☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ

ہرنقص وعجز سے پاک ہے وہ (ذات اقدس) جس نے ایک رات اپنے بندے (محمدﷺ) کومسجد حرام (یعنی کعبۃ اللہ)

اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا

سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک لے گیا۔

الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِيَہٗ مِنْ اٰيٰتِنَا۝۰ۭ

جس کے اطراف ہم نے برکتیں رکھی ہیں تا کہ ہم انھیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔

اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝۱

بے شک وہی سب کچھ سننے اوردیکھنے والا ہے۔ (بڑا ہی بااختیار ہے)

توضیح : اللہ تعالیٰ جس بندے کومنصب رسالت سے سرفراز فرمانا چاہتے ہیں تواس کوامورغیبیہ کا مشاہدہ کرواتے ہیں۔ چنانچہ حضوراکرمﷺ کوبھی امورغیبیہ کا مشاہدہ کروایا گیا۔ یہاں صرف مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جانے کا ذکر ہے۔ عالم بالا کے حالات کا ذکر سورۂ نجم آیات ۱۳ تا ۱۸ میں ہےوَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ (۱۳) اورانہوں نے اس (فرشتہ) کو (اصلی حالت میں) ایک بار اوربھی دیکھا ہے عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ (۱۴)۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ (۱۵) جس کے نزدیک جنت الماوی ہےمَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ ۱۸ یقیناً پیغمبر نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں، اس میں نہ آپؐ کی نظر کودھوکہ ہوا اورنہ آپؐ سے دیکھنے میں چوک ہوئی۔ لفظ اسری سے ان تمام اعتراضات کی تردید ہوجاتی ہے کہ روحانی عالم میں یا خواب میں حالات کا مشاہدہ کرایا گیا۔ کیونکہ اسری قرآن میں جہاں بھی استعمال ہواہے اس سے جسمانی سفر مراد ہے مثلاً سورہ طہ میں حضرت موسیٰ کوحکم دیا گیاوَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي (۷۷) اورہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کوراتوں رات نکال لے جاؤ۔فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ توآپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں کولے کرچلے جائیے۔ (الحجر ۶۵)

وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا

اورہم نے موسیٰ کو کتاب (توراۃ) عطا کی تھی، اوراس کوبنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا اورانھیں تاکید کی تھی کہ میرے سوا کسی کوکارساز

تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا۝۲ۭ

قرارنہ دینا۔

توضیح : کارسازی، حاجت روائی، فریاد رسی، مشکل کشائی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اسلام کی بنیادی تعلیم لاالٰہ الا اللہ۔ کا مفہوم بھی یہی ہے۔ جس کی تشریح قرآن میں متعدد جگہ آئی ہے۔ مثلاً حُنَفَاءَ لِلهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ (الحج آیت ۳۱) صرف اللہ ہی کے ہوکر رہو اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھیراؤ۔ ۲۔ قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ(انعام آیت ۱۴) آپ پوچھئے کیا میں اللہ تعالیٰ کوچھوڑ کرکسی غیراللہ کواپنا کارسازبناؤں وہی توآسمانوں اورزمین کا پیدا کرنے والا ہے اوروہی سب کورزق دیتا ہے کھلاتا ہے اوروہ خود کسی سے کھانا نہیں لیتا۔ ۳۔قُلْ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ (انعام آیت ۱۶۴) پیغمبران سے پوچھئے کیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اورحاجت روا کوتلاش کروں حالانکہ وہی ہرشئے کا پالنہار، کارساز حاجت روا ہے۔۔۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان امتناعی احکام کے باوجود مسلمان ’’یاغوث‘‘ یا علی ’’یا خواجہ‘‘ یا مشکل کشا یا پیر المدد یا بندہ نواز یا غریب نواز پکارتے ہیں۔ اوراس گمراہی کومجازی، عطائی، وعارضی کی تاویلات سے جائز قرار دیتے ہیں۔ اوراس کوبزرگوں سے عقیدت اورمحبت کے اظہار کا ذریعہ کہتے ہیں۔

ذُرِّيَّــۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ۝۰ۭ

(یہ بنی اسرائیل) ان ہی اہل ایمان کی نسل سے ہیں جن کوہم نے نوحؑ کے ساتھ (کشتی میں) سوارکیا تھا۔

اِنَّہٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا۝۳

بیشک وہ (نوحؑ) بڑے ہی شکرگزاربندے تھے۔

توضیح : یعنی انھیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مقرب بندے کونظم عالم میں تصرف کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا ہے۔ اوراللہ تعالیٰ ہی بلاشرکت غیرے فرماں روائی کررہے ہیں۔

وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا۝۴

اورہم نے بنی اسرائیل کوان کی کتاب میں یہ بات (بھی قبل ازقبل) بتلادی تھی کہ تم سب (سرزمین شام میں) دومرتبہ فتنہ وفساد برپا کروگے اوربڑی ہی سرکشی کروگے۔

توضیح : عُلُوًّا کَبِیْرًا۔ سے مراد شرک سے منع کرنے اورتوحید کی دعوت دینے والوں کوختم کردینے کی کوشش ہے۔ یہاں فساد سے مراد شرک ہے۔ الٰہی ونبویؐ تعلیم کی موجودگی میں شرک میں مبتلا ہونا ہی بہت بڑا فساد ہے۔ اورایسا کرنے والے بڑے ہی مفسد ہیں۔

فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىہُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ۝۰ۭ

پھر جب پہلے وعدہ کا وقت آیا (یعنی پہلی مرتبہ انہوں نے فساد مچایا) تو ہم نے ان پرسخت قتل وغارت کرنے والے بندوں کو مسلط کردیا اور وہ شہر میں ہرطرف سے پھیل گئے(شہریوں کوقتل کیا، ان کے مال لوٹے، گھروں کوبرباد کیا)

وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۝۵

اوروہ وعدہ پورا ہوکررہا۔

ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّۃَ عَلَيْہِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا۝۶

پھرہم نے دوسری بار(ائے بنی اسرائیل) تم کوان غارتگروں پرغلبہ عطا کیا اورہرطرح سے مدد کی۔ اورمال واولاد سے تمہاری مدد کی اورتمہاری ایک کثیر جماعت بنادی۔

اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا۝۰ۭ

اگرتم (الٰہی تعلیم کے مطابق) نیکو کاری اختیار کروگے تواپنے ہی لیے بھلائی کا سامان کروگے۔ اوراگرتم برے کام کروگے تواس کا وبال تم ہی پرہوگا۔

فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْہَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَـمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِــيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا۝۷

پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (یعنی جب تم نے دوبارہ فتنہ وفساد مچایا توہم نے اپنے سخت گیربندے بھیجے) تا کہ مار مار کرتمہارے چہرے بگاڑدیں اورجس طرح پہلی دفعہ (بیت المقدس) مسجد میں داخل ہوگئے تھے اس طرح اس میں داخل ہوجائیں اورجس چیز پرغلبہ پائیں اسے تباہ (وتاراج) کردیں۔

موضح القرآن:۔ کہتے ہیں کہ ان دونوں خرابیوں کے درمیان دوسوبرس کا تفاوت تھا۔ جب حضرت سلیمانؑ کی اولاد بیت المقدس میں بہت دولتمند ہوئی اورخدائے تعالیٰ نے انھیں بہت سی نعمتیں دیں تب انہوں نے ظلم اورگناہ اورتکبر اختیار کیا، اس وقت ان میں ارمیا پیغمبر تھے۔ انہوں نے بہیترے سمجھایا کہ یہ پہلا وعدہ ہے جوتوراۃ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔خبردار خدا تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرنا۔ انہوں نے حضرت ارمیا کا کہنا نہ مانا۔ تب خدا تعالیٰ نے بابل کے شہر سے بخت نصر بادشاہ کوبھیجا۔اس نے آکر بیت المقدس کے سرداروں کولوٹا اورعمارت گرائی۔ اورویران کیا اوربنی اسرائیل کے ستر ہزار آدمیوں کوقید کرکے لے گیا۔ پھراللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب مہیا کیے کہ وہ شہر اس سے زیادہ آباد ہوا اورمال ودولت کی کثرت کی وجہ سے بنی اسرائیل عیش وعشرت میں پڑگئے۔ اوردوسوبرس تک اسی حالت میں رہے۔ پھرخدا تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگے یہاں تک کہ حضرت یحییٰؑ کوشہید کیا اورحضرت عیسیٰؑ کوشہید کرنے کی فکر میں ہوئے۔ تب پھر اللہ تعالیٰ کا انتقام متعلق ہوا۔ روم کے بادشاہ اطسطوس کوان پربھیجا۔ اس نے ان کا پھرایسا ہی حال کیا۔ لوٹا اورقتل کیا اورعمارت گرائی اور ویران کیا۔ یہاں یہ سنت الٰہی ثابت ہوئی ہے کہ حاملان کتاب جب شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں توان پرگمراہ قوم کوغلبہ دیا جاتا ہے۔ اس عذاب سے بچنے کی اولین اورنبوی تدبیر شرک سے توبہ اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت وفرمانبرداری اختیار کرنا ہے۔

عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا۝۰ۘ وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ

(اگر تم توبہ کرلوتو)امید ہے، ہوسکتا ہے کہ تمہارا پروردگار تم پررحم کرے پھر تم ایسی ہی حرکت کرنے لگوگے توہم بھی تمہارے ساتھ پہلا سا سلوک

لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا۝۸

کریں گے (اس عذاب دنیا کے علاوہ) ہم نے جہنم کوکافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے۔

اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ

بے شک یہ قرآن بھی (موسیٰ کی کتاب کی طرح) ایسے راستہ کی ہدایت کرتا ہے جوبالکل سیدھا ہے اوران اہل ایمان کو (جواللہ تعالیٰ کی ہدایتوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں )جنت کی بشارت دیجئے۔

اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا كَبِيْرًا۝۹ۙ

ان کے لیے بڑا ہی اجر ہے۔
(جنت ونعمائے جنت، درجات جنت، دیدارالٰہی وغیرہ)

وَّاَنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ

اوران لوگوں کے لیے جوآخرت پریقین نہیں رکھتے (جن کا عقیدہ وعمل الٰہی تعلیم کے مطابق نہیں ہوتا، بزرگوں کی سعی وسفارشات سے نجات پانے کا عقیدہ رکھتے ہیں)

اَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝۱۰ۧ

توایسے لوگوں کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار رکھا ہے۔

وَيَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَہٗ بِالْخَيْرِ۝۰ۭ

اورعموماً انسان (اپنی بدحالی کے دور میں) خوشحالی کیطرح اپنے لیے تباہی کی دعائیں کربیٹھتا ہے۔

وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا۝۱۱

اورواقعہ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔

وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّہَارَ اٰيَـتَيْنِ

اورہم نے رات اوردن کودونشانیاں بنائیں۔

فَمَــحَوْنَآ اٰيَۃَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً 

پھر ہم رات کی تاریک نشانی کومٹادیتے ہیں اوردن کوروشن بنادیتے ہیں

لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ۝۰ۭ

تا کہ تم اپنے پروردگار کا فضل یعنی روزی تلاش کرسکو اور مہینوں وبرسوں کا حساب جان سکو۔

وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰہُ تَفْصِيْلًا۝۱۲

اورہم نے ہرشئے تفصیل سے بیان کردی ہے۔

توضیح : رات دن میں یہ نشانی ہے کہ ہرساعت آنی جانی ہے۔ مصیبت بھی آنی جانی ہے اورراحت بھی۔ انسان اس کوسمجھے اورہرحالت پرراضی بہ رضا رہے اورجلد بازی سے کام نہ لے۔ گھبرانے کا فائدہ نہیں۔ ہرچیز کا وقت مقرر ہے جیسے رات کسی کے گھبرانے سے اوردعا سے کم نہیں ہوتی۔ اپنے وقت پرصبح ہوتی ہے۔ دونوں نمونے اسی کی قدرت کے ہیں۔

وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰۗىِٕرَہٗ فِيْ عُنُقِہٖ۝۰ۭ

اورہم نے ہرانسان کے انجام کواس کے گلے کا ہار بنارکھا ہے۔(یعنی ہر انسان کا نیک وبد ہونا اس کے اپنے اختیار تمیزی اور کوشش پرمنحصر ہے۔)
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

وَنُخْرِجُ لَہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ كِتٰبًا يَّلْقٰىہُ مَنْشُوْرًا۝۱۳

اورہم قیامت کے دن ہرشخص کا نامۂ عمل کھول کر اس کے سامنے رکھ دیں گے (اوراس سے کہا جائے گا)

اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا۝۱۴ۭ

اپنی کتاب زندگی پڑھ، آج توخود اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کے لیے کافی ہے۔

مَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْــتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ

جس نے راہ ہدایت اختیار کی تواس نے اپنا ہی بھلا کیا اور جوگمراہ ہوا اس کی گمراہی کا وبال اسی پرپڑے گا۔

وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۝۰ۭ

اورکوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۰ۭ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۝۱۵

اورہم کسی کوسزا نہیں دیتے جب تک کہ رسول بھیج کر (لوگوں کوحق وباطل سے) آگاہ نہ کردیں۔

وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِكَ قَرْيَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْہَا

اورجب ہم کسی بستی کوہلاک کرنا چاہتے ہیں تواس کے خوشحال لوگوں کو (فواحش کا) حکم دیتے ہیں۔

فَفَسَقُوْا فِيْہَا فَحَـــقَّ عَلَيْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِيْرًا۝۱۶

پھرجب وہ احکام الٰہی کے خلاف نافرمانی کرنے لگتے ہیں توان پرہماری حجت پوری ہوجاتی ہے۔ پھر ہم اس بستی کوتباہ وبرباد کردیتے ہیں۔

وَكَمْ اَہْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ۝۰ۭ

اورہم نے نوحؑ کے بعدکتنی ہی امتوں کو(کفروضلالت کے سبب ) ہلاک کردیا۔

وَكَفٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا۝۱۷

اورآپ کا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں پرنظررکھنے اوران سے باخبر رہنے کے لیے کافی ہے۔

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّــلْنَا لَہٗ فِيْہَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ

جوکوئی دنیا ہی کے عیش کا چاہنے والا ہے(آخرت سے کوئی سروکار نہیں رکھتا) ہم اسے دنیا ہی میں جتنا چاہتے ہیں اورجسے چاہتے ہیں دے دیتے ہیں۔

ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَ۝۰ۚ يَصْلٰىہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۱۸

پھر ہم اس کے لیے جہنم تجویز کرتے ہیں جس میں وہ ذلیل وخوار ہوکرداخل ہوگا۔

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰى لَہَا سَعْيَہَا وَہُوَمُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُہُمْ مَّشْكُوْرًا۝۱۹

اورجوکوئی آخرت کا خواستگار ہوتا ہے اوروہ اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے اوروہ مومن بھی ہو (یعنی الٰہی تعلیم کے مطابق ایمان بھی رکھتا ہو) پس ایسے لوگوں کی کوشش بار آورہوگی ( انھیں اس کا پورا پورا بدل ملے گا)

كُلًّا نُّمِدُّ ہٰٓؤُلَاۗءِ وَہٰٓؤُلَاۗءِ

ہم ہرایک کی مدد کرتے ہیں، طالب دنیا کی بھی اورطالب آخرت کی بھی۔

مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ۝۰ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا۝۲۰

آپ کے رب کی یہ عطائے عام ہے کسی پربند نہیں (کافر مومن کی تخصیص نہیں)

اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰي بَعْضٍ۝۰ۭ

ائے نبی دیکھیے ہم نے کس طرح بعض کوبعض پرفضیلت بخشی یعنی اپنی نعمتیں زیادہ عطا کیں۔

وَلَلْاٰخِرَۃُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَكْبَرُ تَفْضِيْلًا۝۲۱

لیکن آخرت تودرجات کے اعتبار سے بھی بہت بڑی چیز ہے اورفضیلت کے اعتبار سے بھی۔

لَا تَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا۝۲۲ۧ

خبردار اللہ کے ساتھ کسی اورکومعبود نہ بنانا ورنہ بدحال وبے یارو مدد گار ہوکر بیٹھ رہوگے۔

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ

اورآپ کے پروردگار نے یہ حکم جاری کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرنا۔

توضیح :یعنی اللہ کے مقرب بندوں کواللہ کی فرماں روائی میں شریک ودخیل سمجھ کران کی نذرومنت ماننا اور مصیبتوں میں مدد کے لیے انھیں پکارنا۔ یہ سب لوازم عبادت ہیں اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہیں۔

وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ

اوروالدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔

اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ

اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں (اوربڑھاپے کی وجہ سے ان میں کوئی بدمزاجی پیدا ہوجائے تو) تم ان (ان کی بدمزاجی) پراُف بھی نہ کرنا۔

وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا

اورنہ ان سے جھڑک کربات کرنا بلکہ ان سے ادب( اورنرمی) کے ساتھ

كَرِيْمًا۝۲۳

بات کرنا۔

وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا كَـمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا۝۲۴ۭ

اور رحمدلی وعجزونیاز سے ان کے سامنے جھکے رہنا اور (ان کیلئے اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کرتے رہنا) ائے میرے پروردگار جس طرح انہوں نے بچپن میں شفقت سے میری پرورش کی تھی آپ بھی اسی طرح ان پررحم فرمائیے۔

رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِيْ نُفُوْسِكُمْ۝۰ۭ

تمہارا پروردگار جانتا ہے جوکچھ تمہارے دلوں میں ہے۔( بشری کمزوریاں تمہارے اندر ہیں، ہوسکتا ہے کہ کوئی سخت بات نکل جائے)

اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِيْنَ فَاِنَّہٗ كَانَ لِلْاَوَّابِيْنَ غَفُوْرًا۝۲۵

اگرتم صالح بنوگے، ان کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرتے رہوگے تویقیناً اللہ تعالیٰ گناہوں پرندامت (کے ساتھ رجوع الی اللہ ہونے) کرنے والوں کوبڑے ہی بخشنے والے ہیں۔

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۝۲۶

اورقرابت داروں مسکینوں اورمسافروں کا جوحق (تمہارے مال میں) ہے دیا کرو، تبذیر اور اسراف (فضولیات اورلہولعب میں) بے جا مصارف وفضول خرچی مت کرو۔

اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۝۰ۭ

بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں ( یعنی انہی کے مشابہ ہیں)

وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۝۲۷

اورشیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔

وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْہُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْہَا فَقُلْ لَّہُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا۝۲۸

اوراگر ان کی طرف توجہ نہ کرسکو(فی الحال تمہارے پاس ان مساکین کودینے کیلئے کچھ نہ ہو اور آئندہ)اس انتظار میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ملنے کی امید ہو تو نرمی سے بات کرو (یوں کہہ دوکہ اللہ تعالیٰ سے امید ہے انشاء اللہ کچھ مال آجائے توہم تمہاری مدد کرینگے۔)

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰى عُنُقِكَ

اوراپنا ہاتھ گردن سے نہ باندھ لو (یعنی دینے دلانے میں بخالت نہ کرو)

وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۝۲۹

اورنہ ہاتھ ا تنا کھلا کردو کہ ہرطرف سے ملامت پڑے، پھر تم تہی دست ہوکر بیٹھے رہو۔

اِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ۝۰ۭ

بے شک آپ کا پروردگار جس کیلئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اورجس کیلئے چاہتا ہے تنگ کرتا ہے(رزق کی تنگی وفراخی مبنی برحکمت ہے)

