھیجے جاتے تو

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۰۲

(ضرور اللہ کوالٰہ واحد مان کر) مومنین میں شامل ہوجاتے ۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝۰ۭ

اس واقعہ میں (طالبان حق کے لئے) بڑی عبرت ہے

وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۰۳

مگر اس کے باوجود ان (کافروں) کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔

وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۱۰۴ۧ

واقعہ یہ ہے کہ آپ کا پروردگار (اہل ایمان کے لئے) بڑا ہی رحم فرمانے والا ہے۔

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۰۵ۚۖ

قوم نوحؑ نے بھی پیغمبروں کوجھٹلایا۔

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ نُوْحٌ

جب کہ انھیں کی برادری کے ایک فرد نوحؑ نے کہا تھا،

اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۰۶ۚ

کیا تم(اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کے انجام سے) نہیں ڈرتے، اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوگئے ہو۔

توضیح : اسی بات کوحضرت نوحؑ نے سورہ مومنون میں اس طرح فرمایا ہے۔ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلٰهٍ غَيْرُهُ أَفَلَا تَتَّقُوْنَ۔ (مومنون :۲۳) اللہ کی تعالیٰ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم خلاف ورزی کے انجام بد سے بچنے کی کوشش نہیں کروگے۔ اعْبُدُوا اللّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيْعُونِ (سورہ نوح آیت ۳) ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، اورمیری اطاعت کرو۔

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ۝۱۰۷ۙ

میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں۔

فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۰۸ۚ

لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ

اور میں تم سے اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں چاہتا۔

اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۰۹ۚ

میرا اجر تواللہ رب العالمین پر ہے، وہی دیں گے۔

فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۱۰ۭ

پس تم اللہ ہی سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

قَالُـوْٓا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ۝۱۱۱ۭ

انہوں نے کہا کیا ہم تم پر ایمان لائیں، تمہاری اتباع توغریب اور رذیل لوگ کرتے ہیں (قوم میں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے)

قَالَ وَمَا عِلْمِىْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۱۲ۚ

نوحؑ نے کہا میں کیا جانوں کہ وہ کیا کرتے ہیں (ان کے کام اور پیشہ سے مجھے کیا تعلق)

اِنْ حِسَابُہُمْ اِلَّا عَلٰي رَبِّيْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ۝۱۱۳ۚ

ان کا حساب تومیرے پروردگار پر ہے، کاش تم کچھ سمجھ بوجھ سے کام لیتے۔

وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۱۴ۚ

اور میں ایمان والوں کو(اپنے سے) دور کرنے والا نہیں ہوں۔

اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝۱۱۵ۭ

میں تو علی الاعلان صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ يٰنُوْحُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِيْنَ۝۱۱۶ۭ

انہوں نے کہا ائے نوحؑ اگر تم (اس تبلیغ سے) باز نہ آؤگے تو سنگ سار کردیئے جاؤگے۔

قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِيْ كَذَّبُوْنِ۝۱۱۷ۚۖ

نوحؑ نے دعا کی ائے میرے پروردگار میری قوم نے مجھے جھٹلادیا (اب ان کے ایمان لانے کی کوئی توقع نہیں ہے)

فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَہُمْ فَتْحًا

توآپ میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرمادیجئے۔

وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۱۸

اور مجھے اور میرے ساتھ جو اہل ایمان ہیں (ہلاک ہونے سے) بچالیجئے۔

فَاَنْجَيْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝۱۱۹ۚ

پس ہم نے (ان کی دعا قبول کرلی) اور ان کے ساتھ جو لوگ سامان اور ہرقسم کے جانوروں سے لدی ہوئی کشتی میں سوار تھے، بچالیا۔

ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِيْنَ۝۱۲۰ۭ

پھر اس کے بعد باقی لوگوں کوہم نے ڈبودیا۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝۰ۭ

اس واقعہ میں بھی بڑی عبرت ہے۔

وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۲۱

مگر اس کے باوجود ان (کافروں) کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔

وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۱۲۲ۧ

بے شک آپ کا پروردگار بڑا ہی زبردست صاحب قدرت بڑا ہی رحم وکرم فرمانے والا ہے۔

كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۲۳ۚۖ

قوم عادؑ نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ ہُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۲۴ۚ

جب کہ انہی کی برادری کے ایک فرد ہودؑ نے کہا تھا کیا تم (احکام الٰہی کی خلاف ورزی کے انجام سے) نہیں ڈرتے ؟

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ۝۱۲۵ۙ

میں تمہارا قابل اعتماد رسول ہوں۔

فَاتَّـقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۲۶ۚ

پس اللہ تعالیٰ سے ڈرو اورمیرا کہنا مانو۔

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ

اور میں اس کام کا تم سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتا۔

اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۲۷ۭ

میرا معاوضہ توکائنات کے پروردگار کے ذمہ ہے۔

اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْــعٍ اٰيَۃً تَعْبَثُوْنَ۝۱۲۸ۙ

کیا تم ہربلند اونچے مقام پر بطور یادگار عبث ولاحاصل بڑی بڑی عمارتیں بنائے رکھتے ہو۔

وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ۝۱۲۹ۚ

اور بڑے بڑے رفیع الشان قصر مستحکم محلات بناتے ہو گویا تم کوہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔

وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ۝۱۳۰ۚ

اور جب تم کسی کواپنی گرفت میں لیتے ہو توظالمانہ کردار اختیار کرتے ہو(یعنی کمزوروں کے لئے تمہارے دل میں ذرہ برابر رحم نہیں ہوتا۔ انصاف سے کورے ظلم وزیادتی، حق تلفی تمہارا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔)

فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۳۱ۚ

پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

وَاتَّــقُوا الَّذِيْٓ اَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ۝۱۳۲ۚ

اور اس ذات والا شان سے ڈرو جس نے تم کوایسی ایسی بیش بہا نعمتیں بخشیں جنہیں تم جانتے ہو۔

اَمَدَّكُمْ بِاَنْعَامٍ وَّبَنِيْنَ۝۱۳۳ۚۙ

چوپایوں(مویشیوں) سے تمہاری مدد کی اورتمہیں اولاد بخشی ۔

وَّجَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ۝۱۳۴ۚ

باغ اور چشمے عنایت کئے۔

اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۱۳۵ۭ

(اگر تم نے اپنے عقاید باطلہ سے توبہ نہ کی اور اللہ تعالیٰ کواپنا معبود ومستعان نہ مانا تو) مجھے اندیشہ ہے کہ تم ایک بڑے ہی سخت دن کے عذاب میں مبتلاء کئے جاؤگے۔

قَالُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْنَآ اَوَعَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِيْنَ۝۱۳۶ۙ

قوم نے جواب دیا تمہارا نصیحت کرنا یا نہ کرنا ہمارے لئے یکساں ہے۔

اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۳۷ۙ

ہم سے پہلے کے لوگوں کا بھی عقیدہ تھا ( کہ مرنے کے بعد پھر کوئی زندہ اٹھایا نہ جائے گا)

وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ۝۱۳۸ۚ

اور ہم کبھی مبتلائے عذاب نہ ہوں گے

فَكَذَّبُوْہُ فَاَہْلَكْنٰہُمْ۝۰ۭ

چنانچہ انہوں نے(حضرت ہودؑ کو) جھٹلایا۔ اور ہم نے ان کو (سخت طوفانی ہواؤں سے) ہلاک کردیا (جوآٹھ دن اور سات رات چلتی رہیں)

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝۰ۭ

بے شک اس واقعہ میں بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔

وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۳۹

لیکن اس کے باوجود ان کی اکثریت ایمان نہیں لائی۔

وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۱۴۰ۧ

اور آپ کا پروردگار بڑا ہی زبردست صاحب قدرت (اہل ایمان پر) بڑا ہی شفیق رحم وکرم فرمانے والا ہے۔

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۴۱ۚۖ

قوم ثمودؑ نے بھی رسولوں کوجھٹلایا۔

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۴۲ۚ

جب کہ انہی کی برادری کے ایک فرد صالح ؑ نے کہا تھا (کیا تم اپنے عقائد باطلہ سے توبہ نہیں کروگے) کیا اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوگئے ہو۔

