☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

طٰہٰ۝۱ۚ

یہ حروف مقطعات ہیں ان کے کوئی معنی بہ سند صحیح رسول اللہﷺ سے منقول نہیں ہیں۔

مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي۝۲ۙ

(ائے نبیﷺ) ہم نے قرآن کواس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔

اِلَّا تَذْكِرَۃً لِّمَنْ يَّخْشٰى۝۳ۙ

بلکہ یہ ایک نصیحت نامہ ہے اس کیلئے جو(نقصان آخرت سے) ڈرتا ہے۔

تَنْزِيْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰى۝۴ۭ

یہ قرآن اس ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس نے زمین اور آسمان پیدا کیے۔

اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى۝۵

رحمٰن ہی عرش بریں پرمستوی ہے (استویٰ کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں)

توضیح : تخلیق کائنات کے ساتھ ہی استویٰ علی العرش فرما کر اس باطل وغلط عقیدہ کی تردید کردی گئی جس کے تحت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے بعد نظم کائنات یا اس کے بعض شعبوں کواپنے خاص بندوں کے تفویض کردیا ہے یا یہ خاص بندے نظم کائنات کے چلانے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رائے مشورہ میں شریک رہتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے پاس سعی وسفارش سے اپنے عقید تمندوں کے کام بناتے اور فیض پہنچاتے ہیں وغیرہ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے زمین تک کے ہر کام کا انتظام فرماتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ (السجدہ ۵) اور اہل باطل کوان کے مسلمات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پوچھا گیا۔ وَمَنْ یُدَبِّرُ الامر ان سے پوچھئے کائنات کے کاموں کا کون انتظام کرتا ہے۔فَسَيَقُولُونَ اللّهُ (یونس۴۲) تووہ کہیں گے اللہ تعالیٰ ۔

لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰى۝۶

اسی کا ہے جوکچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور جو زمین وآسمان کے درمیان ہے اور وہ بھی جو زمین کے نیچے ہے ۔

وَاِنْ تَجْــہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي۝۷

اگر آپ آواز سے کہیں یا آہستہ اللہ تعالیٰ چھپے ہوئے راز اور پوشیدہ سے پوشیدہ باتوں کوجانتے ہیں۔

اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ

اللہ تعالیٰ ہی الہ واحد (معبود ومستعان) ہیں (تنہا بلا شرکت غیرے کائنات کے ذرہ ذرہ کے خالق حاجت روا مشکل کشا، فریاد رس اور فرمانروا ہیں )

لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۸

اسمائے حسنیٰ (تمام اچھے نام) اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں۔
(کائنات کا سنوارو بگاڑ ان ہی ناموں کے تحت ہے)

وَہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى۝۹ۘ

کیاآپ کوموسیٰؑ (کے احوال) کی کچھ خبر ہے ؟

اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَہْلِہِ امْكُـثُوْٓا

دوران سفر جب انہوں نے آگ دیکھی تواپنے گھر والوں سے کہا

اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا

میں نے آگ دیکھی ہے۔

لَّعَلِّيْٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْہَا بِقَبَسٍ

شاید کہ میں اس میں تمہارے پاس آگ لے آؤں

اَوْ اَجِدُ عَلَي النَّارِ ہُدًى۝۱۰

یا مجھے وہاں راستے کا پتہ مل جائے۔

فَلَمَّآ اَتٰىہَا نُوْدِيَ يٰمُوْسٰى۝۱۱ۭ

پھرجب موسیٰؑ وہاں پہنچے تو انھیں آواز دی گئی اے موسیٰؑ !

اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۝۰ۚ

میں ہی تمہارا پروردگار ہوں لہٰذا اپنی جوتیاں اتار دو

اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۲ۭ

بلاشبہ تم اس وقت ایک پاک میدان طویٰ میں ہیں۔

وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى۝۱۳

اورمیں نے تمہیں (نبوت کے لئے) منتخب کیا ہے لہٰذا جو وحی کی جاتی ہے غور سے سنو؎

اِنَّنِيْٓ اَنَا اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا

یقیناً میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود ومستعان نہیں

فَاعْبُدْنِيْ۝۰ۙ وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِكْرِيْ۝۱۴

لہٰذا میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔

اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِيَۃٌ اَكَادُ اُخْفِيْہَا

اوریقیناً قیامت آکر رہے گی، میں چاہتا ہوں کہ اس کے آنے کے وقت کو چھپائے رکھوں۔

لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا تَسْعٰي۝۱۵

تا کہ ہرشخص کواس کی کوشش کا بدلہ دیا جائے۔

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْہَا مَنْ لَّا يُؤْمِنُ بِہَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرْدٰى۝۱۶

پس ایسا شخص تمہیں محاسبہ اعمال کی فکر سے غافل نہ کردے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اورجواپنی ہوس کی پیروی کرتا ہے ورنہ تم ہلاکت میں پڑجاؤگے۔

وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى۝۱۷

ائےموسیٰؑ آپ کے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟

قَالَ ہِىَ عَصَايَ۝۰ۚ اَتَـوَكَّؤُا عَلَيْہَا

کہا یہ میرا عصا ہے میں اس پر سہارا لیتا ہوں

وَاَہُشُّ بِہَا عَلٰي غَنَمِيْ وَلِيَ فِيْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى۝۱۸

اوراس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اوراس میں میرے لیے اوربھی بہت سے فائدے ہیں۔

