☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكَ۝۰ۚ
تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ۝۰ۭ

ائے نبی (ﷺ) آپؐ کیوں اس چیز کو حرام کرلیتے ہیں
جس کو اللہ نے آپؐ کے لئے حلال کردی ہے
کیا اس سے اپنی بیویوں کی خوشنودی مطلوب ہے

توضیح : کسی چیز کے متعلق قسم کھانا کہ میں آئندہ سے فلاں چیز نہ کھاؤں گا، گویا اس کو اپنے پر حرام کرلینا ہے۔

وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱

(آپ کی یہ بات اللہ تعالیٰ نے معاف کردی کیو نکہ)
اللہ تعالیٰ بڑے ہی بخشنے والے رحم فرمانے والے ہیں۔

توضیح :کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی بیوی حضرت زینبؓ کے پاس شہد نوش فرمایا۔ جب آپؐ حضرت عائشہؓ، حضرت سودہؓ کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے جیسا کہ پہلے سے طے کر رکھا تھا۔ کہا، آپ کے منہ سے مغا فیر کی بو آتی ہے، آپؐ نے فرمایا کہ اچھا میں آئندہ کبھی شہد نہ کھاؤںگا، تب آپؐ پر یہ آیت نازل ہوئی۔

قَدْ فَرَضَ اللہُ لَكُمْ تَحِلَّۃَ اَيْمَانِكُمْ۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے

وَاللہُ مَوْلٰىكُمْ۝۰ۚ

اللہ تمہارے مولیٰ ہیں دوست وکار ساز ہیں۔

وَہُوَالْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۝۲
وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِيْثًا۝۰ۚ

اور وہ بڑے ہی جاننے والے حکمت والے ہیں ۔
اور جب نبی ﷺ نے اپنی کسی بیوی سے ایک رازکی بات کہی

فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْہَرَہُ اللہُ عَلَيْہِ
عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ
فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ
قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ ہٰذَا۝۰ۭ
قَالَ نَبَّاَنِيَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُ۝۳

پھر اس بی بی نے کسی اور کو وہ بات بتادی تو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو اپنے نبی ؐ پر ظاہر فرمادیا
تو پیغمبرؐ نے اس بیوی سے کچھ بازپرس کی، اور کسی حدتک درگزر فرمایا
پیغمبر ﷺ نے جب اس بی بی کو وہ بات بتادی تو
کہنے لگیں، یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟
فرما یا، اللہ علیم و خبیر نے مجھے اس کی خبر دی ہے۔

توضیح :کسی روایت سے یہ متعین نہیں ہوتا کہ وہ راز کی بات کیا تھی؟ نزول وحی الٰہی کا مقصد ازواج مطہرات کو اور بالواسطہ مسلمانوں کے تمام ذمہ دار لوگوں کی بیویوں کو متنبہ کرنا ہےکہ وہ رازوں کی حفاظت میں بے پروائی سے کام نہ لیں۔

اِنْ تَتُوْبَآ اِلَى اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا۝۰ۚ

وَاِنْ تَظٰہَرَا عَلَيْہِ فَاِنَّ اللہَ ہُوَمَوْلٰىہُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۚ
وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَہِيْرٌ۝۴

(اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ائے پیغمبر کی بی بیو) تم دونوں اللہ کی جناب میں توبہ کرو تو(تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل کجی کی طرف مائل ہوگئے ہیں
اگر پیغمبر کی ایزار سانی پر باہم اعانت کرو گی تو سن رکھو
پیغمبر کے ساتھی و مدد گار اللہ تعالیٰ ہیں، جبرئیل ہیں اور نیک کردار مو منین ہیں
اور سارے فرشتے بھی تمہاری سازشوں سے رسول کا کچھ نہیں بگڑ تا، بلکہ تمہارا ہی نقصان ہے۔

عَسٰى رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ
مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ

(اور یہ بھی سن لو) اگر پیغمبر تم سب کو طلاق دے دیں تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے نبی کو تم سے بہتر بیویاں عطا فرمائے
جو سچّی مسلمان، صاحب ایمان ، فرماں بردار، توبہ کرنے والیاں عبادت ۜ

عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا۝۵

گزار، اور روزہ دار، خواہ بیوہ ہوں کہ باکرہ۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ

ائے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آتش جہنم سے

وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ۝۶

بچاؤ، جس کا ایندھن انسان ہوں گے اور پتھر اور اس پرنہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے اللہ تعالیٰ انھیں جو حکم دیتے ہیں اور وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ۝۰ۭ
اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۷ۧ