اِنَّہٗ كَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا۝۳۰ۧ

بیشک اللہ اپنے بندوں کے حالات ونفسیات سے پوری طرح باخبر ہے۔

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ

اوراپنی اولاد کومفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔

توضیح :افلاس وتنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کوقتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ جس خوف واندیشہ کے تحت اولاد کوقتل کیا جاتا ہے وہ معاملہ توبالکلیہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اوریہ ہرایک کا مسلمہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب کے رزاق ہیں۔ قتل اولاد میں وہ تمام ذرائع اور طریقے اورتدابیر شامل ہیں جونسل انسانی کودنیا میں آنے سے روکنے کیلئے کیے جاتے ہیں یہ ایک قطعی بات ہے کہ انسان کوقتل کرنا یا نسل انسانی کوبڑھنے سے روکنا دونوں ایک ہی قسم کے جرم ہیں۔ اس سلسلہ میں جس بات کی گنجائش ہے وہ ’’عزل ‘‘ ہے اس کی اجازت کومانع حمل تدابیر کے اختیار کرنے کے جواز میں پیش کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ بلکہ رسول اللہﷺ کی وقتی اورانفرادی اجازت سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنا ہے اس سلسلہ میں ایک مغالطہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ بڑی جان کی حفاظت کیلئے چھوٹی جان کا ضائع کرنا جائزہے حالانکہ یہ کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے۔
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ اورساتھ ہی وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ کا بیان کرنا اس بات پردلالت کرتا ہے کہ جب بھی انسان قتل اولاد کا مرتکب ہوگا، چاہے وہ بہ شکل قتل ہو یا زندہ درگورکرنا، یا ضبط تولید یا ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی ہرصورت سے معاشرے میں زنا اورفحش رواج پاتا ہے اورانسانی جان بے
وقعت ہوجاتی ہے۔ ان تینوں امور کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اسلام انسان کونرامعاشی حیوان نہیں قراردیتا بلکہ ہرمعاملہ میں آخرت ہی کوپیش کرکے انسانیت کا درس دیتا ہے۔ ضبط تولید کا پرچار کرنے والے آخر کسی نہ کسی کی اولاد ہی ہیں۔ اگر یہی خوف ان کے والدین کوہوتا تویقیناً دنیا ان کے وجود سے پاک ہی ہوتی۔ اس طریقہ کے پرچار سے اللہ رب العزت کے تعلق سے یہ بدگمانی پھیلائی جارہی ہے کہ وہ انسانوں کوپیدا توکررہا ہے لیکن ان کے لیے سامان رزق پیدا نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح انسان کوخود غرض، تنگ نظراورکم ظرف بنایا جارہا ہے۔ انسان کے فکر وخیال کی جس نہج پر تربیت کی جارہی ہے اس کے نتائج بدمغربی اقوام میں دیکھے اورسنے جارہے ہیں چنانچہ مغربی اقوام کواپنے بوڑھے ماں باپ ہی بار نہیں ہیں بلکہ یتیم بھائی بہنیں، معذور وغریب بھی بار ہیں۔ غرض ہروہ کام جواللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہوکسی صورت میں بھی مستحسن نہیں ہوسکتا اوراس کے نتائج بد جلد یا بدیر دیکھنے میں آجاتے ہیں۔ وقعت ہوجاتی ہے۔ ان تینوں امور کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اسلام انسان کونرامعاشی حیوان نہیں قراردیتا بلکہ ہرمعاملہ میں آخرت ہی کوپیش کرکے انسانیت کا درس دیتا ہے۔ ضبط تولید کا پرچار کرنے والے آخر کسی نہ کسی کی اولاد ہی ہیں۔ اگر یہی خوف ان کے والدین کوہوتا تویقیناً دنیا ان کے وجود سے پاک ہی ہوتی۔ اس طریقہ کے پرچار سے اللہ رب العزت کے تعلق سے یہ بدگمانی پھیلائی جارہی ہے کہ وہ انسانوں کوپیدا توکررہا ہے لیکن ان کے لیے سامان رزق پیدا نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح انسان کوخود غرض، تنگ نظراورکم ظرف بنایا جارہا ہے۔ انسان کے فکر وخیال کی جس نہج پر تربیت کی جارہی ہے اس کے نتائج بدمغربی اقوام میں دیکھے اورسنے جارہے ہیں چنانچہ مغربی اقوام کواپنے بوڑھے ماں باپ ہی بار نہیں ہیں بلکہ یتیم بھائی بہنیں، معذور وغریب بھی بار ہیں۔ غرض ہروہ کام جواللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہوکسی صورت میں بھی مستحسن نہیں ہوسکتا اوراس کے نتائج بد جلد یا بدیر دیکھنے میں آجاتے ہیں۔

نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۝۰ۭ

ہم انھیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی

اِنَّ قَتْلَہُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا۝۳۱

بے شک ان کا قتل ایک بھاری گناہ ہے۔

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا۝۳۲

اور خبردار زنا کے قریب بھی نہ جانا(یعنی ایسے طریقے اختیار نہ کرنا جوزنا کی طرف مائل کریں، مثلاً نامحرمات کوگھورنا، فحش ناولوں کا پڑھنا، برہنہ تصاویر کا دیکھنا وغیرہ) بلاشبہ وہ نہایت ہی بے حیائی ہے اور نہایت ہی بری راہ ہے)۔

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۭ

اورکسی شخص کوبھی قتل نہ کرنا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قتل انسان کوحرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ اس کے قتل کرنے پرکوئی شرعی جواز ہو (مثلا قصاص وغیرہ)

وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ۝۰ۭ

اورجوکوئی ناحق قتل کیا جائے اس کے وارث کوہم نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ قاتل سے قصاص لے۔ خبردار قصاص کے بارے میں حدود شرعی سے تجاوز نہ کرنا۔

اِنَّہٗ كَانَ مَنْصُوْرًا۝۳۳

بے شک وہ مدد کیے جانے کے قابل ہے (یعنی ہرشخص پر لازم ہے کہ خون کا بدلہ دلانے میں اس کی مدد کرے۔ وارث کویہ حق دیا گیا ہے کہ وہ حدود شرعیہ میں قاتل سے بدلہ لے)

وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا

اوریتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ (یعنی ایسے مواقع فراہم نہ کروکہ

بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ حَتّٰى يَبْلُغَ
اَشُدَّہٗ۝۰۠

یتیم کے مال میں تصرف ہوجائے) سوائے اس کے کہ یتیم ہی کی بھلائی
کے لیے اس کا مال خرچ کرنا پڑے، اوریہ احتیاط اس وقت تک کی جائے کہ وہ جوان ہوجائیں اوراپنے نفع وضرر کوسمجھنے لگیں

وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۝۳۴

اورجوعہد واقرار کرواس کوپورا کرویقیناً۔ (قیامت میں) ہرعہدو اقرار کی پرسش ہوگی۔

وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۝۳۵

اورجب کوئی چیز ناپ کردویا ناپ کرلو تواس میں کمی بیشی نہ کرو اورصحیح ترازو سے برابر تول کرو، یہ زرین ہدایتیں ہیں اوران کا انجام بھی نہایت ہی اچھا ہے۔

وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۝۰ۭ

اورجس بات کا تم کو علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو (یعنی اس کومعلوم کرنے کے لیے قیاس آرائی نہ کیا کرو)

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶

یقیناً کان، آنکھ اوردل کی ہرحرکت کے متعلق باز پرس ہوگی۔

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۝۳۷

اور زمین پراکڑکراترا کر مت چلو(اس طرح چل کر) تم زمین کو پھاڑ نہ سکوگے اور اس طرح اکڑ کرپہاڑوں کی بلندی کو نہ پہنچ سکوگے۔

كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَيِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْہًا۝۳۸

یہ تمام برائیاں تمہارے پروردگار کے پاس نا پسندیدہ ہیں۔

ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَۃِ۝۰ۭ

یہ (تعلیم) جوکچھ بھی آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر وحی کی گئی ہے بڑی ہی حکیمانہ ہے۔

توضیح : (حکمت یہ کہ دنیا اور اس کا عیش عارضی ہے۔ اصل اورباقی رہنے والی زندگی آخرت ہی کی ہے۔ یہ زندگی اس کونصیب ہوتی ہے تومرضیات الٰہی کے مطابق اپنے نفس کوقابو میں رکھتا ہے)

وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ

(لہٰذا حکم دیا جاتا ہے کہ) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اورکومعبود نہ بنانا۔

توضیح : یعنی اللہ تعالیٰ کی فرماں روائی وکارسازی میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کوبااختیار نہ سمجھنا۔ ایسا کبھی خیال نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کوتصرف عالم کا اختیار دے کرانھیں شریک کاربنالیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے مقرب بندوں کوبھی الٰہ ومعبود سمجھنا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ایسا جاہلانہ عقیدہ اختیار نہ کرنا۔

فَتُلْقٰى فِيْ جَہَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا۝۳۹

ورنہ تم (مجرمانہ حیثیت سے) رائندہ درگاہ ہوکر نہایت ہی ذلت وخواری کے ساتھ جہنم میں ڈال دیئے جاؤگے۔

اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِيْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنَاثًا۝۰ۭ

(ائے مشرکو) کیا تمہارے پروردگار نے تمہارے لیے توبیٹوں کا انتخاب کیا ہے؟ اورخود اپنے لیے فرشتوں میں سے لڑکیوں کوپسند کررکھا ہے (جنہیں تم اپنے لیے باعث ننگ وعار سمجھتے ہو)

اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِيْمًا۝۴۰ۧ

یقیناً تم توبڑی نامعقول بات کہتے ہو (جس کا انجام آخرت ابدی نار جہنم ہے)