قَالَ اَلْقِہَا يٰمُوْسٰى۝۱۹

فرمایا ائے موسیٰؑ اسے زمین پرڈال دو،

فَاَلْقٰىہَا فَاِذَا ہِىَ حَيَّۃٌ تَسْعٰي۝۲۰

پس موسیٰؑ نے اپنے عصا کوزمین پرڈال دیا۔ پھر وہ اسی وقت سانپ بن کر لہرانے لگا۔

قَالَ خُذْہَا وَلَا تَخَفْ۝۰۪

فرمایا اس کوپکڑلو اورمت ڈرو۔

سَنُعِيْدُہَا سِيْرَتَہَا الْاُوْلٰى۝۲۱

ہم اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹادیں گے۔

وَاضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ

اوراپنا ہاتھ اپنے بازو (بغل) میں دبالو

تَخْرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ

وہ کسی بیماری وعیب کے بغیر سفید چمکتا دمکتا نکلے گا

اٰيَۃً اُخْرٰى۝۲۲ۙ

یہ معجزہ دوسری نشانی ہے۔

لِنُرِيَكَ مِنْ اٰيٰتِنَا الْكُبْرٰى۝۲۳ۚ

تا کہ ہم تمہیں اپنی قدرت کی بڑی نشانیاں دکھائیں۔

اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰي۝۲۴ۧ

آپ ان معجزات کے ساتھ فرعون کے پاس جائیے یقیناً وہ بڑا ہی سرکش ہوگیا ہے۔

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ۝۲۵ۙ

موسیٰؑ نے عرض کیا ائے میرے پروردگار (اس تبلیغی) کام کے لیے میرا سینہ کھول دیجئے۔

وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ۝۲۶ۙ

اور اس فرض کی ادائی میرے لیے آسان فرمادیجئے۔

وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِيْ۝۲۷ۙ يَفْقَـــہُوْا قَوْلِيْ۝۲۸۠

اورمیری زبان کی گرہ کھول دیجئے( لکنت دورکیجئے) تا کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَہْلِيْ۝۲۹ۙ ہٰرُوْنَ اَخِي۝۳۰ۙ

اورمیرے گھروالوں میں سے میرے بھائی ہارونؑ کومیرا معاون بنادیجئے۔

اشْدُدْ بِہٖٓ اَزْرِيْ۝۳۱ۙ

ان کے ذریعہ میری قوت بازو میں اضافہ کیجئے۔

وَاَشْرِكْہُ فِيْٓ اَمْرِيْ۝۳۲ۙ

اورانھیں میرے( تبلیغی )کام میں میرا شریک بنادیجئے۔

كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا۝۳۳ۙ

تا کہ ہم کثرت سے آپ کی تسبیح کرتے رہیں۔

وَّنَذْكُرَكَ كَثِيْرًا۝۳۴ۭ

اورہم کثرت سے آپ کویاد کرتے رہیں

اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيْرًا۝۳۵

بے شک آپ ہمارے ہرحال کودیکھ رہے ہیں

قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى۝۳۶

فرمایا، موسیٰؑؑ تمہاری دعا قبول کرلی گئی۔

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّۃً اُخْرٰٓى۝۳۷ۙ

اوراس سے پہلے بھی ہم تم پرایک بڑا احسان کرچکے ہیں۔

اِذْ اَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّكَ مَا يُوْحٰٓي۝۳۸ۙ

جب کہ ہم نے تمہاری ماں کی طرف ایک ضروری بات الہام کی تھی۔

اَنِ اقْذِفِيْہِ فِي التَّابُوْتِ

یہ کہ تمہیں صندوق میں رکھے۔

فَاقْذِ فِيْہِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِہِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ

پھر اس صندوق کودریا میں ڈال دے تودریا اسے کنارے پر ڈال دے گا۔

يَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّيْ وَعَدُوٌّ لَّہٗ۝۰ۭ

اس کومیرا اوراس کا دشمن اٹھالے گا۔

وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّۃً مِّنِّيْ۝۰ۥۚ

اور (ائے موسیٰؑ) میں نے اپنی طرف سے لوگوں کے دلوں میں تمہاری محبت ڈال دی۔

وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ۝۳۹ۘ

تاکہ تم میری نگرانی میں پرورش پاؤ۔

اِذْ تَمْشِيْٓ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي مَنْ يَّكْفُلُہٗ۝۰ۭ فَرَجَعْنٰكَ اِلٰٓى اُمِّكَ

اس موقع پر (ائے موسیٰؑ) تمہاری بہن وہاں پہنچ گئیں اورکہا کیا میں تمہیں ایسے گھرانے کا پتہ دوں جواس بچہ کی اچھی طرح پرورش کرے اس طرح ہم نے تمہیں تمہاری ماں کی گود میں پہنچادیا۔

كَيْ تَقَرَّ عَيْنُہَا وَلَا تَحْزَنَ۝۰ۥۭ

تا کہ ان کی آنکھیں (تمہیں دیکھ کر) ٹھنڈی رہیں اورتمہاری جدائی کا انھیں غم نہ ہو۔

وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا۝۰ۥۣ

اور تم نے (فرعون کی قوم کے) ایک آدمی کومارڈالا توہم نے تم کورنج وکرب میں گرفتار ہونے سے بچالیا اورہم نے تمہاری کئی بار آزمائش کی۔

فَلَبِثْتَ سِنِيْنَ فِيْٓ اَہْلِ مَدْيَنَ۝۰ۥۙ

پھر تم مدین کے لوگوں میں کئی سال رہے۔

ثُمَّ جِئْتَ عَلٰي قَدَرٍ يّٰمُوْسٰى۝۴۰

پھر تم ائے موسیٰؑ ایک خاص وقت پر (اس مقدس وادی میں) آئے ۔

وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ۝۴۱ۚ

اور میں نے تم کونبوت کے لیے منتخب کیا۔

اِذْہَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ۝۴۲ۚ

تم اور تمہارے بھائی میرے معجزات کے ساتھ جاؤ اورفرائض نبوت کی ادائی میں ذرا بھی سستی نہ کرنا۔

اِذْہَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى۝۴۳ۚۖ

تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔

فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى۝۴۴

لہٰذا اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کروشاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا اللہ کے عذاب سے ڈرجائے۔

توضیح : تبلیغ واشاعت دین میں نرمی وملائمت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق بات کی حقانیت بیان نہ کی جائے اورباطل کا ابطال نہ کیا جائے بلکہ اندازِ بیان یہہونا چاہئے کہ اس سے لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ (طہ۴۴)کا مقصد پورا ہوجائے۔ یعنی ہمدردی وخیرخواہی کے انداز میں ہو۔
اللہ ورسولؐ کی بات عقل وفطرت کی روشنی میں ابدی نفع ونقصان ہی کی نشاندہی کرتے ہوئے پیش کی جائے جس میں افراط وتفریط نہ ہو۔ اس سلسلہ میں ایک ہدایت یہ بھی ہے۔ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل:۱۳۵) کہ ائے نبیﷺ اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کوحکمت اورعمدہ نصیحت کے ساتھ بلاتے رہئے اوران سے مباحثہ بھی احسن طریقہ سے کیجئے یعنی مخاطب کی شخصیت اورموقع محل کوبھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ حق کو حق اورباطل کو باطل کہنا شدت نہیں بلکہ عین حکمت ہے اورانبیائی طریقہ ہے۔

قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ يَّفْرُطَ عَلَيْنَآ اَوْ اَنْ يَّطْغٰي۝۴۵

ان دونوں نے کہا ائے ہمارے رب ہمیں اندیشہ ہے کہ فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کر بیٹھے یا اور زیادہ سرکش ہوجائے۔

قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى۝۴۶

فرمایا گھبراؤ مت میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا اوردیکھتا ہوں ۔

فَاْتِيٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ

پس تم دونوں اسکے پاس جاؤ اور کہو ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں۔

فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝۰ۥۙ

لہٰذا بنی اسرائیل کوہمارے ساتھ بھیج دے۔

وَلَا تُعَذِّبْہُمْ۝۰ۭ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ

اوران پر ظلم وزیادتی نہ کریقیناً ہم تیرے پروردگار کی طرف سے معجزات لے کرآئے ہیں۔

وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰى۝۴۷

اور امن وسلامتی اسی کیلئے ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے۔

اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰي مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝۴۸

بلاشبہ ہماری طرف وحی آئی ہے کہ اللہ کا عذاب اس شخص پر آئے گا جواللہ تعالیٰ کی تعلیمات کوجھٹلائے اوراس سے روگردانی کرے۔

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى۝۴۹

فرعون نے کہا ائے موسیٰؑ تم دونوں کا رب کون ہے ؟

قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰى۝۵۰

کہا ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر شئی کوایک مناسبت کے ساتھ پیدا کیا، پھر اس کی رہنمائی کی۔

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى۝۵۱

فرعون نے کہا (اچھا یہ توبتاؤ) پہلے جولوگ گزرچکے ہیں ان کا کیا حال ہے ؟

قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّيْ فِيْ كِتٰبٍ۝۰ۚ

موسیٰؑ نے کہا اس کا علم میرے رب کوہے، لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔

لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى۝۵۲ۡ

میرا رب نہ غلطی کرتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔

الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَہْدًا

جس نے تمہارے لیے زمین کوفرش بنایا۔

وَّسَلَكَ لَكُمْ فِيْہَا سُـبُلًا وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۭ

اورتمہارے چلنے پھرنے کے لیے اس میں راستے بنائے اورآسمان سے پانی برسایا۔

فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى۝۵۳

پھر اس پانی کے ذریعہ ہم نے مختلف قسم کی پیداوار اگائی۔

كُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ۝۰ۭ

خود کھاؤ اوراپنے جانوروں کے بھی چارے کا انتظام کرو۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّہٰى۝۵۴ۧ

بلاشبہ ان واقعات میں عقل سے کام لینے والوں کیلئے ( اللہ کے الٰہ واحد، معبود ومستعان، تنہا حاجت روا کارساز ہونے کی) کس قدر نشانیاں ہیں۔

مِنْہَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْہَا نُعِيْدُكُمْ

ہم نے تم کواسی مٹی سے پیدا کیا اوراسی میں تم کوموت کے بعد واپس لے جائیں گے۔

وَمِنْہَا نُخْرِجُكُمْ تَارَۃً اُخْرٰى۝۵۵

اوراسی سے ہم تم کودوبارہ نکالیں گے۔

وَلَقَدْ اَرَيْنٰہُ اٰيٰتِنَا كُلَّہَا فَكَذَّبَ وَاَبٰى۝۵۶

اورہم نے اس کواپنی وہ سب نشانیاں دکھلائیں (جوقبولیت حق کے لیے کافی تھیں) پھر وہ انھیں جھٹلایا اورانکار ہی کرتا رہا۔

قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى۝۵۷

کہا ائے موسیٰؑ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کوہمارے ملک سے نکال باہر کردیں۔

فَلَنَاْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِہٖ

پس ہم بھی تمہارے مقابلہ میں ایسا ہی جادولائیں گے۔

فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَكَانًا سُوًى۝۵۸

لہٰذا آپ ہمارے اوراپنے درمیان کوئی وقت مقرر کیجئے جس کے خلاف نہ ہم کریں اورنہ تم کرنا ، اور یہ مقابلہ ایک ہموار میدان میں ہوگا۔

قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَۃِ

موسیٰؑ نے کہا یہ مقابلہ تمہارے جشن کے دن ہوگا۔

وَاَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًي۝۵۹

اور لوگ چاشت کے وقت جمع ہوجائیں۔

فَتَوَلّٰى فِرْعَوْنُ فَـجَمَعَ كَيْدَہٗ ثُمَّ اَتٰى۝۶۰

اس کے بعد فرعون دربار سے اٹھ گیا اورجادوگروں کوجمع کرنے کا انتظام کیا پھر وقت پر سب کولے کرمیدان میں آگیا۔

قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰى وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَي اللہِ كَذِبًا

موسیٰؑ نے جادوگروں سے کہا ہلاکت ہو تمہاری اللہ کے بارے میں جھوٹی باتیں نہ بناؤ۔

فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ۝۰ۚ

پھر اللہ تعالیٰ تمہیں نیست ونابود کردیں گےعذاب سے

وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰى۝۶۱

اورجواللہ تعالیٰ پرجھوٹی باتیں افترا کرتا ہے یقیناً وہ تباہ ہو۔

فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰى۝۶۲

لہٰذا (موسیٰؑ کی باتیں سن کر) جادوگر باہم جھگڑنے لگے (یعنی اختلاف رائے ہوا) اورانہوں نے خفیہ مشورے کیے۔

قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰىنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيْدٰنِ اَنْ يُّخْرِجٰكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِہِمَا

(مشورہ کے بعد جادوگروں نے کہا) یہ دونوں جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تم سب کوتمہارے ملک سے نکال باہر کردیں۔

وَيَذْہَبَا بِطَرِيْقَتِكُمُ الْمُثْلٰى۝۶۳

اور تمہاری مثالی زندگی کے تمام طورطریق بدل دیں (جس میں عقائد واعمال بھی داخل ہیں)

