☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

حٰـمۗ۝۱ۚ

ح، م، یہ حروف مقطعات ہیں، ان کے کوئی معنی بہ اسناد صحیح رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہیں۔

تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۚ

یہ کتاب اللہ رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔

كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰيٰتُہٗ

یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کربیان کی گئی ہیں(جن میں حق وباطل کی تمیز ہے)

قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّــقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝۳ۙ

یہ قرآن عربی زبان میںہے اس قوم کیلئے جو سمجھ بوجھ سے کام لیتی ہے۔

بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا۝۰ۚ

یہ قرآن (ایمان لانے والوں کوجنت کی) بشارت دینے والا اور (ایمان نہ لانے والوں کودوزخ کے عذاب سے) ڈرانے والا ہے۔

فَاَعْرَضَ اَكْثَرُہُمْ

چنانچہ ان میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی۔

فَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ۝۴

پس وہ اس کو سنتے بھی نہیں ہیں۔

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْہِ

اور وہ (نبیﷺ سے) کہتے ہیں جس چیز کی طرف آپ ہمیں بلاتے ہیں اس کیلئے ہمارے دلوں پرغلاف چڑھے ہوئے ہیں(یعنی ہمارے دلوں تک پہنچنے کیلئے کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسی لئے ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا)

وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ

اورہمارے کانوں میں ثقل ہے (تمہاری آواز ہمارے کانوں میں نہیں پہنچتی)

وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ

اورہمارے اورتمہارے درمیان ایک (دبیز) پردہ حائل ہے۔

فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ۝۵

لہٰذا آپ اپنا کام کئے جائیے، ہم اپنا کام کئے جارہے ہیں ۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ

ائے نبیﷺ کہئے میں بھی تم جیسا ایک بشر ہوں (پھر یہ تمہارے اورمیرے درمیان پردہ کیسا ؟)

يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ

(ہاں) مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ومستعان اللہ الہ واحد ہی ہے۔

فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ۝۰ۭ

پس طاعت وعبادت میں اسی کی طرح متوجہ رہو۔

اسی کی عبادت کرو اور اسی سے مانگو۔ کسی اور کوخدا نہ بناؤ۔ کسی اور کی پرستش نہ کرو اور اسی سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو۔

وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ۝۶ۙ

اور مشرکین کے لئے بڑی خرابی ہے۔

الَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ

یہ وہ لوگ ہیں جو (تزکیہ نفس کیلئے) اللہ کی راہ میں مال خرچ نہیں کرتے (بلکہ غیراللہ کی خوشنودی کیلئے نذرونیاز میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں)

وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ كٰفِرُوْنَ۝۷ۙ

اور وہ آخرت کے منکر ہیں( نجات آخرت کی جوصحیح تعلیم ہے اس کا انکارکئے جاتے ہیں)

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

جو لوگ ایمان لاتے ہیں یعنی تعلیمات الٰہی کوقبول کرلیتے ہیں اورنیک عمل کرتے ہیں(یعنی الٰہی تعلیم کے مطابق زندگی بسرکرتے ہیں)

لَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۝۸ۧ

ان کے لئے آخرت میں کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ملے گا۔

قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ

ائے نبیﷺ، ان سے کہئے کیا تم اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کاملہ کا انکار کرتے ہو۔ جس نے زمین کودو دن میں بنایا۔

وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۝۰ۭ

اورتم اللہ کے لئے اس کی مخلوق کواس کا ہمسر شریک ٹھیراتے ہو(ان سے استعانت چاہتے ہو)

ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۝۹ۚ

وہی سارے جہاں کا رب (مالک ومختار ہے)

وَجَعَلَ فِيْہَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِہَا وَبٰرَكَ فِيْہَا

اوراسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ قائم کئے، اور اس میں خیر کثیر رکھی( ہزار ہا سال سے انسان ان سے استفادہ کئے چلاجارہا ہے)

وَقَدَّرَ فِيْہَآ اَقْوَاتَہَا فِيْٓ اَرْبَعَۃِ اَيَّامٍ۝۰ۭ

اور اس میں سارا سامان معیشت (ہرایک کی طلب وحاجت کے مطابق) صرف چار دن میں تجویز کیا۔

سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ۝۱۰

پوچھنے والوں کے لئے صحیح جواب یہی ہے۔

ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَہِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا۝۰ۭ

پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ دھواں سا تھا تواللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان سے فرمایا: وجود میں آجاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔

قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ۝۱۱

دونوں نے عرض کیا ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح ۔

فَقَضٰىہُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ

پھر دو دن میں سات آسمان بنائے۔

وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَہَا۝۰ۭ

اور ہر آسمان میں اس سے متعلق احکام بھیجے

وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ۝۰ۤۖ وَحِفْظًا۝۰ۭ

اور ہم نے آسمان دنیا کوستاروں سے زینت بخشی اور شیاطین سے اس کی حفاظت کی۔

ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ۝۱۲

یہ سارا نظام ایک بڑے ہی جاننے والے زبردست اللہ کا مقرر کیا ہوا ہے۔

فَاِنْ اَعْرَضُوْا

پس اگر وہ (دلائل توحید سن کر بھی اللہ تعالیٰ کوالہ واحد معبود ومستعان ماننے سے) روگردانی کریں

فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ۝۱۳ۭ

توکہئے میں تم کوایک ایسے آسمانی عذاب (مہلک چیخ) سے ڈراتا ہوں، جیسے عاد ثمود کی قوم پرآیا تھا۔

اِذْ جَاۗءَتْہُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ

جب ان کے پاس پے در پے رسول آتے رہے (اورانھیں ہرطرح سمجھانے کی کوشش کی)

اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ۝۰ۭ

کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کی پرستش وبندگی نہ کرو۔

قَالُوْا لَوْ شَاۗءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَۃً فَاِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ كٰفِرُوْنَ۝۱۴

توانہوںنے کہا اگر ہمارے پروردگار کومنظور ہوتا تو فرشتوں کو(رسول بنا کر) بھیجتا لہٰذا ہم اس (عقیدۂ توحید) کے منکر ہیں، جس کودے کرتم بھیجے گئے ہو ۔

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ

پھر قوم عاد ملک میں ناحق اپنی بڑائی جتاتی رہی۔

وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً۝۰ۭ

اور انہوں نے کہا ہم سے بڑھ کرطاقت کون رکھتا ہے

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِيْ خَلَقَہُمْ ہُوَاَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً۝۰ۭ

کیا انہوں نے غور نہیں کیا وہ اللہ ہی توہے جس نے انھیں پیدا کیا وہ سب سے بڑھ کربے پناہ قوت کا مالک ہے

وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْــحَدُوْنَ۝۱۵

اور وہ ہماری آیتوں سے ہمارے احکام سے انکار ہی کرتے رہے۔

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ

پھر ہم نے ان پر(ان کی شامت اعمال کے نتیجہ میں) سخت طوفانی ہوائیں بھیجیں۔ یہ ان کے لئے بڑی ہی مصیبت کے دن تھے۔

لِّنُذِيْقَہُمْ عَذَابَ الْخِــزْيِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۭ

تا کہ انھیں دنیا کی زندگی میں ذلت ورسوائی کا مزہ چکھائیں۔

وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَخْزٰى وَہُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ۝۱۶

اورآخرت کا عذاب اس سے زیادہ رسوا کن ہے، اور ان کوکسی طرح کی مدد نہیں دی جائے گی۔

وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَيْنٰہُمْ

اورثمود کوبھی ہم نے (پیغمبر کے ذریعہ) راہ ہدایت دکھائی۔

فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْہُدٰى

انہوں نے ہدایت کے بدلے اندھا رہنا پسند کیا (روشنی کے بجائے تاریکی کوترجیح دی)

فَاَخَذَتْہُمْ صٰعِقَۃُ الْعَذَابِ الْہُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۱۷ۚ

ان کی بدکاریوں کے سبب ایک ذلت آمیز آسمانی عذاب نے انھیں اپنی گرفت میں لیا۔

وَنَجَّيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۝۱۸ۧ

اورایمان والوں کو ہم نے اپنے عذاب سے بچالیا (کیونکہ وہ گمراہی وبد عملی سے بچتے تھے۔

وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَاۗءُ اللہِ اِلَى النَّارِ فَہُمْ يُوْزَعُوْنَ۝۱۹

جس دن اللہ تعالیٰ کے دشمن (کافر ومشرک) دوزخ کی طرف موقف حساب میں لائے جائیں گے توان کے اگلوں کوپچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائیگا۔

حَتّٰٓي اِذَا مَا جَاۗءُوْہَا شَہِدَ عَلَيْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۰