توضیح : مشرک فرشتوں کواللہ تعالیٰ کی چہیتی بیٹیاں سمجھتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ بندوں کے معاملات کا تصفیہ انہی کی سفارش پرمنحصر ہے حالانکہ وہ نہ عورت ہیں اورنہ مرد نہ کھاتے ہیں اورنہ پیتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ایک فرمانبردار مخلوق ہیں لاَیَعْصُوْنَ مِنْ اَمْرِاللہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے۔ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤمَرُوْنَ اورجوبھی انھیں حکم دیا جاتا ہے فوراً بجالاتے ہیں۔

وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لِيَذَّكَّرُوْا۝۰ۭ وَمَا يَزِيْدُہُمْ اِلَّا نُفُوْرًا۝۴۱

اورہم نے اس قرآن کے ذریعہ انھیں مختلف انداز میں سمجھایا تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں لیکن اس سے ان کی نفرت میں اوراضافہ ہوا (مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔)

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَہٗٓ اٰلِـہَۃٌ كَـمَا يَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِي الْعَرْشِ سَبِيْلًا۝۴۲

(ائے نبیﷺ) ان سے کہئے اگر ان کے عقیدہ کے مطابق اللہ کے ساتھ اللہ کے مقرب بندے بھی الٰہ (معبود ومستعان) ہوتے توایسی صورت میں وہ مالک عرش اللہ کی طرف راستہ نکال لیتے اوراس تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔

توضیح : یعنی لڑتے بھڑتے تخت شاہی کوہی الٹ دیتے۔ سارا نظام ارضی وسماوی درہم برہم ہوجاتا۔ آج تک کسی مقرب سے مقرب بندہ نے اس بات کا ادعا نہیں کیا کہ اس کی رسائی عرش الٰہی تک ہے۔

سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا

وہ ان نقائص سے پاک بالا وبرتر ہے جویہ اللہ کے تعلق سے کہتے ہیں ۔

كَبِيْرًا۝۴۳

(کہ اللہ اپنے مقرب بندوں کواپنے اختیارات کا کوئی جزودیئے بغیر اپنے بندوں کی حاجت براری نہیں کرسکتے اللہ کے لیے عجز ثابت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کے عجزونقص سے پاک بلند وبرتر اورتنہا بلاشرکت غیرے حکمرانی پر پوری طرح قادر ہیں)

تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۝۰ۭ

(واقعہ یہ ہے کہ) ساتوں آسمان اورزمین اورزمین اوران کے درمیان جومخلوق ہے وہ سب کے سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں (یعنی زمین وآسمان کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کی گواہی دیتا ہے)

وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِيْحَہُمْ۝۰ۭ

اورکائنات میں کوئی شئی ایسی نہیں ہے جواللہ تعالیٰ کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھ سکتے۔

اِنَّہٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا۝۴۴

بے شک وہ بڑا ہی حلیم ہے (اپنے فضل سے بندوں کی بعض ناگوارباتوں کوبرداشت کرلیتا ہے، توبہ کرنے پربڑا )ہی بخشنے والا ہے۔

وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۝۴۵ۙ

( ائے نبیؐ) جب آپ قرآن پڑھتے ہیں توہم آپ کے اوران کے درمیان جوآخرت پرایمان نہیں لاتے ایک پردہ حائل کردیتے ہیں (یعنی بے حسی پیدا کردیتے ہیں)

وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اَكِنَّۃً اَنْ يَّفْقَہُوْہُ وَفِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا۝۰ۭ

اورہم (انتقاماً) ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں (یعنی موانعات پیدا کردیتے ہیں) کہ اسے سمجھ ہی نہ سکیں اوران کے کانوں میں ثقل پیدا کردیتے ہیں۔

توضیح : مطلب یہ ہے کہ اللہ نے عقل وسمجھ، سماعت وبصارت اس لئے دی ہے کہ ان کے ذریعہ حق وباطل میں تمیز کرسکیں۔ نفع ونقصان معلوم کریں۔ انسان جب ان قوتوں سے وہ کام نہیں لیتا جس کیلئے یہ عطا ہوئے ہیں تونتیجتاً ان قوتوں کا ہونا نہ ہونا یکساں ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا الٰہ واحد معبود ومستعان ہونا اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتا جب تک کہ مردہ بزرگوں کا بے اختیار ہونا ذہن نشین نہ ہوجائے۔

وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِہِمْ نُفُوْرًا۝۴۶

اور جب آپ قرآن میں اپنے پروردگار کے تنہا ویکتا فرمانروا ہونیکا ذکر کرتے ہیں تووہ (مشرک) نفرت کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں۔

توضیح : یعنی جب آپؐ ان کے سامنے یہ قرآنی تعلیم بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے کسی مقرب سے مقرب بندہ کوذرا برابر بھی اختیار نہیں دیا ہے اورکسی کی رائے مشورہ کے بغیر اللہ تعالیٰ تنہا اپنے بندوں کی کارسازی وفرمانروائی فرماتے ہیں تووہ نہایت ہی ناگواری کے ساتھ واپس ہوتے ہیں۔

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُوْنَ بِہٖٓ اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ

جس وقت یہ آپ کی طرف کان لگا کرقرآن سنتے ہیں تو ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ کس غرض کیلئے سنتے ہیں (طعنہ زنی اورعیب جوئی ان کا مقصد ہوتا ہے)

وَاِذْ ہُمْ نَجْوٰٓى اِذْ يَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝۴۷

اورجب وہ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں تواس وقت یہ ظالم (اہل ایمان سے) کہتے ہیں تم توایک ایسے شخص کی اتباع کرتے ہو جس پرجادو کردیا گیا ہے۔

اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا۝۴۸ 

ائے نبیؐ دیکھیے یہ لوگ آپ کے متعلق کیسی کیسی باتیں کرتے ہیں پس وہ گمراہی میں جاپڑے، اب وہ ہدایت پا نہیں سکتے ۔

وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا۝۴۹

اورانہوں نے کہا جب ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہوکر ریزہ ریزہ ہوجائیں گی توکیا ہم ازسر نودوبارہ پیدا کیے جائیں گے ۔

قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِيْدًا۝۵۰ۙ
اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِيْ صُدُوْرِكُمْ۝۰ۚ

(ائے نبیؐ) ان سے کہئے کہ تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا یا کوئی ایسی چیز بن جاؤ جوتمہارے خیال میں بڑی ہی سخت ہو (اس کے بعد بھی تم دفعتاً دوبارہ پیدا کیے جاؤگے)

فَسَيَقُوْلُوْنَ مَنْ يُّعِيْدُنَا۝۰ۭ

(اس تفہیم کے بعد بھی) وہ یہی کہیں گے کون ہم کودوبارہ زندہ کرے گا ؟

قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝۰ۚ

کہئے وہی جس نے تم کوپہلی بار پیدا کیا (وہی دوبارہ دفعتا ًپیدا کرے گا)

فَسَيُنْغِضُوْنَ اِلَيْكَ رُءُوْسَہُمْ وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہُوَ۝۰ۭ قُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا۝۵۱

اس پر وہ طنز آمیز انداز سے سرہلا ہلا کر پوچھتے ہیں کہ ایسا کب ہوگا، ان سے کہئے ممکن ہے کہ بہت قریب ہی ہو ۔

يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ

جس دن تم کو(محاسبۂ اعمال کیلئے) بلایا جائے گا اورتم (بلاچوں وچرا

بِحَمْدِہٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا۝۵۲ۧ

بے اختیار) اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے جواب دوگے (یعنی اس پکار کی طرف دوڑوگے اور) یہ بھی خیال کروگے کہ تم دنیا میں بہت ہی کم مدت رہے تھے۔

توضیح : اس آیت میں بحمدہ کا مطلب ہے کہ اس وقت انھیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پرقادر ہیں۔

وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ۝۰ۭ

اورائے نبی بندوں سے (جنہوں نے دعوت الٰہی قبول کرلی ہے) کہہ دیجئے کہ وہ لوگوں سے ایسی گفتگو کریں جوپسندیدہ ہو،
(لہجہ سخت نہ ہو، الفاظ دل دکھانے والے نہ ہوں)

اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ

یقیناً شیطان ایسی باتوںسے آپس میں ایک دوسرے کی طرف سے بگاڑپیدا کرتا ہے۔

كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا۝۵۳

بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

توضیح : یہاں اہل ایمان کونصیحت کی گئی ہے کہ نہ صرف وہ آپس میں ترش کلامی سے بچیں بلکہ مخالفین کے ساتھ بھی نرمی سے بات کریں۔ خصوصیت کے ساتھ دعوت حق کے پیش کرنے میں مخاطب اگرسخت کلامی پراترآئے توجواب میں حکمت اور موعظت حسنہ کوملحوظ رکھے اوربرائی کا جواب بھلائی سے دے۔ چنانچہ حٰمٓ سجدہ آیت ۲۴ میں خاص طورپرہدایت کی گئی ہے اوراس ہدایت پرعمل کا نتیجہ بھی بتادیا گیا ہے۔وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۔ بھلائی وبرائی دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ۔ برائی کا جواب بھلائی سے دو، اس کے نتیجہ میں تمہارا جانی دشمن جگری دوست بن جائے گا۔ اس ہدایت کے خلاف جوبھی خیال آئے وہ شیطان کی کارستانی ہے جس سے بچنا چاہئے۔ چاہے نفس پرکتنا ہی گراں گزرے اس سلسلہ میں ہرشخص کوتجربہ ہوگا کہ سخت کلامی کے جواب میں سخت کلامی، برائی کے جواب میں برائی، معاملہ کوبگاڑدیتی ہے۔

رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ۝۰ۭ اِنْ يَّشَاْ يَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ يَّشَاْ يُعَذِّبْكُمْ۝۰ۭ

تمہارا پروردگار تم سے خوب واقف ہے، اگر چاہے تو تم پر رحم کرے (یعنی تمہاری غلطیوں پرمطلع کرکے تم کواپنی اصلاح حال کا موقع دے) درگزرکرے یا اگرچاہے توتم کوعذاب دے۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ وَكِيْلًا۝۵۴