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ۝۱۴۳ۙ

یقینا میں تمہارا قابل اعتماد رسول ہوں۔

فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۴۴ۚ

لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ

اورمیں اس کام کا تم سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتا۔

اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۴۵ۭ

میرا معاوضہ توپروردگار عالم ہی کے ذمہ ہے۔

اَتُتْرَكُوْنَ فِيْ مَا ہٰہُنَآ اٰمِنِيْنَ۝۱۴۶ۙ

جو چیزیں تمہیں یہاں میسر ہیں کیا تم ان میں بے خوفی کے ساتھ بلا کسی انجام کے یوں ہی چھوڑدیئے جاؤگے۔

فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ۝۱۴۷ۙ

باغوں اورچشموں میں اورکھیتوں ونخلستانوں (کھجور کے باغوں میں)

وَّزُرُوْعٍ وَّنَخْلٍ طَلْعُہَا ہَضِيْمٌ۝۱۴۸ۚ

جن کے خوشے پھلوں کے بوجھ سے جھکے جاتے ہیں،( اورپکنے کے بعد شیرہ سے بھرکر) نہایت ہی ملائم اور پرذایقہ ہوجاتے ہیں۔

وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِہِيْنَ۝۱۴۹ۚ

اور بڑے ہی فخر کے ساتھ (انجام آخرت سے غافل ہوکر پورے پورے انہماک کے ساتھ) پہاڑوں کوتراش تراش کرنہایت ہی شاندار عمارتیں بناتے ہو۔

فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۵۰ۚ

لہٰذااللہ تعالیٰ سے ڈرو اورمیری اطاعت کرو۔

وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَ۝۱۵۱ۙ

اوران کی پیروی نہ کرو جوگناہوں میں حد سے تجاوز کرگئے ہیں ( جواللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا غلط استعمال کرتے ہیں)

الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ۝۱۵۲

یہ وہ لوگ ہیں جوزمین پرفساد پھیلاتے رہتے ہیں۔ اور (قوم کی) اصلاح نہیں کرتے۔

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ۝۱۵۳ۚ

قوم نے کہا یقینا ًتم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ (جس کے اثر سے تمہاری عقل زائل ہوگئی ہے)

مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۚۖ

تم توہماری طرح کے ایک انسان ہو۔

فَاْتِ بِاٰيَۃٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۱۵۴

اگر تم اپنے بیان میں سچے ہو تو اپنے رسول ہونے کی نشانی پیش کرو۔

قَالَ ہٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرْبٌ

صالحؑ نے کہا دیکھو یہ اونٹنی ہے، ایک دن اس کے پانی پینے کی باری ہے(یعنی سارے چشمہ کا پانی ایک دن اونٹنی پی لے گی)

وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۱۵۵ۚ

اور تم سب کے لئے پانی لینے کا ایک معین دن ہوگا۔ (کہ سارے لوگ اس روزپانی محفوظ کرلیں گے اور جانوروں کوپلاتے رہیں گے)

توضیح : اونٹنی نہ صرف ایک دن چشمہ کا پورا پانی پئے گی بلکہ تمہارے کھیتوں، باغوں چراگاہوں میں بلا روک ٹوک چرتی پھریگی۔

وَلَا تَمَسُّوْہَا بِسُوْۗءٍ

اس کو کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچاؤ۔

فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۱۵۶

ورنہ تم پرکسی دن سخت ترین عذاب آئے گا اور اپنی لپیٹ میں لے لیگا۔

فَعَقَرُوْہَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَ۝۱۵۷ۙ

مگر اس کے باوجود انہوں نے اونٹنی کی کوچیں (پچھلی ٹانگوں کی رگیں) کاٹ دیں (اور اس کومار ڈالا) پھر پچھتانے لگے۔

