بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
وَالذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا۱ۙ
فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا۲ۙ
قسم ہے ان ہواؤں کی جوگرد وغبار اڑاتی ہیں۔
پھر (پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کے) بوجھ اٹھانے والی ہیں
فَالْجٰرِيٰتِ يُسْرًا۳ۙ
فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا۴ۙ
جو سبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی ہیں۔
پھر زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر) بہ حکم الٰہی (بارش کی) تقسیم کرنے والی ہیں۔
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۵ۙ
وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ۶ۭ
وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْحُبُكِ۷ۙ
اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ۸ۙ
يُّؤْفَكُ عَنْہُ مَنْ اُفِكَ۹ۭ
قُتِلَ الْخَــرّٰصُوْنَ۱۰ۙ
یقینا ًجس چیز کا آپ سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ سچی ہے ۔
اور روز جزا کا واقع ہونا بھی یقینی ہے۔
اورقسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی(جوتاروںستاروںاور فرشتوں کی گذرگاہ ہے)
تم (قیامت کے بارے میں) مختلف باتیں کہتے ہو (یعنی مختلف خیالات اوراندازوں کے قائل ہو)
اس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے منحرف ہوتا ہے ۔
مارے گئے قیاس وگمان سے حکم لگانے والے ۔
یعنی اپنے آپ کو تباہی وبربادی میں ڈالنے کا سبب بنے اور خود جھوٹے اورلعنتی قرار پائے۔
الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ غَمْرَۃٍ سَاہُوْنَ۱۱ۙ
يَسْـَٔـلُوْنَ اَيَّانَ يَوْمُ الدِّيْنِ۱۲ۭ
يَوْمَ ہُمْ عَلَي النَّارِ يُفْتَنُوْنَ۱۳
ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ۰ۭ
ھٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۱۴
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ۱۵ۙ
اٰخِذِيْنَ مَآ اٰتٰىہُمْ رَبُّہُمْ۰ۭ
اِنَّہُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِـنِيْنَ۱۶ۭ
یہ وہ لوگ ہیں جوانتہائی جہالت وغفلت میں مدہوش ہیں۔ (یعنی قیامت اور اس کے عواقب ونتائج سے بے خبر ہیں)
(اس کے وقوع پذیر ہونے کا انکار کرتے ہوئے استہزا کے طورپر)
پوچھتے ہیں کہ آخر وہ جزاء کا دن کب آئے گا ؟
وہ اس روز آئے گا جس روز وہ (انھیں کہا جائے گا) اپنی شرارتوں کا مزہ چکھو،
یہ وہی چیز ہے جس کے لئے تم جلدی کررہے تھے ۔
بے شک پرہیزگار جنت کے باغوں اورچشموں میں رہیں گے۔
جو کچھ ان کا رب انھیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے۔
وہ اس دن کے پیش آنے سے پہلے نیک اعمال کیا کرتے تھے ۔
كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَہْجَعُوْنَ۱۷
وَبِالْاَسْحَارِہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۱۸
(یاد الٰہی میں) راتوں کو کم سویا کرتے تھے۔
اور وہ سحر کے وقت (اپنی تقصیرات کی) معافی مانگتے تھے۔
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۱۹
اور ان کے مال میں سائل ومحروم کا حق تھا۔
وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ۲۰ۙ
اور یقین کرنے والوں کیلئےزمین میں (خدا کی قدرت کی) بہت سی
وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۲۱
وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ۲۲
نشانیاں ہیں۔
اورخود تمہارے اپنے وجود میں بھی کیا تم سوجھ بوجھ سے کام نہ لوگے۔
اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کہا جاتاہے آسمان ہی میں ہے۔
فَوَرَبِّ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ۲۳ۧ
ہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ ضَيْفِ اِبْرٰہِيْمَ الْمُكْرَمِيْنَ۲۴ۘ
اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا۰ۭ قَالَ سَلٰمٌ۰ۚ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ۲۵ۚ
پس قسم ہے آسمان وزمین کے پروردگار کی یہ قرآن اسی طرح حق ہے، جس طرح تمہارا آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنا حق ہے۔
ائے نبیﷺ کیا آپؐ کوابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے۔
جب وہ ان کے پاس آئے توانھیں سلام کیا
ابراہیمؑ نے بھی (جواب میں) سلام کیا یہ ان کیلئےکچھ اجنبی سے تھے۔
فَرَاغَ اِلٰٓى اَہْلِہٖ
فَجَاۗءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍ۲۶ۙ
پھر وہ خاموشی کے ساتھ مہمانوں سے کچھ کہے بغیر (ضیافت کے انتظام کے لئے) اپنے گھر میں چلے گئے (کہ مہمان بہ تکلف یہ نہ کہیں کہ اس کی حاجت ہی کیا ہے )
پھر اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک موٹا تازہ (بھنا ہوا) بچھڑا لے آئے۔
فَقَرَّبَہٗٓ اِلَيْہِمْ
قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ۲۷ۡ
اور اس کو ان مہمانوں کے آگے پیش کردیا (مگر مہمانوں نے اس کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا)
(تب ابراہیمؑ نے) کہا آپ حضرات کھاتے کیوں نہیں ؟
فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِيْفَۃً۰ۭ
قَالُوْا لَا تَخَـفْ۰ۭ
پھر وہ اپنے دل میں ان سے خائف ہوگئے
(اس ووقت) ان فرشتوں نے کہا، آپ خوف نہ کیجئے
وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ۲۸
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِيْ صَرَّۃٍ
فَصَكَّتْ وَجْہَہَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ۲۹
ساتھ ہی انہوں نے ایک دانش مند لڑکے کی پیدائش کی خوشخبری سنائی۔
توانکی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھیں۔
اوراس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگیں میں توبوڑھی اور بانجھ ہوں (اس وقت وہ بہت زیادہ بوڑھی تھیں)
قَالُوْا كَذٰلِكِ۰ۙ قَالَ رَبُّكِ۰ۭ
اِنَّہٗ ہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۳۰
پھر ان فرشتوں نے کہا، آپ کے پروردگار نے ایسا ہی فرمایا ہے۔
بے شک وہی بڑے جاننے اور حکمت والے ہیں۔
(یعنی جس کے ساتھ جو معاملہ کرنا چاہتے ہیں وہ بہ حکمت تمام کرتے ہیں۔)
قَالَ فَمَاخَطْبُكُمْ اَيُّہَا الْمُرْسَلُوْنَ۳۱ قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْـرِمِيْنَ۳۲ۙ
لِنُرْسِلَ عَلَيْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِيْنٍ۳۳ۙ
ابراہیمؑ نے فرشتوں سے کہا: تمہارے بھجوائے جانے کا کیا مقصد ہے ؟ (کیونکہ فرشتے کسی اہم مقصد ہی کے لئے بھجوائے جاتے ہیں)
فرشتوں نے کہا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
تا کہ ہم ان پر مٹی اور کنکر برسائیں۔
مجرمین سے مراد لوطؑ کی قوم کے کافر ہیں جنہیں پتھر برسا کر ہلاک کردیا گیا۔
مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِيْنَ۳۴
فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيْہَا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۳۵ۚ
فَمَا وَجَدْنَا فِيْہَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ۳۶ۚ
ائے نبیﷺ (وہ پتھر) حد سے گذرجانے والوں کے لئے آپ کے رب کی طرف سے نشان لگائے ہوئے تھے ۔
پس اہل ایمان میں سے جو بھی اس بستی میں تھا ہم نے اس کونکال لیا۔
پھر ہم نے اس بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا (وہ گھر لوطٰؑ کا تھا)
وَتَرَكْنَا فِيْہَآ اٰيَۃً لِّلَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ۳۷ۭ
اور ہم اس میں ایک (عبرت ناک) نشانی ان لوگوں کے لئے چھوڑدی، جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں۔
اب تک وہاں تباہی کے آثار موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔
وَفِيْ مُوْسٰٓى
اِذْ اَرْسَلْنٰہُ اِلٰى فِرْعَوْنَ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۳۸
فَتَوَلّٰى بِرُكْنِہٖ
وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۳۹
فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ وَہُوَمُلِيْمٌ۴۰ۭ
اور(اسی طرح) موسیُ ؑ کے واقعہ میں بھی ایک سبق ہے۔
جب کہ ہم نے مو سیؑ کوفرعون کے پاس کھل دلیل (معجزات) کے ساتھ بھیجا۔
تواس نے اپنی حکومت وسلطنت کے بل بوتے پر ایمان سے روگردانی کی
اورکہا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔
بالآخر ہم نے اس کواوراس کے لشکر کو اپنی گرفت میں لیا اور ان سب کو دریا میں ڈبودیا اور وہ تھا ہی ملامت کے قابل۔
وَفِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْہِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ۴۱ۚ
اور قوم عاد (کے واقعہ) میں بھی سامان عبرت ہے۔ جب کہ ہم نے ان پر ایک ایسی ہوا بھیجی جو خیر سے خالی تھی۔
مطلب یہ کہ اس میں نقصان کے سوا کسی طرح کا فائدہ نہ تھا۔
مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْہِ اِلَّا جَعَلَتْہُ كَالرَّمِيْمِ۴۲ۭ