اور ہم نے آپ کوان کی ہدایت کا ذمہ داربنا کرنہیں بھیجا۔

وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

اورجولوگ آسمانوں اورزمین میں ہیں ان کا پروردگار ان سب کوبخوبی جانتا ہے۔

وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّـبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا۝۵۵

اورہم نے بعض پیغمبروں کوبعض پرفضیلت دی ہے اور ہم نے داؤد کوزبور عنایت کی (بادشاہت بھی دی)

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيْلًا۝۵۶

(ائے محمدﷺ) ان (مشرکین) سے کہئے کہ جن کوتم اللہ کے سوا معبود قراردے رہے ہو انھیں مدد کیلئے پکارو توسہی، وہ تمہاری تکلیف ومصیبت کودور کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں اورنہ اس حالت کوبدلنے کا۔

توضیح : اللہ تعالیٰ کے سوا مردہ بزرگوں اورغائب افراد کوحاجت روا اورمشکل کشا سمجھ کرپکارنا ایک بے حقیقت چیز ہے۔ چنانچہ اس کوزعم فرمایا گیا یعنی گمانِ محض وقیاسِ بے اصل غیراللہ سے منت مراد مانگنے والا ایسا ہی مجرم ہے جیسا ایک بت پرست۔ نہ وہ کوئی مصیبت ٹال سکتے ہیں نہ کسی بری حالت کواچھی حالت سے بدل سکتے ہیں۔ اس طرح کا اعتقاد ہی شرک ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ

جن ہستیوں کویہ لوگ پکارتے ہیں اوراللہ کے تقرب کے لیے وسیلہ سمجھتے

اِلٰى رَبِّہِمُ الْوَسِـيْلَۃَ اَيُّہُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ۝۰ۭ

ہیں وہ توخود قرب کی تلاش میں ہیں اور وہ اسی کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اوراس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔

اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا۝۵۷

بے شک آپ کے رب کا عذاب ڈرنے ہی کے لائق ہے۔

توضیح : خدا ورسول کی تعلیمات بالفاظ دیگر اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ اوربندہ معبود اورعبد میں راست تعلق ہے۔ افترائی مذہب نہیں ہے کہ دیوتاؤں تک پہنچنے کے لیے پجاری کی ضرورت پڑے۔ یہاں پجاری خود بھی اللہ تعالیٰ کے قریب پہنچنے کے لیے طاعت وعبادت کو اختیار کرتا ہے ، پجاری خود بھی محتاج ہے توجہ الی اللہ کا۔ پھر وہ پجاری کسی کی کیا مدد کرے گا۔ مقرب سے مقرب بندہ کو بھی عبادت اور طاعت سے معافی نہیں۔ ولی اللہ بھی شریعت سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ تک پہنچنے کے لیے ہرکوئی شریعت کا محتاج ہے۔ شریعت لازم ہے اوروہی وسیلہ ہے، اللہ تک پہنچنے کا۔
جو لوگ سورہ مائدہ کی آیت ۲۵ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔ سے اللہ وبندہ کے درمیان بزرگوں کوواسطہ وسیلہ بنانا جائز قراردیتے ہیں غور کریں کہ لفظ وسیلہ سے مراد قرب الٰہی تلاش کرنا ہے نہ کہ بزرگوں کوواسطہ وسیلہ بنانا لفظ وسیلہ کے معنیٰ خود قرآن سے متعین ہوجاتے ہیں۔ قرآن کے خلاف جومعنیٰ ومطلب بھی لیے جائیں گے وہ تحریف اورغلو ہے۔

وَاِنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُہْلِكُوْہَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْہَا عَذَابًا شَدِيْدًا۝۰ۭ

اورکفار کی کوئی ایسی بستی نہیں ہوگی جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کردیں یا اس بستی والوں کوسخت ترین عذاب نہ دے لیں۔

كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا۝۵۸

یہ بات لوح محفوظ میں لکھ دی گئی ہے یعنی اللہ کے پاس طے شدہ ہے۔

وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ۝۰ۭ

اور(فرمائش پر)معجزات کے بھیجنے میں ہمیں یہی امرمانع ہوا کہ ان سے پہلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی۔
(معجزات دیکھ کربھی ایمان نہ لائے بلکہ ان کوجھٹلایا)

وَاٰتَيْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِہَا۝۰ۭ

(چنانچہ قوم ثمود کے مطالبہ پر) ہم نے ثمودؑ کواونٹنی کا معجزہ عطا کیا تو اس پر انھوں نے ظلم کیا( صالح اللہ کے رسول ہیں پھر بھی ان لوگوں نے حق کا انکار کیا)

وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا۝۵۹

اورہم معجزات صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں۔

توضیح : سنت الٰہی تویہ ہے کہ جب کوئی قوم مطلوبہ معجزہ دیکھنے کے بعد بھی مخالفت حق سے باز نہیں آتی تواس کودنیا ہی میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اس لیے حضوراکرمﷺ کوکوئی مطلوبہ معجزہ عطا نہیں کیا گیا، کیونکہ آپؐ آخری رسول ہیں۔

وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ۝۰ۭ

اورجب ہم نے آپ سے کہا کہ (یہ حقیقت بیان کردی تھی کہ) آپ کا پروردگار سارے لوگوں کوعلماًوقدرتاً گھیرے ہوئے ہے

وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ

اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھایا (اور آخرت کے بعض مناظر دکھائے) ان میں لوگوں کے لئے آزمائش تھی( کہ کون انھیں سن کر دعوت حق قبول کرتا ہے اور کون انحراف )

وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِي الْقُرْاٰنِ۝۰ۭ

اور شجر ملعونہ میں بھی جس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔
(جس کے خار دار پھل اہل نار کی غذا ہوں گے ان دونوں چیزوں کو لوگوں کے لیے آزمائش بنایا)

وَنُخَوِّفُہُمْ۝۰ۙ فَمَا يَزِيْدُہُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا۝۶۰ۧ

اورہم انھیں انجام آخرت سے ڈراتے ہیں مگر ان کی سرکشی بڑھتی ہی جاتی ہے۔

ونادانی ہے کہ عارضی نفع ونقصان کوپیش نظررکھے اورابدی نقصان سے بچنے کی فکرنہ کرے۔ انسان آخرت ہی کے خوف سے اپنی اصلاح کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ سے سرکشی کرنے والے کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ

اورجب ہم نے فرشتوں کوحکم دیا کہ آدم کوسجدہ کریں تو شیطان کے سوا سب نے سجدہ کیا۔

قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِيْنًا۝۶۱ۚ

اس نے کہا کیا میں اس کو سجدہ کروں جس کو آپ نے مٹی سے بنایا ہے۔

توضیح : شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کے لیے جوعذر پیش کیا ہے وہ آدم کا مٹی سے بنایا جانا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم ہی پہلے انسان ہیں جنہیں مٹی سے بنایا گیا اورانھیں خلافت دی گئی۔ اس طرح ان تمام باطل خیالات کی تردید ہوجاتی ہے جن میں حضرت آدم ؑ کوپہلا انسان قرار دیا گیا۔ اورنظریہ ڈارون کی بھی تردید ہے جس میں انسان کوبندر کی ترقی یافتہ شکل کہا گیا ہے۔

قَالَ اَرَءَيْتَكَ ہٰذَا الَّذِيْ كَرَّمْتَ عَلَيَّ۝۰ۡ

(اورطنزاً )کہنے لگا غور توکیجئے یہی وہ شخص ہے جس کو آپ نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔

لَىِٕنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِيْلًا۝۶۲

اگر آپ نے مجھے قیامت تک مہلت دی توچند لوگوں کے سوا اس کی تمام اولاد کوبہکا کر اپنے بس میں کرلوں گا (اس طرح ثابت کردوں گا کہ وہ مجھ پرفضیلت کے قابل نہ تھا)

قَالَ اذْہَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْہُمْ فَاِنَّ جَہَنَّمَ جَزَاۗؤُكُمْ جَزَاۗءً مَّوْفُوْرًا۝۶۳

اللہ نے فرمایا نکل جا، ان میں جوتیری پیروی کرے گا توان سب کی سزا تیرے ساتھ جہنم ہے جزا بھی پوری طرح ملے گی۔

وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِكَ وَاَجْلِبْ عَلَيْہِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْہُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْہُمْ۝۰ۭ

اوران میں سے جن جن پرتیرا بس چلے ان میں تواپنی چیخ پکار (اپنے ناچ گانوں) سے بہکاتا رہ اور (معصیت میں سرگرم) اپنے سوا اور پیادے وسوار ان پر چڑھاکر لاتارہ اورانکے مال واولاد میں شریک ہوتا رہ (یعنی ان کے اموال معصیت الٰہی میں خرچ کراتا رہ) اوران سے جس قدر بھی جھوٹے وعدے ہوں کیے جا۔

وَمَا يَعِدُہُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝۶۴

شیطان توان لوگوں سے صرف جھوٹے وعدے ہی کیا کرتا ہے ۔

اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْہِمْ سُلْطٰنٌ۝۰ۭ

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) میرے (مخلص) بندوں پرتیرا کوئی بس چل نہ سکے گا۔

یعنی 

وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا۝۶۵

اور (ائے نبیؐ) آپ کا پروردگار کار ساز ہے، کافی ہے ۔

رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۭ

تمہارا پروردگار وہی توہے جوتمہارے لیے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل(رزق) کی تلاش کرسکو۔

اِنَّہٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـيْمًا۝۶۶

بے شک وہ تم پرہی بڑا رحیم ہے۔

وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۚ

اورجب تم کوسمندر میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے(ڈوب جانے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے) تو(کارسازی ومشکل کشائی کیلئے جن جن کوپکارتے تھے )وہ سب تمہارے ذہن سے نکل جاتے ہیں اور تم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو۔

فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ

اورجب ہم تم کوسلامتی کے ساتھ ساحل پرپہنچادیتے ہیں توہم سے منہ موڑتے ہو۔

وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۝۶۷

اورواقعی( مشرک) انسان (اللہ تعالیٰ کا ) بڑا ہی ناشکرا ہوتا ہے۔

اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ

(ائے لوگو) کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم کوخشکی کے کنارے پہنچا کر(تمہاری ناشکری کی پاداش میں) تمہیں زمین میں دھنسادے۔

اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِيْلًا۝۶۸ۙ

یا تم پرپتھراؤ کرنے والی آندھی بھیجے (جس سے تم ہلاک ہوجاؤ) پھر تم اپنے لیے کسی کوکارساز نہ پاؤگے۔

اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ يُّعِيْدَكُمْ فِيْہِ تَارَۃً اُخْرٰى

اورکیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم کودوسری بارسمندر میں لے جائے۔

فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّيْحِ

پھرتم پرہوا کا سخت طوفان بھیج دے۔

فَيُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْ۝۰ۙ

اورپھرتم کوتمہارے کفر(وطغیان) کے سبب غرق کردے۔

ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَيْنَا بِہٖ تَبِيْعًا۝۶۹

پھر اس طرح غرق ہوجانے پرتم اپنے لیے کوئی ہمارا پیچھا کرنے والا نہ پاؤگے۔

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا۝۷۰ۧ

اورہم نے ہی اولاد آدم کوعزت بخشی (بزرگی عطا کی) اور ہم نے ہی انھیں بحروبرمیں سواریاں مہیا کیں اورانھیں پاکیزہ مرغوب غذائیں عطا کیں اورہم نے ان کواپنی کثیرمخلوق پرایسی فضیلت بخشی جیسی کہ بخشی جانی چاہئے تھی۔

يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍؚبِـاِمَامِہِمْ۝۰ۚ

جس دن ہم تمام انسانوں کوان کے اعمال ناموں سمیت بلائیں گے۔

فَمَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَہٗ بِيَمِيْنِہٖ

پھرجن کا نامہ عمل سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا

فَاُولٰۗىِٕكَ يَقْرَءُوْنَ كِتٰبَہُمْ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۝۷۱

ایسے لوگ (خوش خوش) اپنے اپنے نامہ عمل کوپڑھیں گے ان کی رتی برابر حق تلفی نہ ہوگی (یعنی ان کے اعمال کا انھیں پورا پورا بدل دیا جائے گا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔

توضیح : اس آیت سے قادیانی ہرزمانے کا ایک پیغمبر ہوتا ہے مراد لیتے ہیں۔ یہاں امام سے مراد نامۂ اعمال ہے۔

وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۝۷۲

اورجودنیا میں الٰہی تعلیم سے اندھا بنارہے گا وہ آخرت میں بھی واقعی اندھا اوربڑا ہی گمراہ ہوگا۔

توضیح : اہل تصوف جوخود کواہل معرفت سمجھتے ہیں، اس آیت سے اپنے متبعین کویہ باورکراتے ہیں کہ دنیا میں شہود حق سے جومحروم رہا وہ آخرت میں بھی دیدار الٰہی سے محروم رہے گا۔ یہ اہل کشف کے وہ مکشوفات ہیں جن کی تردید میں پورا قرآن موجود ہے جس کی رو سے دیدار الٰہی کا مقام دنیا نہیں بلکہ آخرت ہے۔ دنیا میں صرف ایمان بالغیب کا مطالبہ ہے۔ یہاں اندھے پن سے مراد سر کی آنکھوں کا اندھا پن نہیں بلکہ الٰہی ونبوی تعلیم سے بے خبر رہنا اورغفلت برتنا ہے۔
ایسا ہی مضمون سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۲۴،۱۲۵،۱۲۶ میں آیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
اورجو میری نصیحت سے منہ موڑے گا توپھراس کے لیے معیشت تنگ کردی جائے گی اورہم قیامت میں اس کو اندھا اٹھائیں گے جس پر وہ کہے گا کہ ائے میرے پروردگار آپ نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا حالانکہ میں دنیا میں بینا تھا،د یکھتا بھالتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تیرے لیے یہی مناسب تھا کیونکہ تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں تونے انھیں بھلادیا (کوئی توجہ نہ کی) جس کے نتیجہ میں آج ہم تیرا بھی کچھ خیال نہیں کریں گے‘‘۔
اسی طرح سورہ حج آیت ۴۶ میں بھی ایسا ہی مضمون آیا ہے:۔ ’’کیا یہ لوگ زمین پرچلے پھرے نہیں ہیں جن سے ان کے دل ایسے ہوجائیں کہ ان سے سمجھنے لگیں اور کان ایسے ہوجائیں کہ ان سے سننے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نصیحت عبرت حاصل کرنے لیے آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جوسینوں میں ہیں اندھے ہوتے ہیں‘‘۔

وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَہٗ۝۰ۤۖ

ائے نبی قریب تھا کہ مخالفین حق ہماری وحی سے متعلق آپ کوفتنے میں ڈال دیتے تا کہ آپ ہماری طرف غلط باتیں منسوب کرنے لگیں۔

وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا۝۷۳

اگرآپ ایسا کرتے تووہ آپ کواپنا دوست بنالیتے۔

توضیح : یہ ان حالات کی طرف اشارہ ہے جوپچھلے دس بارہ سال سے نبی کریمﷺ کوپیش آرہے تھے۔ کفار اس بات کے درپے تھے جس طرح بھی ہو آپ کواس دعوت سے ہٹادیں جسے آپ پیش کررہے تھے، اورکسی نہ کسی طرح آپ کومجبور کردیں کہ آپ ان کے شرک اوررسوم جہالت سے کچھ نہ کچھ مصالحت کرلیں۔ اسی غرض کیلئے انہوں نے آپ کوفتنہ میں ڈالنے کی کوشش کی۔ فریب بھی دیئے، لالچ بھی دیا، دھمکیاں بھی دیں، جھوٹے پروپگنڈوں کا طوفان بھی اٹھایا، ظلم وستم بھی کیا، معاشی دباؤ بھی ڈالا، معاشرتی مقاطعہ بھی کیا اوروہ سب کچھ کرڈالا جو کسی انسان کے عزم کوشکست دینے کیلئے کیا جاسکتا ہے۔

وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ

اوراگر ہم آپ کوثابت قدم نہ رکھتے توقریب تھا کہ آپ ان کی طرف کچھ

تَرْكَنُ اِلَيْہِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا۝۷۴ۤۙ

جھک ہی جاتے۔

وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْہَا

اور یہ لوگ آپ کوخوف دلاکرسر زمین مکہ سے آپ کے قدم اکھیڑنے ہی کوتھے تا کہ آپ کووہاں سے نکال دیں

وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۷۶

اوراگرایسا ہوتا تومعدودے چند یہ لوگ بھی آپ کے بعد وہاں ٹھیر نہ سکتے تھے۔

سُنَّۃَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا

آپ کے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے گئے ہیں ان کے متعلق ہماری یہی سنت رہی ہے۔

وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيْلًا۝۷۷ۧ

اور آپ ہماری اس سنت کو بدلتے ہوئے نہ پاؤگے۔
جب قوموں نے اپنے رسولوں کوان کے اپنے وطن سے نکالا توانھیں بھی وہاں رہنا نصیب نہ ہوا۔

اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ۝۰ۭ

(ائے نبیؐ) آپ آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کے تاریک ہونے تک نمازیں ادا کیجئے (یعنی نمازوں کے ذریعہ رجوع الی اللہ رہے۔)

توضیح :اس میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء چارنمازیں آگئیں۔ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ کے ساتھ جن اوقات کا تعین کیا گیا ہے۔ بالکل وہی اوقات دیگر آیات میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ کی بجائے سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ کے الفاظ آئے ہیں۔ جن سے قطعی ثابت ہوتا ہے کہ ان الفاظ سے مراد اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ہی ہے۔ ورنہ ایک ہی وقت میں دوامور کے انجام دینے کا حکم بے معنیٰ قرار پاتا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیلؑ کے ذریعہ حضوراکرمﷺ کوپنج وقتہ نماز کا ابتدائی وانتہائی وقت بتلایا ہے جیسا کہ ابوداؤد وترمذی میں حضرت عباسؓ کی روایت ہے۔
حضوراکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ جبرئیلؑ نے مجھ کودو مرتبہ بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جب کہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا۔ اورسایہ ایک جوتی کے تسمہ سے زیادہ دراز نہ تھا۔ پھر عصر کی نماز ٹھیک اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اپنے قدر کے برابر تھا۔ پھر مغرب کی نماز ٹھیک اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار افطار کرتا ہے۔ پھر عشاء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھائی۔ اورفجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے۔ دوسرے دن انہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر تھا۔ اورعصر کی نماز اس وقت کہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہوگیا۔ اورمغرب کی نماز اس وقت کہ روزہ دار افطار کرتا ہے۔ اورعشاء کی نماز ایک تہائی رات گزرجانے پر۔ اورفجرکی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر۔ جبرئیلؑ نے پلٹ کرمجھ سے کہا۔ ائے محمدﷺ یہی اوقات انبیاء کے نماز پڑھنے کے ہیں۔ اورنماز وں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں۔ (یعنی پہلے دن ہروقت کی ابتداء دوسرے دن ہروقت کی انتہاء بتائی گئی ہے۔ ہروقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ہونی چاہئے۔
پانچ وقت کی نماز کا فرض ہونا حضور اکرمﷺ سے آج تک تواترو تسلسل سے عملی حیثیت سے ثابت ہے۔ ان کے خلاف کوئی بات کہنا اپنی گمراہی کا ثبوت پہنچانا ہے۔ نماز کوہمیشہ اس کے بالکل ابتدائی وقت پر ادا کرلینا سنت قائمہ قرار دیا جاتا ہے۔ اورجو نماز اس کے درمیانی وقت میں یا تھوڑی سی تاخیر سے پڑھی جاتی ہے اس کوخلاف سنت قرار دیا جاتا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔

اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُوْدًا۝۷۸

بے شک صبح کی نماز (فرشتوں کے) حاضر ہونے کا وقت ہے۔

توضیح :صحیحین میں یہ بات مرفوعا بیان کی گئی ہے کہ فجر کی نماز میں رات اوردن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں)

وَمِنَ الَّيْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّكَ۝۰ۤۖ

اوررات میں تہجد کی نماز بھی پڑھیے جو آپ کے لیے فرض نمازوں کے علاوہ ایک زائد فرض ہے۔

عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۝۷۹

ہوسکتا ہے کہ آپ کا رب آپ کومقام محمود عطا کرے۔

توضیح : ۱) قرآن کے احکام کی عملی شکل، سنت رسولؐ اور روش صحابہؓ سے متعین ہونی چاہئے۔ جوبات بھی سنت رسولؐ اورروشِ صحابہؓ کے خلاف ہوگی وہ یقیناً گمراہ کن اورغلط ہی ہوگی۔
۲) تہجد کے معنیٰ نیند توڑکراٹھنا ہے۔ یعنی رات میں ایک حصہ سونے کے بعد پھراٹھ کرنماز پڑھنی چاہئے۔ سورہ مزمل میں اللہ تعالیٰ نے ان اوقات کوبیان فرمایا ہے جن میں حضورﷺ اورصحابہ کرام تہجد کی نماز ادا کرتے تھے۔ ان قطعی دلائل کے باوجود صلوۃ الیل یعنی تہجد کی نماز شب کے بالکل ابتدائی وقت میں ادا کرنا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ یہ خیال بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ صلوۃ الیل اورنماز تراویح ایک ہی ہے۔ قرآنی حکم کے خلاف روایتوں سے استدلال کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ یہ طریقہ کار دین میں فرقہ بندی کا باعث بنا۔ کسی مستحب امر پراس قدر زوردینا کہ وہ واجب کی حد تک پہنچ جائے دین میں منع ہے۔ دین میں غلو حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ادائی نماز کا جووقت مقرر فرمایا ہے۔ مثلاً قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَاَطْرَافِ النَّہَارِ وغیرہ، ان اوقات کے درمیان نماز ادا کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہی ہوگی۔ حضورؐ کے ارشاد کی رو سے ابتدائی وانتہائی اوقات کے درمیان نماز کا ادا کرنا غلط نہیں ہوسکتا۔

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۝۸۰

اوریہ دعا کرتے رہئے کہ ائے میرے پروردگار مجھے (مدینہ میں) اچھی طرح داخل کیجئے اور(مکۃ المکرمہ سے) اچھی طرح نکالیے اورمیرے لیے اپنے پاس سے زور وقوت (عطا فرمائیے، ایسی قوت جو ہر حال میں میری )کو میرامددگار (ثابت ہو) بنائیے۔

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوْقًا۝۸۱

اوریہ اعلان بھی کردیجئے کہ حق آگیا اورباطل مٹ گیا بے شک باطل نابود ہونے والا ہی ہے۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَاۗءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۙ

اورہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جوایمان لانے والوں کے حق میں شفا ورحمت ہیں۔

وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِـمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا۝۸۲

اورظالموں (سرکشوں) کے حق میں اس سےاُ لٹا نقصان ہی بڑھتا ہے۔

توضیح : یعنی جن لوگوں کا ایمان شرک کی گندگیوں سے پاک نہ ہو وہ اس کلام کوسنیں گے اورپڑھیں گے بھی توان کونقصان کے سواکچھ حاصل نہ ہوگا۔

وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ۝۰ۚ

جب ہم انسان کواپنی نعمتوں سے نوازتے ہیں تووہ ہم سے منہ موڑتا اورپہلو بدلتا ہے۔ ( اس نعمت کواپنے بزرگوں کا فیضان یا اپنی عقل وتدبیر کا نتیجہ سمجھتا ہے)

وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ كَانَ يَـــــُٔوْسًا۝۸۳

اور جب اس کوکوئی تکلیف ومصیبت پہنچتی ہے توہم سے نا امید ہوجاتا ہے (حالانکہ اس کو ان مقرب بندوں سے نا امید ہوجانا چاہئے تھا جن سے اس نے اپنی ساری امیدیں وابستہ کررکھی تھیں یا اس کو اپنی ان کوتاہیوں ونافرمانیوں کا جائزہ لینا چاہئے تھا جن کی وجہ سے وہ ان حالات سے دوچار ہوا۔)

قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِہٖ۝۰ۭ

(ائے نبیؐ کہہ دیجئے ہر شخص (نجات کے لئے) اپنے اپنے طریقہ پرعمل کرتا ہے

فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَاَہْدٰى سَبِيْلًا۝۸۴ۧ

لہٰذا آپ کا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کہ کون راہ ہدایت پرہے۔

وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ۝۰ۭ

اورائے نبیؐ یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں (کہ وہ کیا چیز ہے یہ سوال بنی اسرائیل نے کیا تھا)

قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا۝۸۵

کہئے کہ روح میرے رب کا ایک حکم ہے۔ اور تم کوبہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ (اتنا ہی جتنا کہ تمہاری اصلاح کے لیے ضروری ہے)

توضیح : اللہ تعالیٰ کی تخلیق وربوبیت کے تواتنے شعبے ہیں کہ ان کوبہ تفصیل بیان کرنے کے لیے تمام درخت قلم اورسارے سمندر سیاہی بن جائیں تب بھی ان کی تفصیلات ختم نہ ہوں۔

وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ

اوراگر ہم چاہیں توجس قدر وحی ہم نے آپ پربھیجی ہے سلب کرلیں۔

ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِہٖ عَلَيْنَا وَكِيْلًا۝۸۶ۙ

پھراس کے واپس لانے کیلئے آپ کوہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ ملے۔

اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ

مگریہ آپ کے رب ہی کی رحمت ہے( کہ ایسا نہ ہوا)

اِنَّ فَضْلَہٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا۝۸۷

بے شک آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ

(ائے نبیؐ منکرین قرآن سے) کہئے اگر جن وانس مل کر بھی قرآن کی طرح کوئی (اصلاحی) کتاب بنالانا چاہیں توایسی کتاب نہیں لاسکتے۔

وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۝۸۸

اگرچہ کہ وہ اس کام میں ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔

توضیح : آج بھی اس جہالت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ یعنی قرآن کے کلام اللہ ہونے کی تردید میں نت نئے استدلال تیار کیے جارہے ہیں۔ چنانچہ حاسدان اسلام اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ قرآن کوکلام الٰہی کی بجائے محمدﷺ کا کلام ثابت کردیں۔ یا قرآن کے الفاظ کم یا زیادہ کرائے جائیں تا کہ مسلمانوں کے قلوب سے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہونے کا تصور محو ہوجائے یا کم ازکم اس عقیدے میں شک وشبہات ہی پیدا کئے جائیں۔

وَلَقَدْ صَرَّفْـنَا لِلنَّاسِ فِيْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۝۰ۡ

اورہم نے اس قرآن میں لوگوں کوہرطرح سمجھایا ہے (سمجھانے کے جتنے بھی طریقے ہوسکتے ہیں ان سب کے ذریعہ کہیں توالفاظ اورکہیں تفہیم بدل کراورکہیں گزشتہ واقعات بیان کرکے اورکہیں مثالیں دے کرنہایت ہی عمدہ طریقے سے سمجھایا گیا کہ قرآن کوان کے پروردگار ہی نے انسانوں کی ہدایت کیلئے نازل کیا ہے، یہ اور کسی کا کلام نہیں ہے)

فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا۝۸۹

مگرلوگوں کی اکثریت نے انکار ہی کیا۔

وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙ

اورکہا آپ پرہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے (مکہ کی سنگلاخ زمین میں) کوئی چشمہ جاری نہ کردیں۔

اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ

یا خاص کرآپ کے لیے کھجوریا انگور کا باغ ہو

فَتُفَجِّرَ الْاَنْہٰرَ خِلٰلَہَا تَفْجِيْرًا۝۹۱ۙ

پھراس کے بیچ بیچ میں جگہ جگہ بہت سی نہریں آپ جاری کردیں۔

اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَـمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللہِ

یا جیسا کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں( ایمان نہ لانے کی صورت میں آسمان ہم پرٹوٹ پڑے گا) آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پرگرادیجئے۔

وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ قَبِيْلًا۝۹۲ۙ

یا اللہ کواورفرشتوں کوہمارے سامنے لے آئیے ۔

اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ

یا آپ کے لیے سونے کا گھر ہو

اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۭ

یا آپ (ہمارے سامنے) آسمان پرچڑھ جائیں ۔

وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ۝۰ۭ

اورہم آپ کا آسمان پرچڑھ جانا با ورنہ کریں گے جب تک کہ آپ لکھی لکھائی کتاب بھی وہاں سے نہ لے آئیں جس کو ہم (بآسانی) پڑھ سکیں۔

قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ ہَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۝۹۳ۧ

(ان مطالبات کے جواب میں ائے نبیؐ آپ) صرف یہ کہہ دیجئے سبحان اللہ میں توصرف ایک بشر اوراللہ کا رسول ہوں (ان فرمائشات کا پورا کرنا میرے اختیار میں نہیں)

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَہُمُ الْہُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۝۹۴

اور جب بھی لوگوں کے پاس ہدایت آئی تواس کے قبول کرنے میں یہی امرمانع ہوا کہ کہا کیا اللہ نے بشر کورسول بنا کربھیجا ہے (اگر یہ رسول ہوتے تومافوق البشر ہوتے)۔