فَاَخَذَہُمُ الْعَذَابُ۝۰ۭ

پھر عذاب نے انھیں آپکڑا۔

پھر عذاب نے انھیں آپکڑا۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝۰ۭ

اس واقعہ میں ایمان لانے والوں کے لئے عبرت ہے۔

وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۵۸

(پھر بھی مخاطبین کی) اکثریت ایمان لانے والی نہ تھی۔

وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۱۵۹ۧ

(محمدﷺ) بے شک آپ کا رب بڑا ہی زبردست صاحب قدرت ایمان لانے والوں پر بڑا ہی شفیق ومہربان ہے۔

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۶۰ۚۖ

قوم لوطؑ نے بھی رسولوں کوجھٹلایا۔

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۶۱ۚ

جب انہی کی برادری کے ایک فرد لوطؑ نے کہا تھا کیا تم (اپنے عقائد باطلہ سے) باز نہ آؤگے ؟

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ۝۱۶۲ۙ

میں تمہارا ایک قابل اعتماد رسول ہوں۔

فَاتَّــقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۶۳ۚ

پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ

اور میں تم سے اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں چاہتا۔

اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۴ۭ

میرا اجر توسارے جہانوں کا پروردگار دے گا۔

اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۵ۙ

کیا سارے عالم میں ایک تم ہی ہو کہ مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنی چاہتے ہو۔

توضیح : اس کی صراحت سورۂ اعراف آیت ۸۰ و سورہ عنکبوت آیت ۲۸ میں اس طرح آئی ہے۔ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ (۸۰)إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ (۲۸) کیا تم اس قدر بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ دنیا میں کسی نے تم سے پہلے ایسے افعال کا ارتکاب نہیں کیا۔

وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ۝۰ۭ

اور تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے جوبی بیاں پیدا کی ہیں انھیں نظرانداز کئے دیتے ہو۔

بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ۝۱۶۶

بلکہ تم (گناہوں سے) حدود انسانی سے گزرچکے ہو۔

قَالُوْا لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہِ يٰلُوْطُ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِيْنَ۝۱۶۷

انہوں نے کہا ائے لوطؑ اگر تم (اپنی نصیحتوں سے) باز نہ آؤگے۔تم شہر سے باہر نکال دیئے جاؤگے۔ (جس طرح ہمارے خلاف زبان کھولنے والوں کوہم نے نکال باہر کردیا ہے)

قَالَ اِنِّىْ لِعَمَلِكُمْ مِّنَ الْقَالِيْنَ۝۱۶۸ۭ

لوطؑ نے کہا میں تمہاری ان بدکاریوں سے سخت نفرت کرتا ہوں۔

رَبِّ نَجِّنِيْ وَاَہْلِيْ مِمَّا يَعْمَلُوْنَ۝۱۶۹

لوطؑ نے دعا کی کہ ائے میرے پروردگار مجھے اورمیرے اہل وعیال کوان کی بدکرداریوں کے وبال سے بچایئے۔

فَنَجَّيْنٰہُ وَاَہْلَہٗٓ اَجْمَعِيْنَ۝۱۷۰ۙ

لہٰذا ہم نے انھیں اوران کے سبھی گھر والوں کوبچالیا۔

اِلَّا عَجُوْزًا فِي الْغٰبِرِيْنَ۝۱۷۱ۚ

سوائے ایک بڑھیا کے جوپیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔

ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِيْنَ۝۱۷۲ۚ

پھر ہم نے باقی ماندہ لوگوں کوہلاک کردیا۔

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ مَّطَرًا۝۰ۚ

اور ہم نے ان پرایک بڑی ہی سخت طوفانی بارش پتھروں کی برسائی۔

فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ۝۱۷۳

کیا ہی بری بارش تھی(عذاب الٰہی سے) ڈرائے جانے والوں کے لئے۔

توضیح : ایک دوسری جگہ اس طرح صراحت ہے وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ (حجر آیت ۷۴) اورایک طوفانی ہوا ہے ان پر پتھر کی کنکریاں برسائیں۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝۰ۭ