وَفِيْ ثَمُوْدَ اِذْ قِيْلَ لَہُمْ تَمَتَّعُوْا حَتّٰى حِيْنٍ۴۳
جس چیز پرسے وہ گزری اسے تباہ کئے بغیر نہ چھوڑی (اور یہ آٹھ دن اور سات راتوں تک مسلسل چلتی رہی تھی)
اورثمود (کے واقعہ) میں بھی عبرت ہے (جب انہوں نے توبہ وایمان کی راہ اختیار نہ کی تو) اس وقت ان سے کہا گیا ایک مقررہ وقت تک دنیا کے فائدے اٹھالو جس کے بعد تم پر عذاب آکر رہے گا۔
فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّہِمْ
فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۴۴
فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِيَامٍ وَّمَا كَانُوْا
مُنْتَصِرِيْنَ۴۵ۙ
وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ۰ۭ
اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ۴۶ۧ
(اس تنبیہ کے باوجود) وہ اپنے رب کے حکم سے سرتابی کرتے رہے، چنانچہ ایک کڑا کے کی آواز نے انھیں آلیا، اور وہ دیکھتے رہ گئے۔
پھر وہ نہ تو اٹھنے ہی کی طاقت رکھتے تھے اور نہ ہی اپنی مدد آپ کرسکتے تھے۔
اور اس سے قبل نوحؑ کی قوم کو بھی ہلاک کیا گیا تھا۔
کیونکہ وہ فاسق ؔقوم تھی۔(یہاں فاسق ؔسے مراد کافر ہیں)
وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰہَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۴۷
وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰہَا فَنِعْمَ الْمٰہِدُوْنَ۴۸
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۴۹
اور ہم نے آسمان کواپنی قدرت سے بنالیا اور ہم بڑی قدرت والے ہیں۔
اور ہم نے زمین کوفرش کے طور پر بچھایا اور ہم کیا خوب ہموار (قابل رہائش) بنانے والے ہیں۔
اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے تا کہ تم غور وفکر سے کام لو
فَفِرُّوْٓا اِلَى اللہِ۰ۭ
اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۵۰ۚ
وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ۰ۭ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۵۱ۚ
پس مرضیاتِ الٰہی کے حصول میں سبقت کرو۔
میں تواللہ کی طرف سے صاف صاف ڈرانے والا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کومعبود نہ بناؤ میں تم کواللہ کی طرف سے علی الاعلان ڈرانے والا ہوں۔
كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۵۲ۚ
اَتَوَاصَوْا بِہٖ۰ۚ
بَلْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ۵۳ۚ
فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ۵۴ۤۡ
ان سے پہلے اسی طرح کی قوموں کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کو انہوں نے جادوگر یا دیوانہ نہ کہا ہو۔
کیا یہ لوگ ایک دوسرے کواسی بات کی وصیت کرتے آئے ہیں ؟ بلکہ وہ بڑی ہی سرکش قومیں تھیں۔
لہٰذا آپؐ ان کی طرف التفات نہ کیجئے ، آپ قابل باز پرس نہیں ہیں۔
(کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد معبود ومستعان ہونے کے دلائل پوری طرح پہنچاچکے ہیں )
وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۵۶
اورآپؐ نصیحت کئے جائیے کیونکہ نصیحت اہل ایمان کے لئے نفع بخش ہوتی ہے۔
اور میں نے جنوں اورانسانوں کواس لئے پیدا کیا ہے وہ میری عبادت کریں۔
( اور اپنی نجات آخرت کی فکر کریں اس لئے پیدا نہیں کیا کہ یہ دوسروں کی عبادت کرنے لگیں)
مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ
میں ان سے (مخلوق سے) رزق نہیں چاہتا (ان کو صرف رزق کمانے کے لئے نہیں بھیجا گیا)
وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۵۷
اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُ۵۸
فَاِنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِہِمْ
اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں پلائیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ خود ہی سب کو رزق پہنچانے والے نہایت ہی مستحکم قوت کے مالک ہیں۔
پس یقیناً ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنے پر ظلم کیا ہے ان کے حصے کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے جس طرح دوسرے لوگوں کو ان کا حصہ مل چکا ہے
فَلَا يَسْتَعْجِلُوْنِ۵۹
فَوَيْلٌ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ يَّوْمِہِمُ الَّذِيْ يُوْعَدُوْنَ۶۰ۧ
اس کے لئے یہ لوگ جلدی نہ کریں۔
پس ان کافروں کے لئے بڑی خرابی ہے جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