توضیح : سورہ انعام آیت ۹ میں ان کے اسی مطالبہ کے جواب میں فرمایا گیا اگرہم فرشتے کورسول بنا کر بھیجتے تواس کو انسان ہی بنا کربھیجتے کیونکہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان کورسول بنا کر بھیجنا نہ صرف عدل وانصاف، رحمت وشفقت کا تقاضا ہے بلکہ عقل وفطرت انسانی کے عین مطابق بھی۔ انسان انسان ہی کودیکھ کرانسانیت سیکھتا ہے اپنے جیسے انسان ہی کی پیروی واتباع کرسکتا ہے۔ اگر فرشتے کورسول بنا کر انسانوں کواس کی پیروی کا حکم دیا جاتا تو یہ ظلم ہوتا۔

قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَۃٌ

(ائے نبیؐ) کہئے اگر زمین پرفرشتے ہوتے، اس پراطمینان سے بستے

يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۝۹۵

چلتے پھرتے ہوتے توہم ان پرآسمان سے فرشتے کورسول بنا کر بھیجتے۔

قُلْ كَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ۝۰ۭ

(ائے نبیؐ) انکار حق کرنے والوں سے) کہئے (کہ تم میری رسالت کا لاکھ انکار کیے جاؤ) میرے اورتمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔

اِنَّہٗ كَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِيْرًۢا بَصِيْرًا۝۹۶

بے شک اللہ اپنے بندوں کے تمام احوال سے باخبر ہے۔

وَمَنْ يَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝۰ۚ

اورجس کواللہ تعالیٰ راہ دکھائیں وہی ہدایت پاتا ہے۔

وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِہٖ۝۰ۭ

اورجس کوگمراہی میں پڑا رہنے دیں توپھر ائے نبیؐ آپ اللہ کے مقابلہ میں کسی کو ایسے لوگوں کا مددگار نہ پاؤگے۔

وَنَحْشُرُہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَلٰي وُجُوْہِہِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا۝۰ۭ

اورہم انھیں قیامت کے دن گونگے اندھے اوربہرے بنا کر منہ کے بل (اوندھے منہ) گھسیٹتے ہوئے اٹھائیں گے،

مَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۝۰ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِيْرًا۝۹۷

ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب بھی آگ دھیمی ہونے لگتی ہے توہم انھیں عذاب دینے کے لیے بھڑکاتے ہیں۔

ذٰلِكَ جَزَاۗؤُہُمْ بِاَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا

یہ ان کی جزا ہے اس لیے کہ وہ ہماری آیتیوں کا انکار کرتے ہیں۔

وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا۝۹۸

اورانہوں نے یوں کہا تھا جب ہم مرکر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوجائیں گی توکیا دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ

کیا یہ لوگ اتنا نہیں جانتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اورزمین کوپیدا کیا وہ اس بات پرقادر ہے کہ ان کودوبارہ اسی حالت میں پیدا کردے۔

وَجَعَلَ لَہُمْ اَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيْہِ۝۰ۭ

اوران کے لیے( محاسبہ اعمال کا) ایک وقت مقرر کردیا ہے جس کے واقع ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔

فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا۝۹۹

پھر(اتنی واضح تعلیم کے بعد بھی) ظالموں نے انکار کیا قبول نہ کیا۔

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَۃِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْـيَۃَ الْاِنْفَاقِ۝۰ۭ 

کہئے اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک بھی ہوتے توتم خرچ ہوجانے کے اندیشہ سے بخل ہی کرتے۔

وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۝۱۰۰ۧ

اورانسان بڑا ہی تنگ دل ہے۔

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍؚ بَيِّنٰتٍ

(ائے نبیؐ معجزہ کا مطالبہ کرنے والوں سے کہئے کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ) ہم نے موسیٰ کونوواضح معجزات عطا کیے

فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَہُمْ

لہٰذا ائے نبیؐ آپ بنی اسرائیل سے پوچھ دیکھئے جب وہ معجزات ان کے پاس آئے۔

فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا۝۱۰۱

توفرعون نے کہا ائے موسیٰ میں سمجھتا ہوں کہ کسی نے آپ پرجادو کردیا ہے۔
(ان نو معجزات کا ذکر سورہ اعراف کی متعدد آیتوں میں کیا گیا ہے)

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ہٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ۝۰ۚ

موسیٰ نے کہا یقیناً تم جانتے ہو کہ یہ سارے معجزات آسمانوں اورزمین کے پروردگار کے سوا کسی نے نازل نہیں کیے جس میں کافی بصیرت ہے۔

وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا۝۱۰۲

اورائے فرعون میں سمجھتا ہوں کہ ہلاکت تیرے نصیب میں ہے۔

فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّہُمْ مِّنَ الْاَرْضِ

تواس نے موسیٰ اوران کی قوم کوصفحہ ہستی سے مٹادینے کا ارادہ کرلیا۔

فَاَغْرَقْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ جَمِيْعًا۝۱۰۳ۙ

توہم نے اس کواور اس کے سارے ساتھیوں کوغرق دریا کردیا۔

وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۝۱۰۴ۭ

اوراس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کوکہا کہ اب تم اس ملک میں رہو سہو (مگر اس بات کونہ بھولو) پھر جب وہ وعدہ آخرت آئے گا توہم تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے۔

وَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ۝۰ۭ

اورہم نے اس قرآن کوبالکل صحیح صحیح طورپرنازل کیا ہے اورسچائی کے ساتھ (شیطانی دست برد سے محفوظ رکھ کر) نازل کیا ہے۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۝۱۰۵ۘ

اورہم نے آپ کوخوشخبری دینے والا اورڈر سنانے والا بنا کر بھیجا (یعنی اہل ایمان کوجنت کی خوشخبری سنانے اورایمان نہ لانے والوں کوجہنم کی آگ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا لہٰذا

(آپ کے طریقہ تبلیغ میں انجام آخرت کے یہی دوپہلو نہایت ہی نمایاں ہونے چاہئیں)

وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَي

اورقرآن کوہم نے ہی (وقفہ وقفہ سے اور)تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا

النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ

ہے تا کہ آپ موقع بہ موقع ٹھہر ٹھہر کرلوگوں کوسنایا کریں۔

وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِيْلًا۝۱۰۶

اورہم ہی نے اس کوحسب ضرورت بتدریج اتارا ہے۔
(تا کہ قرآن اچھی طرح لوگوں کے ذہن نشین ہوجائے اوران کواس کے قبول کرنے میں کوئی گرانی اوراس پر عمل کرنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہو۔ قرآن کے بیک وقت نازل نہ ہونے پرجواعتراض کیا گیا ہے اس کا جواب ان آیتوں میں دیا گیا ہے)

قُلْ اٰمِنُوْا بِہٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ

( ائے نبیؐ ان معترضین سے) کہہ دیجئے تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ (مگریہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے)

اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْہِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷ۙ

جن لوگوں کواس سے پہلے کی کتابوں کا علم دیا گیا ہے، جب ان کے سامنے یہ قرآن پڑھاجاتا ہے تووہ تھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔

وَّيَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۝۱۰۸

اورکہتے ہیں سبحان اللہ یعنی ہمارا پروردگار وعدہ خلافی جیسے نقص سے پاک ہے بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوکر رہا۔

توضیح : یعنی ہمارے رب نے ہماری کتاب میں یہ جووعدہ فرمایا تھا کہ ایک آخری نبی اورایک آخری کتاب آئے گی وہ پورا ہوکررہا۔

وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُہُمْ خُشُوْعًا۝۱۰۹ ۞

اوروہ روتے ہوئے منہ کے بل گرجاتے ہیں یعنی سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اورقرآنی تعلیم سے ان کا خشوع اوربھی بڑھ جاتا ہے۔

قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ۝۰ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۚ

ائے نبیؐ ان سے کہئے (جب تم مدد کے لیے اللہ تعالیٰ کوپکارو تو) اللہ کہو یا رحمٰن، جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب نام اچھے ہی ہیں۔

وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا۝۱۱۰

اوراپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ آہستہ بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کر۔ (اورنماز میں قرآن نہ (بہت زیادہ) بلند آواز سے پڑھئے اورنہ اتنی پست آواز سےکہ لوگ سن بھی نہ سکیں بلکہ ایک اوسط اوردرمیانی طریقہ اختیار کیجئے۔)

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ

اور(ائے نبیؐ آپ صاف صاف یہ) اعلان کردیجئے کہ ساری تعریف

وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّہٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْہُ تَكْبِيْرًا۝۱۱۱ۧ

صرف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے نہ کسی کوبیٹا بنایا (کہ وہ اس کا ہاتھ بٹائے) اور نہ کوئی اس کی فرمانروائی میں شریک (ودخیل) ہے (اور نہ ہی اس نے اپنے اختیارات کا کوئی جزوکسی کوعطا کیا ہے) اورنہ وہ کمزور وعاجز ہے کہ اس کوکسی مددگار کی ضرورت لاحق ہو لہٰذا اس کی خوب خوب بڑائی بیان کرتے رہئے۔

توضیح : اس حکم کی تعمیل میں ہی اللہ اکبر کے کلمات بیان فرمائے گئے ہیں۔ ان کلمات کے ذریعہ اس بات کا اعلان کیا جارہا ہے کہ کائنات کا خالق ورب، حاجت روا فریاد رس اللہ تعالیٰ ہی ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار کا کوئی جزوکسی فرد خلق کوچاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوعطا نہیں فرمایا۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان کلمات کے ذریعہ جن باطل عقاید کی تردید کی گئی ہے۔
آج ان کلمات کا نعرہ لگانے والے یعنی نعرۂ تکبیر کہنے والے ان ہی تمام باطل عقائد میں مبتلا ہیں اورمبتلا کیے جاتے ہیں۔