(اس دن کافروں اوراہل باطل سے کہا جائے گا) ، اے کافرو!
آج حیلے بہانے مت بناؤ
تمہیں توو یسا ہی بدلہ دیا جاتاہے، جیسا تم عمل کرتے تھے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا۝۰ۭ
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ
جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُلا

ائے ایمان والو، اللہ کی جناب میں سچّی توبہ کرو(یعنی دل میں ندامت ہو، اور بہ وقت توبہ آئندہ کے لئے گناہ نہ کرنے کا عزم ہو)
ہو سکتا ہے کہ تمہارا پر وردگار تم سے تمہای برائیاں دور کردے
اور تم کو بہشت کے ایسے باغوں میں داخل کردے جس کے نیچے
نہریں بہتی ہوں گی(اور وہ بڑاہی خوشنما منظر ہوگا)

يَوْمَ لَا يُخْزِي اللہُ النَّبِيَّ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۝۰ۚ
نُوْرُہُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ

اس دن اللہ تعالیٰ پیغمبر کو اور ان لوگوں کو جوان کے ساتھ ایمان لائے، رسوا نہیں کرے گا
ان کا نور ایمان ان کے آگے اور داہنی طرف(روشنی لئے ہوئے)

وَبِاَيْمَانِہِمْ
يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا۝۰ۚ
اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۸

دوڑ رہا ہوگا
وہ التجا کریں گے کہ ائے ہمارے رب ہمارانور ہمارے لئے پورا کر دیجئے
اور ہماری مغفرت فرمادیجئے،
بے شک آپ ہر طرح قادر ہیں۔

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ

ائے نبی ﷺ کفّارو منافقین سے جہاد کیجئے
اور ان پر سختی کیجئے

وَمَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۹

ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا

اللہ تعالیٰ نے منکران حق کو سمجھا نے(اور عقیدئہ شرک سے بچانے کے

امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۝۰ۭ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ
فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَيْــــًٔا

لئے) نوحؑ کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے وہ دونوں ہمارے دونیک بندوں کے نکاح میں تھیں
پھر ان دونوں نے ان کے ساتھ خیانت کی تو وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اپنی ان عورتوں کے کچھ کام نہ آئے

توضیح :خیانت سے مراد بد کاری نہیں ہے، کیونکہ کسی پیغمبر کی بیوی سے ایسی حرکت سرزد نہیں ہوتی ۔حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ وہ اپنی قوم کے جباروں کو ایمان لانے والوں کی خبر یں پہنچا یا کرتی تھیں۔ اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ جو مہمان ان کے پاس آتے اپنی قوم کے بد اعمال لوگوں کو اطلاع کر دیتی، حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کو یہ حرکت پسند نہ تھی۔

وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ۝۱۰

اور ان عورتوں سے کہہ دیا جائے گا کہ عام جہنمیوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ

جو لوگ احکام و منشائے الٰہی کے خلاف عمل کرتے ہیں ان کے لئے عذابِ الٰہی مقرر کر دیا جا تا ہے۔

وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ۝۰ۘ

اور اہل ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے

فرعون کی بیوی ہوتے ہوئے بھی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت گزار بندی بنی رہیں۔

اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّۃِ
وَنَجِّــنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ
وَنَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۱ۙ

جب اس نے دعاکی، ائے میرے رب میرے لئے اپنے پاس جنّت میں ایک مکان بنادیجئے
اور مجھے فرعون کے شر اور اس کی بداعمالیوں سے محفوظ رکھئے۔
اور مجھے ظالم قوم(کی اذیّت رسانیوں) بچالیجئے ۔

توضیح :اللہ تعالیٰ نے اس نیک بیوی کی دعا قبول کی اور فرعون اور اس کی قوم کے شرسے بچا لیا اہل ایمان کے لئے سبق ہے کہ دشمنوں میں گھرے ہوئے رہ کر بھی رجوع الٰہی ہوں تو اللہ تعالیٰ کافروں کے شرسے محفوظ ومامون رکھتے ہیں۔

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ

اور عمران کی بیٹی مریم کی مثال بھی دی جاتی ہے

الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا
فَنَفَخْنَا فِيْہِ مِنْ رُّوْحِنَا
وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّہَا

جنھوں نے اپنے عزّت وآبروکو محفوظ رکھا
ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی
انھوں نے اپنے رب کے ارشادات اور اس کے کتابوں کی تصدیق کی اور

وَكُتُبِہٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ۝۱۲ۧ

وہ فرماں برداروں میں سے تھیں۔