فَاَجْمِعُوْا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا۝۰ۚ

پھر تم اپنی تدبیروں کواکٹھا کرلوپھر صف بستہ ہوکر مقابلہ کے لیے آؤ،

وَقَدْ اَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰى۝۶۴

اور جو آج غالب ہوا وہی کامیاب رہا۔

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِمَّآ اَنْ تُلْقِيَ وَاِمَّآ اَنْ نَّكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰي۝۶۵

(مقابلہ سے پہلے جادوگروں نے کہا) ائے موسیٰؑؑ جادوگری کی ابتدا تم کروگے؟ یا ہم کریں ؟

قَالَ بَلْ اَلْقُوْا۝۰ۚ

موسیٰؑ نے کہا تم ہی پہل کرو۔

فَاِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِيُّہُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّہَا تَسْعٰي۝۶۶

پس ان کی رسیاں اورلاٹھیاں ان کی نظربندی کی وجہ موسیٰؑ کے خیال میں دوڑتی ہوئی نظرآئیں۔

فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِہٖ خِيْفَۃً مُّوْسٰى۝۶۷

توموسیٰؑ اپنے دل میں گھبراگئے۔

قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى۝۶۸

ہم نے کہا گھبراؤ مت یقیناً تم ہی غالب رہوگے۔

وَاَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا۝۰ۭ

اورجو(عصا) تمہارے سیدھے ہاتھ میں ہے اس کو(زمین پر) ڈال دو جو کچھ انہوں نے جادو کا کھیل کھیلا ہے وہ انھیں نگل جائے گا۔

اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ۝۰ۭ

جو کچھ انہوں نے بنایا جادوگری کا کھیل تھا۔

وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى۝۶۹

اور جادوگرجہاں بھی جائیں(معجزہ کے مقابلہ میں) کامیاب نہیں ہوتے۔

فَاُلْقِيَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوْنَ وَمُوْسٰى۝۷۰

پس (معجزہ دیکھتے ہی) جادوگرسجدے میں گر پڑے، کہا ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کے رب پرایمان لائے۔

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ۝۰ۭ

(یہ حال دیکھ کر) فرعون نے جادوگروں سے کہا قبل اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں تم اس پرایمان لائے ہو۔

اِنَّہٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ۝۰ۚ

یقیناً وہ بڑا ہی ماہر استاد ہے جس نے تم کوجادو سکھایا۔

فَلَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ

(ایمان لانے کے نتیجہ میں) تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوادوں گا۔

وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ فِيْ جُذُوْعِ النَّخْلِ۝۰ۡ

اور تم کوکھجور کے درختوں پرسولی چڑھوا دوں گا۔

وَلَتَعْلَمُنَّ اَيُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰي۝۷۱

اورتمہیں معلوم ہوجائیگا کس کا عذاب سخت اورباقی رہنے والا ہے۔(میرا یا موسیٰؑکے خدا کا)

قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَكَ عَلٰي مَا جَاۗءَنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالَّذِيْ فَطَرَنَا

جادوگروں نے کہا اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں جس نے ہم کوپیدا کیا اوران حقائق کی موجودگی میں جوہمارے پاس آئے (جنہیں ہم نے دیکھا) ہم تمہیں ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔

فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ۝۰ۭ

لہٰذا جوکچھ تمہیں کرنا ہے کرلو۔

اِنَّمَا تَقْضِيْ ہٰذِہِ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۷۲ۭ

تم دنیا کی حد تک جوبھی چاہیں کرسکتے ہیں۔

اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطٰيٰنَا

بلاشبہ ہم اپنے پروردگار پرایمان لا چکے تا کہ وہ ہماری خطاؤں کومعاف کرے۔

وَمَآ اَكْرَہْتَنَا عَلَيْہِ مِنَ السِّحْرِ۝۰ۭ

اور وہ گناہ بھی معاف کردے جو تم نے زبردستی ہم سے جادو کی شکل میں کروایا ہے۔

وَاللہُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي۝۷۳

اوراللہ تعالیٰ کا دیا بہتر وباقی رہنے والا ہے۔

اِنَّہٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا

جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے مجرم کی حیثیت سے آئے گا۔

فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ۝۰ۭ

اس کے لیے جہنم ہے۔

لَا يَمُوْتُ فِيْہَا وَلَا يَحْيٰي۝۷۴

جہاں نہ وہ مریگا اورنہ جئے گا (موت وحیات کی مسلسل کشمکش میں رہیگا)

وَمَنْ يَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ

اورجو اللہ تعالیٰ کے پاس مومن کی حیثیت سے آئے گا اورنیک عمل بھی کیے ہوں گے تو

فَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰي۝۷۵ۙ

یہ وہ لوگ ہیں جو( جنت میں) بڑے ہی اونچے درجہ میں ہوں گے ۔

جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ

سدا بہار باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریںبہتی ہوں گی جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا مَنْ تَزَكّٰى۝۷۶ۧ

اوریہ جزا اسی کے لیے ہے جس نے اپنا تزکیہ کیا۔

توضیح : یعنی الٰہی تعلیم کے مطابق مرتے دم تک اپنے نفس کوپاک کرنے کی کوشش میں لگا رہا اوراپنے آپ کو شرک سے بچایا۔

وَلَقَدْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى۝۰ۥۙ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ

اورہم نے موسیٰؑ کووحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کولے کر شہر سے نکل جاؤ۔

فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا۝۰ۙ

پھر ان کے لیے دریا میں اپنا عصا مار کرخشک راستہ بنا دو،

لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى۝۷۷

کسی کے تعاقب کا اندیشہ نہ کرو نہ غرق ہونے کا خوف کھاؤ۔

فَاَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِہٖ

پھر فرعون نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا تعاقب کیا

فَغَشِيَہُمْ مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَہُمْ۝۷۸ۭ

تودریائی موجوں نے انھیں پوری طرح ڈھانک لیا (سب کے سب غرق دریا کردیئے گئے)

وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہٗ وَمَا ہَدٰى۝۷۹

فرعون نے تواپنی قوم کوگمراہی میں ڈال دیا تھا ان کی صحیح رہنمائی نہ کی۔

يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ قَدْ اَنْجَيْنٰكُمْ مِّنْ عَدُوِّكُمْ