بے شک اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے۔

وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۷۴

مگر پھر بھی (ان کی) اکثریت ایمان نہیں لائی۔

وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۱۷۵ۧ

بے شک آپ کا پروردگار بڑا ہی زبردست صاحب قدرت (اہل ایمان پر) بڑا ہی شفیق ومہربان ہے(یعنی اس طرح ایمان والوں کواپنی رحمت سے بچالیتا ہے)

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَۃِ الْمُرْسَلِيْنَ۝۱۷۶ۚۖ

اصحب الایکہ (جنگل وجھاڑی کے رہنے والے) یعنی قوم شعیبؑ نے بھی رسول کوجھٹلایا۔

اِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۷۷ۚ

جب کہ شعیبؑ نے ان سے کہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے نہیں بچو گے( اوراپنے عقائد باطلہ سے توبہ نہیں کروگے)

اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ۝۱۷۸ۙ

میں تمہارا قابل اعتماد رسول ہوں۔

فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِ۝۱۷۹ۚ

لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اورمیری اطاعت کرو۔

وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ

اورمیں تم سے اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں چاہتا۔

اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۸۰ۭ

میرا اجر توسارے جہانوں(کائنات) کے رب کے ذمہ ہے۔

اَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِيْنَ۝۱۸۱ۚ

(کوئی چیز) ناپ کردو توپوری طرح ناپ کردو، لوگوں کا نقصان نہ کرو (یعنی ان لوگوں میں ہوجاؤجو کم اور ناقص چیزیں دے کر لوگوں کی حق تلفی کرتے ہیں)

وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِيْمِ۝۱۸۲ۚ

اور صحیح ترازو سے تولا کرو۔

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَاۗءَہُمْ

اور لوگو کوان کی چیزیں کم نہ دو۔

وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۝۱۸۳ۚ

اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔

وَاتَّقُوا الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۸۴ۭ

اوراللہ سے ڈرو جس نے تم کوپیدا کیا اور تم سے پہلے کی مخلوق کوپیدا کیا۔

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ۝۱۸۵ۙ

قوم نے کہا ائے شعیبؑ تم پر توکسی نے جادو کردیا ہے۔

وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا

اور تم ہماری طرح ایک انسان ہو( یعنی رسول ہونے کا کوئی نمایاں فرق نظرنہیں آتا)

وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝۱۸۶ۚ

اور ہم تو تم کوجھوٹے لوگوں میں سے خیال کرتے ہیں۔

فَاَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۱۸۷ۭ

اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پرگرادو۔

قَالَ رَبِّيْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۸۸

شعیبؑ نے کہا میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم (بداعمالیاں) کررہے ہو۔

فَكَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّۃِ۝۰ۭ

پھر وہ انھیں جھٹلاتے ہی رہے توسائبان کے واقعہ نے انھیں اپنی گرفت میں لیا۔

توضیح : سائبان کا عذاب یہ تھا کہ ان پر پہلے سخت گرمی مسلط کی گئی۔ اس کے بعد ابرنمودار ہوا۔ جس کے نتیجے سے ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ جب لوگ ابر کے سایہ تلے جمع ہوگئے توآگ برسنے لگی۔

اِنَّہٗ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۱۸۹

بے شک وہ بڑے ہی سخت عذاب کا دن تھا۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً۝۰ۭ

یقیناً اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے۔

وَمَا كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۹۰

ان کی اکثریت ایمان والی ہی نہ تھی۔

وَاِنَّ رَبَّكَ لَہُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ۝۱۹۱ۧ

بے شک آپ کا پروردگار بڑا ہی زبردست صاحب قدرت ایمان لانے والوں پر بڑا ہی شفیق ومہربان ہے۔
(یعنی اہل ایمان کواپنی رحمت سے بچالیتا ہے)

وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۹۲ۭ

اور یقیناً یہ قرآن پروردگار عالم ہی کا نازل کیا ہوا ہے۔

نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۝۱۹۳ۙ

اس کو ایک امانت دار فرشتہ(جبرئیل نے) آپ کے دل پر(القا) کیا

عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝۱۹۴ۙ

تا کہ آپؐ بھی اورپیغمبروں کی طرح بد عقیدہ لوگوں کوان کے انجام آخرت سے ڈرائیں۔

بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۝۱۹۵ۭ

(یہ قرآن) فصیح عربی زبان میں القا کیا گیا ہے۔

وَاِنَّہٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ۝۱۹۶

اور اس قرآن کوذکر پہلی امتوں کی آسمانی کتابوں میں بھی ہے۔

اَوَلَمْ يَكُنْ لَّہُمْ اٰيَۃً

کیا ان کے لئے یہ دلیل کافی نہیں ہے۔

اَنْ يَّعْلَمَہٗ عُلَمٰۗؤُا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝۱۹۷ۭ

کہ بنی اسرائیل میں جو اچھے علماء ہیں وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں۔

وَلَوْ نَزَّلْنٰہُ عَلٰي بَعْضِ الْاَعْجَمِيْنَ۝۱۹۸ۙ

اگر ہم اس کو کسی غیرعربی زبان میں نازل کرتے،

فَقَرَاَہٗ عَلَيْہِمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ مُؤْمِنِيْنَ۝۱۹۹ۭ

اور وہ عجمی انھیں پڑھ کربھی سناتا تو وہ (اپنی ہٹ دھرمی سے) اس قرآن پرایمان لانے والے نہ تھے۔

كَذٰلِكَ سَلَكْنٰہُ فِيْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِيْنَ۝۲۰۰ۭ

اسی طرح (انکار حق اورشدت کفر کی وجہ انتقاماً) ہم ایسی شیطانی باتیں مجرمین کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں،

لَا يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ۝۲۰۱ۙ

یہ لوگ اس قرآن پراس وقت تک ایمان نہیں لاتے، جب تک کہ وہ دردناک عذاب کودیکھ نہ لیں۔

فَيَاْتِيَہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝۲۰۲ۙ

پس وہ ان پر دفعتہً واقع ہوجائے گا اور انھیں اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی۔

فَيَقُوْلُوْا ہَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَ۝۲۰۳ۭ

اس وقت کہیں گے کیا اب ہمیں کچھ تھوڑی سی مہلت مل سکتی ہے ؟

اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ۝۲۰۴

کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے فورا ًہی واقع ہوجانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔؟

توضیح :عذاب کے لئے جلدی کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عذاب الٰہی کے واقع ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے تھے اور رسول اللہﷺ سے ہمیشہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور ہم آپ کو جھٹلارہے ہیں توہم مستحق عذاب ہوچکے۔ اب آپ وہ عذاب لے آئیے جس سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے۔

اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰہُمْ سِـنِيْنَ۝۲۰۵ۙ

کیا آپ نے غور بھی کیا ہے اگر ہم انھیں چند اورسال عیش ونشاط کے ساتھ زندگی گذارنے کی مہلت دے بھی دیتے۔

ثُمَّ جَاۗءَہُمْ مَّا كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ۝۲۰۶ۙ

پھر وہ عذاب ان پرواقع ہوکر رہتا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔

مَآ اَغْنٰى عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يُمَـتَّعُوْنَ۝۲۰۷ۭ

دنیا کے جوفائدے وہ اٹھاتے رہے ان کے کچھ کام نہ آئے (وہ عذاب الٰہی سے بچ نہ سکے)

وَمَآ اَہْلَكْنَا مِنْ قَرْيَۃٍ اِلَّا لَہَا مُنْذِرُوْنَ۝۲۰۸ۤۖۛ

ہم کسی بستی کو(اس وقت تک) ہلاک نہیں کرتے جب تک کہ (پیغمبروں کوبھیج کر) انھیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام سے ڈرا نہیں دیتے۔

ذِكْرٰي۝۰ۣۛ وَمَا كُنَّا ظٰلِمِيْنَ۝۲۰۹

پھر انھیں نصیحت کی جاتی ہے( نہ ماننے کی صورت میں ہلاک کئے جاتے ہیں) اور ہم ظالم نہیں ہیں۔