یہاں تک کہ جب وہ اس تک پہنچ جائیں گے توان کے کان اور ان کی آنکھیں اوران کی کھالیں (ان کے خلاف) ان کی بداعمالیوں کی شہادت دیں گے۔

وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَيْنَا۝۰ۭ

اور وہ اپنے جسم کی کھالوں واعضا سے کہیں گے، تم نے (ہمارے خلاف) کیوں گواہی دی

قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِيْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ

توان کے اعضاء جواب دیں گے اسی اللہ نے ہم کوبولنے کی طاقت دی جس نے ہر چیز کوبولنا سکھایا

وَّہُوَخَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۱

اسی نے تم کوپہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اوراب تم کواسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ

اور تم (اپنی بداعمالیوں کو) اپنے آپ سے چھپا نہ سکتے تھے ،

اَنْ يَّشْہَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ

کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اورتمہاری کھالیں تمہارے خلاف گواہی دیں۔

وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللہَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۲

لیکن تم سمجھ رہے تھے کہ تمہارے بہت سے اعمال کی خبر اللہ تعالیٰ کونہیں ہوتی۔

وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ

اور تمہارا یہی گمان جو تم اپنے پروردگار کے بارے میں رکھتے تھے تمہیں ہلاک کردیا۔

فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۲۳

پھر تم (اسی کی بدولت) خسارہ پانے والوں میں سے ہوگئے۔

فَاِنْ يَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّہُمْ۝۰ۚ

لہٰذا اگر وہ (اس حال میں) صبر کریں ( یا نہ کریں) ان کا ٹھکانہ تودوزخ ہے

وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا ہُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ۝۲۴

اور اگر وہ توبہ ومعذرت چاہیں گے توان کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔

وَقَيَّضْنَا لَہُمْ قُرَنَاۗءَ

اور ہم نے ان کیلئے (انتقاماً برے) ہم نشیں مقرر کردیئے تھے (یعنی شیاطین)

فَزَيَّنُوْا لَہُمْ مَّا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ

جو انھیں ان کے اگلے اورپچھلے اعمال کوانکی نظروں میں اچھا کر دکھاتے تھے (اس طرح سے کہ تمہارا ماضی بھی شان دار تھا اور مستقبل بھی درخشاں ہے)

وَحَقَّ عَلَيْہِمُ الْقَوْلُ فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ۝۰ۚ

اور بالآخر ان امتوں پرعذاب واقع ہوکر رہا، جو ان سے پہلے تھے۔ انسانوں میں سے بھی اورجناتوں میں سے بھی،

اِنَّہُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ۝۲۵ۧ

بے شک وہ بڑے نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگئے۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اورکافروں نے کہا۔

لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ

اس قرآن کونہ سنا کرو۔

وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۝۲۶

اورجب سنایا جائے تو شور وغل مچاؤ (کہ کوئی بات سنائی ہی نہ دے، لغو اور باطل بکو، اعتراضات کرو، تالیاں بجاؤ) شاید کہ تم اپنی تدبیرمیں غالب آجاؤ۔

فَلَنُذِيْقَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِيْدًا۝۰ۙ

پھر ہم بھی ضرور ان کافروں کوسخت ترین عذاب کے مزے چکھائیں گے۔

وَّلَنَجْزِيَنَّہُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۲۷

اورہم انھیں ان کی بدترین برائیوں کا جو وہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ دیں گے۔

ذٰلِكَ جَزَاۗءُ اَعْدَاۗءِ اللہِ النَّارُ۝۰ۚ

یہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کا بدلہ آتش جہنم ہے۔

لَہُمْ فِيْہَا دَارُ الْخُلْدِ۝۰ۭ

ان کیلئے اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے (وہی ان کا ٹھکانہ اور ان کا گھر ہے)

جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ۝۲۸

یہ اسی کی سزا ہے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے ۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَيْنِ اَضَلّٰنَا

اور کافر کہنے لگیں گے، اے ہمارے رب ہمیں ان لوگوں کودکھائیے، جنہوں نے ہم کوگمراہ کیا۔

مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ

جو جناتوں میں سے بھی تھے اورانسانوں میں سے بھی

نَجْعَلْہُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ۝۲۹

تا کہ ہم انھیں اپنے قدموں تلے روند ڈالیں تا کہ خوب وہ ذلیل وخوار ہوں۔

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ

جن لوگوں نے (یہ حقیقت تسلیم کرلی اور تہ دل سے ) کہا کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہمارے پروردگار ہیں (ہمارے خالق مالک معبود ومستعان ہیں)

ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا

پھر وہ اپنے اس اقرارپرثابت قدم رہے

تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ

توفرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں

اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا

(اوران سے کہتے ہیں) نہ گھبراؤ اور نہ حزن وملال میں مبتلا رہو (یعنی حق پرستی کی وجہ مخالفین کی طرف سے جو کچھ اذیتیں تمہیں پہنچ رہی ہیں یا عالم

برزخ وآخرت میں جو کچھ پیش آنے والا ہے، اس کا خوف نہ کھاؤ۔)

وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰

اور خوشیاں مناؤ جنت کے اس وعدہ پر جو تم سے کیا گیا ہے۔

نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ

ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اورآخرت میں بھی تمہارے رفیق ہیں۔

وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَشْتَہِيْٓ اَنْفُسُكُمْ

اورتمہارے لئے اس (جنت) میں ہر وہ شئے ہوگی جو تم چاہو گے۔

وَلَكُمْ فِيْہَا مَا تَدَّعُوْنَ۝۳۱ۭ

اور جس چیز کا تم مطالبہ کروگے وہ تمہارے لئے مہیا ہوگی ۔

نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۝۳۲ۧ

بے حساب بخشنے والے رحم کرنے والےکی طرف سے (جنت میں تمہاری اس طرح) مہمانی ہوگی۔

توضیح : فرشتے نزع کے عالم میں استقبال کے لئے یا دشمنان حق کی طرف سے پہنچنے والی سخت ترین اذیتوں پر محسوس یا غیر محسوس طریقہ سے تسلی دینے کے لئے یا دین حق کی سربلندی کے لئے جانیں لڑا دینے کے موقعوں پر ہمت بندھوانے کے لئے اہل ایمان کے ساتھ لگے رہتے ہیں اور دوسری طرف اہل باطل کے ساتھ شیاطین واشرارہوتے ہیں۔ ان کے باطل اعمال کوان کی نظروں میں اچھا کردکھاتے ہیں۔ برائیوں پرانھیں ابھارتے ہیں۔ دین حق کونیچا دکھانا، دین حق پرثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ظلم وستم روا رکھنا ان کی زندگی کا مقصد اولین ہوتا ہے۔
یہ دنیا میں بھی خسارہ میں رہے اور آخرت میں بھی

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ

اور اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو (لوگوں کو) اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے۔

توضیح : اس حقیقت سے روشناس کرائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی مقرب سے مقرب بندہ کوبھی اپنا شریک کار نہیں بنایا ہے۔ وہی بلا شرکت غیرے بندوں کے کارساز حاجت روا اور مشکل کشا ہیں۔

وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۳۳

اور نیک عمل کرتا رہے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں۔

توضیح : شدید ترین مخالفت کے ماحول میں بھی جہاں اسلام کا اعلان واظہار مصیبتوں کودعوت دینا ہوتا ہے۔ ڈٹ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں۔ یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا۔ آج بھی نتائج سے بے نیاز ہوکر دین اسلام کی صحیح صحیح دعوت دینا۔ اللہ کی مخلوق کواللہ کی طرف بلانا بہت بڑی نیکی ہے، جہاد اکبر ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان آیت ۵۲) یعنی قرآنی ہتھیار سے آراستہ ہوکر مخالفین اسلام سے مقابلہ کیجئے۔

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ

اور(سن لو) نیکی وبدی یکساں نہیں ہوتی( ہرایک کا اثر جدا گانہ ہے)

اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ

(اگر تم سے کوئی برا سلوک کرے یا سخت کلامی سے پیش آئے تو) اس کوخوش اخلاقی سے درگزر کرو۔ تمہارے اس اخلاق کا فائدہ یہ ہوگا کہ۔

فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝۳۴

پھر وہ شخص جس سے تمہارے اور اسکے درمیان دشمنی پیدا ہوگئی تھی (تمہاری اس خوش اخلاقی سے) گویا کہ وہ تمہارا گہرا دوست ہوجائیگا۔

وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا۝۰ۚ

اوریہ شرافت اورخوبی انھیں کونصیب ہوتی ہے جو(لوگوں کی بداخلاقیوں اذیت رسانیوں کو) صبر وسکون سے برداشت کرلیتے ہیں۔

وَمَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۝۳۵

اوریہ انھیں کونصیب ہوتی ہے جوبڑے ہی نصیب والے ہوتے ہیں۔

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ

اور اگر (ایسے وقت ) آپ کو شیطان کی طرف سے کچھ وسوسے پیدا ہوجائیں (کوئی نا مناسب اشتعال پیدا ہوجائے)

فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝۰ۭ

توآپ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کیجئے۔

اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۳۶

بے شک وہی دعاؤں کا سننے والا اورحالات کا جاننے والا ہے۔

توضیح : اس مقام کی ایک بہترین تفسیر امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہؓ سے نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبیﷺ کی موجودگی میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کوبے تحاشا گالیاں دینے لگا حضرت ابوبکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبیﷺ انھیں دیکھ کرمسکراتے رہے آخر کار جناب صدیق کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضور پر شدید انقباض طاری ہوا۔ چہرہ کا رنگ بدلنے لگا۔ اور آپ فوراً اٹھ کرتشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اٹھ کرآپؐ کے پیچھے ہوئے اورراستہ میں عرض کیا۔ یہ کیا ماجرا ہے۔ وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اورآپ خاموش مسکراتے رہے، مگر جب میں نے اسے جواب دیا توآپؐ ناراض ہوگئے۔ فرمایا: جب تک تم خاموش رہے ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا مگر جب تم بول اٹھے توفرشتہ کی جگہ شیطان آگیا۔ میں شیطان کے ساتھ تونہیں بیٹھ سکتا۔

وَمِنْ اٰيٰتِہِ الَّيْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۝۰ۭ

اوراس کی (قدرت وتوحید کی ان گنت) نشانیوں میں سے رات اور دن شمس و قمر بھی ہیں۔

لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ

تم لوگ نہ سورج کوسجدہ کرواورنہ چاند کو(تمہارے نفع ونقصان کا تعلق ان سے نہیں ہے)

وَاسْجُدُوْا لِلہِ الَّذِيْ خَلَقَہُنَّ

اوراللہ تعالیٰ ہی کے آگے جھکو جس نے ان (چاند سورج) کوپیدا کیا۔

اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۝۳۷

اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ ہی کے عبادت گزار بندے بن کر رہنا چاہتے ہو۔

فَاِنِ اسْـتَكْبَرُوْا

پھر اگر یہ لوگ سرکشی کریں(اپنی ہی بات پراڑے رہیں آپ کی بات ماننے میں اپنی ذلت سمجھیں توہمیں ان کی پرواہ نہیں)

فَالَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا يَسْـَٔــمُوْنَ۝۳۸ ۞

پس جوفرشتے تمہارے پروردگار کے پاس ہیں وہ رات دن اسی کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اوروہ کبھی تھکتے بھی نہیں۔

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَۃً

اوراللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آپ زمین کوخشک دبی دبائی حالت مردنی میں دیکھتے ہیں

فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ۝۰ۭ

پھر جب ہم اس پرپانی برساتے ہیں تووہ ابھرتی اورپھولنے لگتی ہے اورنباتات کے ساتھ تروتازہ ہوجاتی ہے

اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاہَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى۝۰ۭ

توجس نے اس (زمین) کوزندگی بخشی وہی مردوں کوزندہ کرنے والا ہے۔

اِنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۳۹

بے شک وہ ہرچیز پرقادر ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا

جولوگ ہماری آیتوں میں کج روی اختیار کرتے ہیں۔

توضیح : یعنی صاف اورسیدھی سادھی بات کوبدل کرغلط مطلب نکالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا غیر اللہ کوبھی شریک خدائی قراردیتے ہیں۔

لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا۝۰ۭ

وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں(ہماری سزا سے بچ نہیں سکتے )

اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِي النَّارِ خَيْرٌ

(ذرا غور توکرو) کیا وہ شخص بہترہے جو دوزخ میں ڈالا جائے

اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْٓ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ۝۰ۙ

