☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ۝۱۠ۙ

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔

سورج کی روشنی کا پھیلنا بند ہوجائے گا اور اس کی کشش سے جو کُرّے قائم ہیں وہ آپس میں ٹکراجائیں گے۔

وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ۝۲۠ۙ
وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ۝۳۠ۙ

وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ۝۴

اور جب تارے بے نور ہوجائیں گے۔
اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے(یعنی اپنی جگہ سے اکھیڑکر گردوغبار کی طرح اڑنے لگیں گے)
اوردس مہینے کی گا بھن اونٹنیاں جن کی خاص طور پر نگہداشت کی جاتی ہے اپنے حال پر چھوڑدی جائیں گی۔

یعنی کوئی ان کا پرسان حال نہ ہوگا۔ ہرایک کواپنی اپنی پڑی ہوگی۔

وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ۝۵۠ۙ

اور جب وحشی جانور ایک جگہ جمع ہوجائیں گے۔

توضیح : اس وقت کوئی کسی کو گزند نہ پہنچائے گا کہ سب کے سب حواس باختہ ہوں گے۔درندے اپنی درندگی بھول چکے ہونگے۔

وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ۝۶۠ۙ
وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ۝۷۠ۙ

اور جب سمندر(آگ سے) بھڑکائے جائیں گے۔
اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑدی جائیں گی۔

توضیح : انسان ازسرنو اسی طرح دفعتہ زندہ کئے جائیں گے جس طرح وہ دنیا میں مرنے سے پہلے جسم وروح کے ساتھ زندہ تھے۔

وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُىِٕلَتْ۝۸۠ۙ
بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ۝۹ۚ

اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفن کردی گئی تھی۔
و ہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کردی گئی؟

توضیح :جن لڑکیوں کوزندہ دفن کردیا گیا تھاآخر کہیں توان کی باز پرس ہونی چاہئے جن ظالموں نے یہ ظلم کیا تھاآخر کبھی تو وہ وقت آنا چاہئے ان سے بھی بے دردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے لہٰذا قیامت میں ہر ایک مظلوم کی داد رسی ہوگی۔ زندہ در گور ہونے والی لڑکیوں کی فریاد دنیا میں کوئی سننے والا نہ تھا اور جاہلیت کے معاشرے میں اس فعل پر کوئی گرفت نہ تھی۔ آج بھی یہی کچھ حال خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر مہذب کہلانے والے معاشرہ کا ہے۔

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ۝۱۰۠ۙ
وَاِذَا السَّمَاۗءُ کُشِطَتْ۝۱۱۠ۙ
وَاِذَا الْجَــحِیْمُ سُعِّرَتْ۝۱۲۠ۙ
وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ۝۱۳۠ۙ
عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ۝۱۴ۭ

اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے۔
اور جب آسمان کا پردہ ہٹالیا جائے گا اور جب (کفار کے لئے) دوزخ کی آگ بھڑکائی جائے گی۔
اور جب (متقین کے لئے) جنت قریب لائی جائے گی۔
اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا (خیر یا شر) لے کر آیا ہے۔

توضیح :جو لوگ نجات کے تعلق سے عقائد میں مبتلا تھے انھیں اس روز معلوم ہوجائے گا کہ ان کے یہ عقائد محض باطل اور بے اصل تھے۔

فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ۝۱۵ۙ

الْجَـــوَارِ الْکُنَّسِ۝۱۶ۙ
وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ۝۱۷ۙ
وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ۝۱۸ۙ

پس میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹ جانے والے تاروں کی (جو دن کے وقت نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں حالانکہ وہ آسمان میں موجود ہوتے ہیں)
اور جو (رات کو ظاہر ہوتے اور دن کو) چھپ جاتے ہیں۔
اوررات کی قسم جب وہ رخصت ہونے لگے۔
اور صبح کی قسم جب نمودار ہوتی ہے۔

اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۝۱۹ۙ

ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ۝۲۰ۙ

بے شک یہ (قرآن) اللہ کا کلام ہے ایک معزز فرشتہ کالایا ہوا(یعنی حضرت جبرئیلؑ اللہ تعالیٰ کے پاس سے لا کر حضرت محمدﷺ کوسناتے ہیں)
(وہ) صاحب قوت اور عرش والے کے پاس ذی مرتبت ہیں۔

توضیح : سورہ نجم کی آیات ۴ اور ۵ میں اس بات کا اس طرح ذکر آیا ہے: إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ۔عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰیہ (قرآن) توحکم خداوندی ہے جو ان کو طرف بھیجا جاتا ہے ان کی ایک نہایت قوت والے نے تعلیم دی ہے۔

مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۝۲۱ۭ

سب فرشتے ان کے تابع فرماں پھر وہ نہایت ہی بااعتماد ہیں(یعنی جبرئیلؑ اپنی طرف سے کوئی بات وحی الٰہی میں شامل نہیں کرتے ۔وحی الٰہی جوں کی توں پہنچاتے ہیں)

وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ۝۲۲ۚ

اور (ائے اہل مکہ) تمہارے ساتھی (محمدﷺ) مجنوں نہیں ہیں، وہ تو تمہارے ہم قوم، ہم قبیلہ ہیں۔

توضیح : نبوت سے پہلے بھی ان کی دیانت داری اور دانش مندی تمہارے پاس مسلمہ تھی اور ان کا کردار بے داغ رہا ہے اس کے باوجود ایسی بہتان طرازی سے تمہیں احتراز کرنا چاہئے۔

وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ۝۲۳ۚ

وَمَا ہُوَعَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ۝۲۴ۚ
وَمَا ہُوَبِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ۝۲۵ۙ
فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ۝۲۶ۭ

بے شک انہوں نے اس پیغامبر(فرشتے) کوبچشم خود(آسمان کے) روشن افق پردیکھا ہے۔
اور وہ غیب کے اس علم کو( بلاکم وکاست) پہنچانے میں بخیل نہیں ہیں۔
اور نہ یہ (قرآن) کسی شیطان مردود کا قول ہے۔
پھر تم کدھر جارہے ہو؟

اِنْ ہُوَاِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۝۲۷ۙ
لِمَنْ شَاۗءَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَــقِیْمَ۝۲۸ۭ

یہ توسارے عالم نوع انسانی کے لئے ایک نصیحت ہے۔
ہراس شخص کے لئے جو تم میں سے راہ راست پرچلنا چاہے۔

انسان کا طالب حق اور راستی پسند ہونا اس کلام سے فائدہ اٹھانے کی شرط اول ہے۔

وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۲۹ۧ

اور تم کچھ بھی اپنی خواہش سے کرنہیں سکتے جب تک کہ اللہ رب العالمین نہ چاہے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے علم میں تمہارا ہدایت پرآنا جب تک متعین نہ ہو تمہیں توفیق نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ جسے رحمت کا مستحق سمجھتے ہیں، اسی کو توفیق عطا فرماتے ہیں، اور توفیق بھی اسی وقت ہوتی ہے جب کہ وہ خود بھی احکام الٰہی سے توافق کرے اور طالب ہدایت ہو۔