ائے بنی اسرائیل (غور توکرو) ہم نے تم کوتمہارے دشمنوں سے نجات دی۔

وَوٰعَدْنٰكُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَيْمَنَ

اور(توراۃ دینے کیلئے) ہم نے تم سےکوہ طور کی داہنی جانب آنے کا وعدہ لیا۔

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى۝۸۰

اور ہم نے تم پرمن وسلویٰ اتارا۔

كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَلَاتَطْغَوْا فِيْہِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِيْ۝۰ۚ

(اورحکم دیا) نفیس ومرغوب غذائیں جو ہم نے تم کودی ہیں کھاؤ اوراس میں حد سے نہ گزرو ورنہ تم پرمیرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔

وَمَنْ يَّحْلِلْ عَلَيْہِ غَضَبِيْ فَقَدْ ہَوٰى۝۸۱

کیونکہ جس جس پرمیرا غضب نازل ہوا وہ تباہ وبرباد ہوکر رہا۔

وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰى۝۸۲

اوریقیناً میں بڑا ہی بخشنے والا ہوں، ہر اس شخص کی بخشش کروں گا جو (شرک ونافرمانی سے ) توبہ کرے اورایمان لائے (اللہ ہی کواپنا معبود وحاجت روامان لے اور کتاب وسنت کے مطابق) نیک عمل کرے اور جس کے ایمان وعمل صالح میں استقامت ہو۔

وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى۝۸۳

(موسیٰؑ مقررہ وقت سے پہلے کوہ طور پہنچے تواللہ تعالیٰ نے فرمایا) ائے موسیٰؑ تم نے اپنی قوم سے پہلے آنے میں کیوں جلدی کی۔

قَالَ ہُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى۝۸۴

موسیٰؑ نے عرض کیا وہ میرے پیچھے ہی آرہے ہیں اورمیں نے اس لیے جلدی کی کہ میرے پروردگار آپ راضی ہوجائیں۔

قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـہُمُ السَّامِرِيُّ۝۸۵

اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰؑ آپ کے یہاں آنے کے بعد ہم نے آپ کی قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے ان کوبہکادیا۔

فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا۝۰ۥۚ

لہٰذا موسیٰؑ اپنی قوم کی طرف غم وغصہ کی حالت میں افسوس کرتے ہوئے لوٹ آئے۔

قَالَ يٰقَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَـنًا۝۰ۥۭ

کہا ائے میری قوم کے لوگو کیا تم سے تمہارے پروردگار نے (شریعت عطا کرنے کا) اچھا وعدہ نہ کیا تھا ؟

اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَہْدُ

کیا تم پرزیادہ زمانہ گزرچکا تھا۔

اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ

یا تم نے اپنے آپ پر اپنے پروردگار کا غضب نازل ہوجانا پسند کرلیا۔

فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِيْ۝۸۶

تم نے (تومجھ سے دین پر قائم رہنے کا) جووعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی۔

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا

انہوں نے جواب دیا ہم نے آپ سے جو وعدہ کیا تھا اپنے اختیار سے اس کی خلاف ورزی نہیں کی۔

وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَۃِ الْقَوْمِ

لیکن (واقعہ یہ ہے کہ) ہم قوم کے زیورات کے بوجھ سے بوجھل ہوگئے تھے۔

توضیح : فرعونیوں سے عاریتا ًزیورات مانگ لائے تھے تا کہ انھیں یقین ہوجائے کہ انھیں تقریب میں جانا ہے ورنہ فرعون انھیں شہر سے باہر جانے نہ دیتا۔

فَقَذَفْنٰہَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَي السَّامِرِيُّ۝۸۷ۙ

پھر ہم نے ان زیورات کو(سامری کے کہنے سے) آگ میں ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا۔

فَاَخْرَجَ لَہُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ

پھر سامری نے ان کے لیے بچھڑے کا ایک مجسمہ بنا کر پیش کیا، اس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی۔

فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــہُكُمْ وَاِلٰہُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِيَ۝۸۸ۭ

(اس کودیکھ کربے وقوفوں نے ایک دوسرے سے کہا) انھوں نے کہا یہ تمہارا معبود ہے اورموسیٰؑ کا بھی جس کو وہ بھول گئے ہیں۔

اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِـــعُ اِلَيْہِمْ قَوْلًا۝۰ۥۙ

کیا ان لوگوں نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ وہ بچھڑا ان کی کسی بات کا جواب تک نہیں دے سکتا۔

وَّلَا يَمْلِكُ لَہُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝۸۹ۧ

اورنہ ان کے نفع وضرر کا اختیاررکھتا ہے۔

وَلَقَدْ قَالَ لَہُمْ ہٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ

اورہارونؑ نے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا۔

يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ۝۰ۚ

ائے میری قوم اس سے تمہاری آزمائش کی گئی ہے۔

وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ

بلاشبہ تمہارا پروردگار رحمٰن ہی ہے۔

فَاتَّبِعُوْنِيْ وَاَطِيْعُوْٓا اَمْرِيْ۝۹۰

لہٰذا تم میری اتباع کرواور میرے امر کی اطاعت کرو۔

قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْہِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى۝۹۱

توانہوں نے کہا جب تک موسیٰؑ ہمارے پاس نہ آئیں ہم یہاں سے نہ ٹلیں گے (برابر جمے بیٹھے رہیں گے)

قَالَ يٰہٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَہُمْ ضَلُّوْٓا۝۹۲ۙ

موسیٰؑ نے ہاورنؑ سے کہا، ائے ہارونؑ جب تم نے ان کو گمراہی کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا تومیرے پاس آکر اطلاع دینے میں تمہیں کیا چیز مانع ہوئی۔

اَلَّا تَتَّبِعَنِ۝۰ۭ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ۝۹۳

میرا حکم ماننا نہ چاہا یا میرے حکم سے سرتابی کی۔

قَالَ يَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَلَا بِرَاْسِيْ۝۰ۚ

ہارونؑ نے کہا ائے ماں جائے میری داڑھی اور سرکے بال نہ کھینچئے۔

اِنِّىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِيْ۝۹۴

میں اس اندیشہ سے کہ آپ یہ کہنے لگیں کہ میں نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈالی اورمیری بات کا کچھ پاس لحاظ نہ کیا۔