یا وہ شخص جوقیامت کے دن امن وامان کے ساتھ آئے تم جوچاہو کئے جاؤ،

اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝۴۰

بے شک وہ جانتا ہے۔ جوکچھ تم کرتے ہو۔

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاۗءَہُمْ۝۰ۚ

ان لوگوں نے قرآن کونہ مانا جب کہ وہ ان کے پاس آیا۔

وَاِنَّہٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ۝۴۱ۙ

حالانکہ وہ بڑی ہی اہم عظیم المرتبت کتاب ہے۔

لَّا يَاْتِيْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ

جس میں کوئی باطل اورجھوٹی بات کسی دورمیں بھی (قیامت تک کے لئے) داخل نہیں ہوسکتی۔

تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ۝۴۲

یہ کتاب ایک بڑے ہی دانشورستودہ صفات کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔

مَا يُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۭ

ائے نبیﷺ آپ سے وہی (دل آزار) باتیں کہی جاتی ہیں جو آپ سے پہلے اورپیغمبروں سے کہی گئی تھیں (آپؐ کوصبر وسکون سے کام لینا چاہئے)

اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ وَّذُوْ عِقَابٍ اَلِيْمٍ۝۴۳

بے شک آپ کا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا اور (ساتھ ہی ساتھ) بڑی درد ناک سزا بھی دینے والا ہے۔

وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُہٗ۝۰ۭؔ

اوراگر ہم اس قرآن کوعجمی زبان میں نازل کرتے تویہ لوگ(اعتراض کے طورپر) کہتے کہ کیوں نہ اس کی آیتیں واضح طور پر (ہماری زبان میں) کہی گئیں۔

ءَ اَعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ۝۰ۭ

(کیا خوب) یہ قرآن توعجمی اور مخاطب عربی

قُلْ ہُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہُدًى وَّشِفَاۗءٌ۝۰ۭ

کہئیے یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لئے رہنما اور شفا ہے۔

توضیح : اس قرآن کے ذریعہ امراض کفروشرک بدعت وفسق تمام بدعقیدگیاں دورہوتی ہیں اوراس میں اہل ایمان کے لئے ہدایتیں اوراللہ کی رحمتیں ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ۔ ( سورہ یونس آیت ۵۷)

وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ

اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے( یہ قرآن) ان کے کانوں میں ثقل ہے (یعنی ایک طرح کا بہرہ پن جوحق بات کے سننے سے مانع ہو)

وَّہُوَعَلَيْہِمْ عَمًى۝۰ۭ

اور وہ ان کے حق میں موجب نابینائی ہے ان کے لئے اس میں کوئی بصیرت کا سامان نہیں ہے۔

اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍؚ بَعِيْدٍ۝۴۴ۧ

یہ وہ لوگ ہیں گویا کہ انھیں دورجگہ سے آواز دی جارہی ہے(یعنی آواز توکان میں آرہی ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہا جارہا ہے)

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْہِ۝۰ۭ

ہم نے موسیٰؑ کوکتاب دی تھی جس میں اختلاف پیدا کیا گیا۔

وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ

ائے نبیﷺ اگر پہلے ہی سے تمہارے پروردگار کی یہ بات طے شدہ نہ ہوتی (کہ اختلافات کا آخری فیصلہ قیامت کے روز کیا جائے گا)

لَقُضِيَ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ وَاِنَّہُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ مُرِيْبٍ۝۴۵

توان کافیصلہ کردیا جاتا۔ اور وہ اس کی طرف سے سخت اضطراب وشک میں پڑے ہوئے ہیں۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِہٖ

جس نے (ایمان کے ساتھ) صالح زندگی بسر کی تواس کا فائدہ اسی کے لئے ہے۔

وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْہَا۝۰ۭ

اور جس نے سیاہ کارانہ زندگی بسر کی اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔

وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ۝۴۶

اورآپ کا پروردگار اپنے بندوں کے حق میں ظلم کرنے والا نہیں ( کہ ایک نیک انسان کی نیکی ضائع کردے اور بدی کرنے والوں کوبدی کا بدلہ نہ دے۔

اِلَيْہِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَۃِ۝۰ۭ

قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا علم صرف اللہ ہی کو ہے

وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرٰتٍ مِّنْ اَكْمَامِہَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ۝۰ۭ

اورشگوفوں سے جو پھل نکلتے ہیں ان کو بھی وہی جانتا ہے اورجومادائیں حاملہ ہوتی ہیں اور جو جنتی ہیں ان سب کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔

توضیح : پھلوں کا شگوفوں سے نکلنا، ماداؤں کا حاملہ ہونا اور جنم دینا ان ساری جزئیات کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔

وَيَوْمَ يُنَادِيْہِمْ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيْ۝۰ۙ

اورجس دن اللہ تعالیٰ ان (مشرکین) کوآواز دیں گے (اور ان سے پوچھاجائے گا) کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تم نے میرا شریک بنا رکھا تھا۔

قَالُوْٓا اٰذَنّٰكَ ۝۰ۙ مَا مِنَّا مِنْ شَہِيْدٍ۝۴۷ۚ

وہ کہیں گے آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے۔

جو کچھ ہم سمجھ رہے تھے وہ سب غلط ثابت ہوا اب ہم میں سے کوئی اس عقیدہ کا قائل نہیں رہا۔

وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَدْعُوْنَ مِنْ قَبْلُ

اور اس وقت وہ سارے معبودانِ باطل ان کے ذہنوں سے نکل جائیں گے جنہیں یہ اس سے پہلے(مدد کے لئے) پکارتے تھے۔

وَظَنُّوْا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ۝۴۸

اور وہ سمجھ لیں گے اب ان کے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے۔

لَا يَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَاۗءِ الْخَيْرِ۝۰ۡ

انسان بھلائی کی دعائیں مانگنے سے نہیں تھکتا۔

انسان کا دل دنیا کے مال ومتاع اور اس کی طلب وحرص سے نہیں بھرتا۔

وَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَيَــــُٔـــوْسٌ قَنُوْطٌ۝۴۹

اور اگر اس کوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو(اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے) ناامید ہوجاتا ہے۔

وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْہُ لَيَقُوْلَنَّ

اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں توکہتا ہے میں تواسی کا مستحق تھا۔

ھٰذَا لِيْ۝۰ۙ

یہ سب کچھ مجھے اپنی کوششوں اورصلاحیتوں سے ملا ہے۔

وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَاۗىِٕمَۃً۝۰ۙ

اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آئے گی بھی (یعنی میں اس کے واقع ہونے کا قائل نہیں ہوں)

وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْٓ اِنَّ لِيْ عِنْدَہٗ لَــلْحُسْنٰى۝۰ۚ

اور اگر (قیامت سچ مچ واقع ہوبھی جائے) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا جاؤں تومیرے لئے اس کے ہاں بھی خوش حالی ہے (میں ہرطرح مزے میں ہوں)

فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا۝۰ۡوَلَــنُذِيْقَنَّہُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ۝۵۰

تو کافروں کوہم بتاکر رہیں گے کہ وہ کیا کرکے آئے ہیں اور ہم انھیں سخت ترین عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ۝۰ۚ

اور جب ہم انسان کونعمت عطا کرتے ہیں تو وہ ہماری اطاعت وبندگی سے منہ موڑتا ہے اورتکبر کے ساتھ ناشکری کرتا ہے

وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَاۗءٍ عَرِيْضٍ۝۵۱

اورجب اس کوتکلیف پہنچتی ہے تولمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللہِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِہٖ

(ائے نبیﷺ) ان سے کہئے کیا تم نے کبھی اس بات پرغور بھی کیا ہے کہ یہ قرآن (جس کا تم انکار کرتے ہو) اگر ثابت ہوجائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے

مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَفِيْ شِقَاقٍؚبَعِيْدٍ۝۵۲

تو، اس سے بڑھ کرگمراہ کون ہوسکتا ہے جو حق کی مخالفت میں دورتک نکل گیا ہو۔

سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ

ہم عنقریب ان کواپنی نشانیاں اطراف عالم میں دکھائیں گے اورخود ان کے نفس میں بھی

حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ

یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائیگی کہ یہ قرآن واقعی اللہ تعالیٰ کا کلام ہے

اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّہٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۝۵۳

توکیا آپ کے رب کی یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہرچیز کا شاہد ہے (ہرچیز سے باخبر ہے)

اَلَآ اِنَّہُمْ فِيْ مِرْيَۃٍ مِّنْ لِّقَاۗءِ رَبِّہِمْ۝۰ۭ

آگاہ رہو ! یہ لوگ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر کئے جانے کے تعلق سے شک میں پڑے ہوئے ہیں

اَلَآ اِنَّہٗ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطٌ۝۵۴ۧ

اچھی طرح سن لو کہ وہ ہر چیز کواحاطہ کئے ہوئے ہے(کوئی چیز اللہ کے احاطۂ علم وقدرت سے باہر نہیں ہے)