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّيٰطِيْنُ۝۲۱۰

اورشیاطین ایسی مقدس کتاب کو لے کر نہیں اترتے۔

وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۝۲۱۱ۭ

اورنہ تو وہ اس قابل ہیں اور نہ ہی وہ اس پرقادر ہیں۔

اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ۝۲۱۲ۭ

وہ تو اس کے سننے سے بھی دور رکھے گئے ہیں۔

توضیح : یعنی جبرئیلؑ احکام لے کر محمدﷺ کوپہنچانے تک شیاطین کوکان لگا کرسننے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ اور وہ آسمانی باتوں کے سننے سے بھی معزول کردیئے گئے ہیں۔

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِيْنَ۝۲۱۳ۚ

لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اوروں کومعبود ومستان سمجھ کر مدد کے لئے نہ پکارو ورنہ تم بھی (عذاب پانے والوں میں) شامل ہوجاؤگے۔

توضیح : حق کے معاملے میں رسول کے ساتھ بھی رعایت نہیں کی جاسکتی توشرک کے بعد کوئی کس طرح عذاب الٰہی سے بچ سکتا ہے شرک کی سنگینی بتائی گئی ہے۔

وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ

اور اپنے قرابت داروں کو بھی (شرک کے انجام بد سے) ڈراتے رہئے۔

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۲۱۵ۚ

اور اہل ایمان میں سے جو لوگ آپ کی اتباع کرتے ہیں ان سے نرم دلی سے پیش آتے رہئے۔

فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۱۶ۚ

پھراگر وہ آپ کی نافرمانی کریں توان سے کہئے جو کچھ تم کرتے ہو میں اس سے بری الذمہ ہوں۔

وَتَوَكَّلْ عَلَي الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ۝۲۱۷ۙ

اور اس صاحب قدرت قادر مطلق پربھروسہ کیجئے جو ایمان لانے والوں پرنہایت ہی شفیق بڑا ہی مہربان ہے۔

الَّذِيْ يَرٰىكَ حِيْنَ تَقُوْمُ۝۲۱۸ۙ

وہ (اللہ ) ہی ہے جو تمہیں اٹھتے بیٹھے (نماز تہجد کی حالت میں) دیکھتا ہے۔

وَتَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ۝۲۱۹

اور آپ کا نمازیوں کے ساتھ سجدہ میں اٹھنا اور بیٹھنا نگاہ میں رکھے ہوئے ہے۔

اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۲۲۰

بے شک وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے(یہ عقیدہ کہ پیغمبر بھی مرنے کے بعد دعاؤں کو سنتے اور احوال کوجانتے ہیں باطل ہے)

ہَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ۝۲۲۱ۭ

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) کیا میں تمہیں بتاؤں، شیاطین کس پر اترتے ہیں۔

تَنَزَّلُ عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِـيْمٍ۝۲۲۲ۙ

وہ ہر اس شخص پراترتے ہیں جو(نجات کے تعلق سے) جھوٹے عقائد گھڑتا ہے اور بڑا ہی گنہگار بدکار ہوتا ہے۔

يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُہُمْ كٰذِبُوْنَ۝۲۲۳ۭ

بعض سنی سنائی باتیں لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں اوران میں اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔

وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ۝۲۲۴ۭ

اورشاعروں کی اتباع گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّہِيْمُوْنَ۝۲۲۵ۙ

کیا آپؐ انھیں دیکھ نہیں رہے ہیں کہ وہ بے حقیقت خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔

وَاَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ۝۲۲۶ۙ

اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جن کو وہ نہیں کرتے ۔

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

مگر جو لوگ (اللہ تعالیٰ پر) ایمان لائے اور (کتاب و سنت کے مطابق) نیک اعمال کرتے رہے۔

وَذَكَرُوا اللہَ كَثِيْرًا

اور اللہ تعالیٰ کوکثرت سے یاد کرتے رہے۔

وَّانْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا۝۰ۭ

اور ان پر ظلم کیا جاتا ہے تو( قابو پانے کے بعد) بدلہ لیا کرتے ہیں ؟

وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۝۲۲۷ۧ

اور ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ ان کو کس جگہ لوٹ کرجانا ہے( وہ کس انجام سے دوچار ہونے والے ہیں)