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يٰسَامِرِيُّ۝۹۵

موسیٰؑ نے سامری سے پوچھا اس واقعہ کے متعلق تیرا کیا جواب ہے ۔

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوْا بِہٖ

سامری نے کہا میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جس کو دوسروں نے نہیں دیکھا(یعنی سمجھا کہ یہ میرے لیے بڑی ہی بصیرت کی بات ہے)

فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ

کہ میں نے رسول کے نقش قدم کی ایک مٹھی بھرمٹی اٹھالی ( اس خیال سے کہ عصاء کے نیچے کی مٹی میں کچھ اثرآنا چاہئے)

فَنَبَذْتُہَا وَكَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِيْ نَفْسِيْ۝۹۶

پھر میں نے اس کو(بچھڑے کے قالب میں ڈھال)ڈال دیا اور اس طرح یہ بات میرے جی کوبھائی۔

قَالَ فَاذْہَبْ فَاِنَّ لَكَ فِي الْحَيٰوۃِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ۝۰۠

موسیٰؑ نے کہا، جا اب تیرے لیے دنیا کی زندگی میں (یہ سزا ہے کہ )تویہ کہتا پھرے گا کہ مجھے ہاتھ نہ لگانا۔

وَاِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ۝۰ۚ

تیرے لیے ایک اور وعدہ عذاب ہے جو تجھ سے ٹل نہ سکے گا

وَانْظُرْ اِلٰٓى اِلٰہِكَ الَّذِيْ ظَلْتَ عَلَيْہِ عَاكِفًا۝۰ۭ

اور اپنے اس معبود کودیکھ جس کے ساتھ توبڑی ہی عقیدتمندی سے بیٹھا رہتا تھا۔

لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِي الْيَمِّ نَسْفًا۝۹۷

ہم اس کوجلادیں گے پھر اس کوریزہ ریزہ کرکے دریا میں پھینک دینگے۔

اِنَّمَآ اِلٰــہُكُمُ اللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۭ

( پھر موسیٰؑ قوم سے مخاطب ہوئے) کہا تمہارا معبودصرف اللہ ہی ہے جس کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہیں۔

وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا۝۹۸

اللہ تعالیٰ کا علم ہرشئی پرمحیط ہے۔ (کوئی شئی اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ہے)

كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ۝۰ۚ وَقَدْ اٰتَيْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا۝۹۹ۖۚ

اسی طرح ہم آپ سے وہ واقعات بیان کرتے ہیں جوگزرچکے ہیں (ائے محمدﷺ) ہم نے آپ کواپنے پاس سے ایک نصیحت آمیز کتاب( القرآن) عطا کی۔

مَنْ اَعْرَضَ عَنْہُ فَاِنَّہٗ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وِزْرًا۝۱۰۰ۙ

جو کوئی اس کتاب سے روگردانی کرے گا وہ قیامت کے دن گناہوں کا ایک بھاری بوجھ اٹھائے گا۔

خٰلِدِيْنَ فِيْہِ۝۰ۭ وَسَاۗءَ لَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ حِمْلًا۝۱۰۱ۙ

ایسے تمام لوگ ہمیشہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے اورقیامت کے دن ان کے لیے یہ بوجھ نہایت ہی برا ہوگا۔

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا۝۱۰۲ۚۖ

جس دن صور پھونکا جائے گا اس دن ہم مجرموں کواس حال میں اکٹھا کریں گے کہ (دہشت کے مارے) ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہوں گی۔

يَّتَخَافَتُوْنَ بَيْنَہُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا۝۱۰۳

وہ آپس میں نہایت ہی آہستہ کہیں گے تم اورہم دنیا میں دس دن سے زیادہ نہیں رہے ہوں گے۔

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَقُوْلُوْنَ اِذْ يَقُوْلُ اَمْثَلُہُمْ طَرِيْقَۃً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا يَوْمًا۝۱۰۴ۧ

جس موت کے بارے میں وہ گفتگو کریں گے ہم جانتے ہیں اس وقت ان ہی سے میں ایک جوذرا سمجھدار ہوگا کہے گا کہ تم دنیا میں ایک ہی دن رہے ہو۔

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ

اور لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ قیامت کے دن ان کا کیا حال ہوگا)

فَقُلْ يَنْسِفُہَا رَبِّيْ نَسْفًا۝۱۰۵ۙ

پس کہئے میرا پروردگار ان پہاڑوں کوگرد کی طرح اڑادے گا۔

فَيَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۝۱۰۶ۙ

پھر زمین ایک صاف ہموار میدان سی کردی جائے گی۔

لَّا تَرٰى فِيْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا۝۱۰۷ۭ

جس میں تم کسی قسم کی ناہمواری اونچ نیچ نہ دیکھوگے۔

يَوْمَىِٕذٍ يَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَہٗ۝۰ۚ

اس دن لوگ ایک پکارنے والے کی آواز پر دوڑ پڑیں گے جس کی آواز میں کوئی ٹیڑھاپن نہ ہوگا صاف طورپرمعلوم ہوگا کہ کس سمت سے آرہی ہے۔

وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ

اللہ رحمٰن کی ہیبت سے آوازیں پست ہوں گی (کسی کے منہ سے آواز نہ نکل سکے گی)

فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ہَمْسًا۝۱۰۸

تم اس وقت ایک ہلکی سی آہٹ کے سوا کچھ سن نہ سکوگے۔

يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ

اس دن کسی کی سفارش فائدہ نہ دے گی۔

اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَہٗ قَوْلًا۝۱۰۹

سوائے اس کے کہ جس کو اللہ نے سفارش کرنے کی اجازت دی ہو اور جس کے لیے اللہ سفارش سننا پسند کریں۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا۝۱۱۰

اللہ ان کے اگلے اورپچھلے تمام احوال جانتے ہیں اللہ کے علم کی وسعت کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔

وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ۝۰ۭ

اور (قیامت کے دن) کتنے ہی چہرے اللہ الحی القیوم کے آگے ذلت وخواری کے ساتھ جھکے ہوں گے۔

وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا۝۱۱۱

اوریقیناً وہ شخص نامراد ہوگا جو(شرک کا) بارگراں لے کر حاضر ہوگا۔

توضیح : ظلم کے معنی حق تلفی کے ہیں۔ حق تلفی چاہے خالق کی ہو یا مخلوق کی۔ خالق کی حق تلفی یہ ہے کہ مصیبت اور مشکل میں حاجت وضرورت میں اللہ کے سوا یا اللہ کے ساتھ فرشتوں، انبیا علیہم السلام، بزرگان دین، جنات اور غائب افراد کومدد کے لیے پکارے۔ ان کی نیازو نذر کرے، اللہ کے سوا ان سے منت مراد مانگے، انھیں مشکل کشا وفریاد رس جانے۔ یہی سب سے بڑا ظلم اورخالق کی حق تلفی ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے ۔إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان ۵:) کہ بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ خالق کی حق تلفی سنگین جرم ہے کہ معاف نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔ إِنَّ اللّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ (النساء :۱۱۶) کہ اللہ اس شخص کومعاف نہیں کرتے جواللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے ہاں اس کے سوا دوسرے اور گناہ جن کوچاہے معاف کرتے ہیں، ایک دوسری آیت إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ(مائدہ : ۷۲)کہ جوکوئی اللہ کے ساتھ کسی کوشریک قراردے گا۔ اللہ نے اس پرجنت حرام قرار دی ہے اوراس کا ٹھکانہ آگ ہے۔

وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَمُؤْمِنٌ

اورجوکوئی نیک کام کرے گا یعنی اللہ ورسول کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے کی کوشش میں لگا رہے گا اوروہ مومن بھی ہوگا یعنی جس کا ایمان شرک کے اجزاء سے پاک ہوگا۔

فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا۝۱۱۲

تواس کو کسی قسم کی زیادتی یا کمی کا اندیشہ نہ ہوگا۔

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا

اور اس طرح ہم نے قرآن کوبزبان عربی نازل کیا ہے۔

وَّصَرَّفْنَا فِيْہِ مِنَ الْوَعِيْدِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ

اوربار بار مختلف انداز سے اپنی وعیدیں (نافرمانی کا انجام جہنم کی تفصیلات) بیان کی ہیں تا کہ وہ نافرمانی سے بچیں۔پرہیز گار بنیں۔

اَوْ يُحْدِثُ لَہُمْ ذِكْرًا۝۱۱۳

یا خدا(یہ قرآنی تعلیم) ان کے لیے سمجھ بوجھ پیدا کرے (نصیحت کا ذریعہ بنے)

فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۝۰ۚ

پس اللہ تعالیٰ نہایت ہی اعلیٰ قدر بلا شرکت غیرے حقیقی فرمانروا ہیں۔

وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُہٗ۝۰ۡ

اور جو وحی آپ کی طرف کی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے پڑھنے میں جلدی نہ کیجئے۔

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا۝۱۱۴

اورآپ اس طرح دعا کیجئے ائے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرمادیجئے۔

وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ

اور اس سے قبل ہم نے آدمؑ سے ایک عہد لیا تھا (وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ )کہ اس درخت کے قریب بھی نہ جانا( البقرہ :۲۵)

فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۝۱۱۵ۧ

پھر وہ اس کوبھول گئے اور ہم نے ان کے اندر عزم وثبات نہ پایا( یعنی انہوں نے حکم الٰہی کومستحضر نہیں رکھا)

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ

(یہ واقعہ اس وقت کا ہے) جب کہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدمؑ کوسجدہ کریں۔

فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝۰ۭ اَبٰى۝۱۱۶

ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔

فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ

لہٰذا ہم نے آدمؑ سے کہا یہ (شیطان) تمہارا اورتمہاری بیوی کا دشمن ہے (اس کے فریب میں نہ آنا)

فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰي۝۱۱۷

کہیں وہ تم دونوں کوجنت سے نہ نکلوادے پھر تم مصیبت میں پڑجاؤگے (وہ وقت تمہارے لیے بڑا ہی کٹھن ہوگا)

اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْہَا وَلَا تَعْرٰى۝۱۱۸ۙ

یہاں (جنت میں) تم نہ کبھی بھوکے رہوگے اورنہ ننگے رہو گے (کھانے پینے کے لیے تم کویہاں کوئی تگ ودو دوڑ دھوپ کرنی نہ پڑے گی)

وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْہَا وَلَا تَضْحٰي۝۱۱۹

اورتم یہاں نہ پیاسے رہوگے اورنہ دھوپ میں تپوگے ۔

فَوَسْوَسَ اِلَيْہِ الشَّيْطٰنُ

پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ پیدا کیا۔

قَالَ يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ

شیطان نے کہا ائے آدمؑ کیا میں تم کوایک ایسے درخت کی نشاندہی نہ کروں (جس کے ثمرہ کا یہ اثر ہے کہ) ہمیشگی کی زندگی کا( نصیب ہوگی)

وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۝۱۲۰

اورایسی سلطنت جسے کبھی زوال نہ آئے گا۔

فَاَكَلَا مِنْہَا

پس (شیطان کے بہکاوے میں آکر) دونوں نے اس درخت کا پھل کھالیا۔

فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا

توان دونوں کے سترایک دوسرے پر کھل گئے۔

وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْہِمَا مِنْ

وہ دونوں (شرم وحیا کے مارے) اپنے ستر درخت کے پتوں سے

وَّرَقِ الْجَنَّۃِ۝۰ۡ

ڈھانکنے لگے۔

توضیح : شرم وحیا انسان کی فطرت میں ہے اوریہ آبائی ورثہ ہے لباس کے تعلق سے جولوگ شرعی حدود توڑتے ہیں وہ آدمؑ کی اولاد کہلانے کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ تنگ وچست یا باریک لباس، لباس کے حکم میں نہیں ہے جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ یعنی جوکپڑا پہننے کے باوجود ننگی ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے۔

وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰى۝۱۲۱۠ۖ

آدمؑ سے (سہواً) اپنے رب کے احکام کی خلاف ورزی ہوگئی پس وہ غلطی میں پڑگئے۔

ثُمَّ اجْتَبٰىہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَيْہِ وَہَدٰى۝۱۲۲

پھر (آدمؑ نے معذرت چاہی) ان کے رب نے ان کے حال پر توجہ فرمائی انھیں برگزیدہ کیا اور راہ راست پر رکھا۔

قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں شیطان سمیت سب کے سب یہاں (جنت) سے نیچے(زمین پر) اترجاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو

فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ ہُدًى۝۰ۥۙ

لہٰذا تمہاری رہنمائی کے لیے میری طرف سے ہدایت آتی رہے گی

فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي۝۱۲۳

پھر جوکوئی میری ہدایت کے مطابق زندگی بسر کرے گا تو وہ گمراہی میں نہ پڑے گا اورنہ شقی وبدبخت ہوگا۔

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ

اور جو کوئی بھیجی ہوئی تعلیمات (قرآن) سے منہ موڑے گا ۔

فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا

سامان زندگی کی فراوانی کے باوجود ہمیشہ معاشی اضطراب و جان کنی کی زندگی میں مبتلا رہے گا۔

وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴

اور قیامت کے دن ہم اس کواندھا اٹھائیں گے۔

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۝۱۲۵

تب وہ کہے گا ائے میرے پروردگار مجھے اندھا کیوں اٹھایا گیا میں تودنیا میں آنکھوں والا تھا۔

قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھے ایسی ہی سزادینی چاہئے تھی ہماری آیتیں (ہمارے احکام) تجھ تک پہنچ چکے تو تونے انھیں بھلادیا۔

وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶

اور اسی طرح آج تیرا بھی لحاظ نہ کیا جائے گا۔

وَكَذٰلِكَ نَجْزِيْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْۢ بِاٰيٰتِ رَبِّہٖ۝۰ۭ

اور ہم ہر ایسے شخص کوجو حدود الٰہی سے گزرتا ہے احکام الٰہی کوخاطر میں نہیں لاتا ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔

وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَاَبْقٰي۝۱۲۷

اورآخرت کا عذاب بڑا ہی سخت اورباقی رہنے والا ہے۔

اَفَلَمْ يَہْدِ لَہُمْ كَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ

کیا یہ بات ان کے لیے موجب ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو(ان کی نافرمانی کی وجہ سے) تباہ وبرباد کیا۔

يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِہِمْ۝۰ۭ

وہ ان کی ویران بستیوں میں چلتے پھرتے ہیں۔

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّہٰى۝۱۲۸ۧ

عقل وبصیرت سے کام لینے والوں کے لئے اس میں کتنی عبرتیں ونصیحتیں ہیں۔

وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ

اوراگر اللہ تعالیٰ کی یہ بات پہلے سے طے شدہ نہ ہوتی۔

لَكَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّى۝۱۲۹ۭ

اور جزائے اعمال کے لیے ایک وقت مقرر نہ ہوتاتو (ان کے غلط اعمال کی پاداش میں) فوراً ہی ان کی ہلاکت لازم آتی۔

فَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَــقُوْلُوْنَ

(ائے نبیﷺ) یہ لوگ جو کچھ الٹی پلٹی فریب آمیز باتیں کہتے ہیں ان پرصبر کیجئے۔

وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا۝۰ۚ

اوراپنے رب کی تسبیح (بہ شکل نماز) کیجئے، آفتاب طلوع ہونے سے پہلے (نماز فجر) اوراس کے غروب ہونے سے پہلے (نماز ظہروعصر مراد ہے)

وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ فَسَبِّــحْ وَاَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى۝۱۳۰

اور رات کی اولین ساعتوں میں اور دن کے اوقات میں بھی (پنجگانہ نماز کی پابندی کیجئے اس طرح عبادت سے یہ مقصود ہے کہ) آپؐ (نعمت دین ورحمت الٰہی) راضی وخوش ہوجائیں ( اور لوگوں کی اذیت رسانیوں سے جوکدورت پیدا ہوتی ہے دور ہوجائے)

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۥۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۝۰ۭ وَرِزْقُ

اورآپ ان چیزوں کی طرف نظر بھی اٹھا کرنہ دیکھئے جنہیں ہم نے کفار کے مختلف گروہوں کوبرتنے کے لیے دنیا کی چند روزہ زندگی میں دے رکھا ہے تا کہ ہم ان کی اس میں آزمائش کریں اور آپ کے رب کی عطا

رَبِّكَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي۝۱۳۱

بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔

وَاْمُرْ اَہْلَكَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْہَا۝۰ۭ

اور آپ اپنے گھر والوں کونماز کی تاکید کیجئے خود بھی اس پر پابند رہئے (کیونکہ پابندی کے بغیر ہدایت اوروعظ ونصیحت غیر موثر ہے)

لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ۝۰ۭ

ہم آپ سے (ان کے) رزق کے بارے میں نہیں پوچھیں گے ہم ہی تم کورزق دیتے ہیں۔

وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰى۝۱۳۲

اورآخرت کا بہترین انجام پرہیزگاری پرمنحصر ہے۔

وَقَالُوْا لَوْلَا يَاْتِيْنَا بِاٰيَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۭ

پیغام الٰہی (لاالہ الا اللہ اور اس کے حق ہونے کے دلائل سننے کے بعد) کہا ہمارے پاس ان کے رب کے ہاں سے کوئی معجزہ کیوں نہیں آتا (جس کے جواب میں فرمایا گیا)

اَوَلَمْ تَاْتِہِمْ بَيِّنَۃُ مَا فِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝۱۳۳

کیا ان کے پاس سابقہ کتب کے کھلے اورصاف صاف مضامین نہیں پہنچے (دعوت حق قبول کرنے کی بجائے دعوت دینے والوں سے معجزات کا مطالبہ کیا گیا۔ جب انھیں مطلوبہ معجزات دیئے گئے تواس کوجادو کہہ کر حق کوقبول کرنے سے انکار کردیا)

وَلَوْ اَنَّآ اَہْلَكْنٰہُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ

پیغمبرؐ کومبعوث کرنے سے پہلے اگر ہم ان کوکسی عذاب سے ہلاک کرتے۔

لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا

تووہ کہتے ائے ہمارے رب آپ نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا۔

فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى۝۱۳۴

کہ ہم ذلیل ورسوا ہونے سے پہلے آپ کے احکام کے مطابق عمل پیرا ہوتے۔

قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا۝۰ۚ

کہہ دیجئے (حق وباطل کی کشمکش کا) ہر ایک کوانتظار ہے پس تم بھی نتائج کا انتظار کرو۔

فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اہْتَدٰى۝۱۳۵ۧ

پھر تم جلدی ہی جان لوگے کہ سیدھے راستے پر چلنے والے کون ہیں ؟ اور کون ہدایت پر ہیں ؟