☰ Surah
☰ Parah

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔

تمہید: جب کسی قوم کوبیدار کیا جاتا ہے توتعلیم وتربیت پندونصیحت کے ساتھ گزشتہ قوموں کی تاریخ بھی سامنے رکھی جاتی ہے تاکہ لوگ گزشتہ قوموں کے حالات سے عبرت اورسبق حاصل کریں۔ اس لیے اس سورۃ اورآئندہ سورتوں میں پندونصیحت کے ساتھ انبیاء علیہم السلام اوران کی قوموں کے حالات بھی بیان فرمائے ہیں۔

الۗرٰ۝۰ۣ

یہ حروف مقطعات ہیں ان کے کوئی معنی رسول اللہ ﷺ سے بہ سند صحیح منقول نہیں ہیں۔

تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ۝۱
اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَــبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ

یہ دانائی سکھانے والی کتاب کی آیتیں ہیں کیا لوگوں کویہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے انھیں میں کے ایک آدمی کی طرف وحی بھیجی؟

اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا

کہ وہ لوگوں کوآخرت کے ابدی انجام سے ڈرائے اورایمان والوں کو(جنت اوردرجات ِجنت کی) خوشخبری سنائے۔

اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭؔ

ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں۔

قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ۝۲

کافروں نے کہا یہ شخص توکھلا جادوگر ہے۔

توضیح : یہ کافر’’جن ‘‘باتوں کوانہونی سمجھتے تھے یعنی مرنے کے بعد حساب وکتاب کے لیے دوبارہ اٹھایا جانا وغیرہ۔ مگرجب یہی باتیں پیغمبرؐ کی زبان معجز بیان سے سنتے توان باتوں کے واقع ہونے کا ایک نقشہ کی ان کی آنکھوں کے سامنے پھرجاتا اس لیے انہوں نے اس کوجادو سمجھا۔ اوررسول اللہﷺ کوجادو گرکہہ دیا۔

اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّۃِ اَيَّامٍ

ائے لوگو بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اورزمین کوچھ دن میں پیدا کیا۔

ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ

پھرشاہی تخت پرجلوگر ہوا(زمین وآسمان میں احکام جاری کرنے لگا) وہ ہرکام کی مناسب تدبیر کرتا ہے۔

مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِہٖ۝۰ۭ

اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے۔

توضیح : اذن الٰہی کے بعد سفارش کا امکان ہے بغیر اذن الٰہی ممکن نہیں اس کے برخلاف مشرکین کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مقرب بندوں کی رائے وسفارش کے بعد فرمان جاری کرتے ہیں۔

ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ

یہ ہے اس اللہ کی شان جوتمہارا رب ہے۔ لہٰذا (بلاشرکت غیرے) اسی کی عبادت کرو

اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۳

کیا تم اب بھی نصیحت قبول نہ کروگے؟
( اوراسی غلط عقیدے پرقائم رہوگے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کی رائے وسفارش سے احکام جاری کرتے ہیں)

اِلَيْہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ وَعْدَ اللہِ حَقًّا۝۰ۭ

تم سب کواسی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف واپس جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہے جوپورا ہوکررہے گا۔

اِنَّہٗ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ

بیشک اسی نے پیدائش کی ابتداء کی پھر وہ دوبارہ بھی(قیامت میں) پیدا کرے گا۔

لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ۝۰ۭ

تا کہ ایمان لانے اورنیک عمل کرنے والوں کوانصاف کے ساتھ پوری پوری جزادے۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌۢ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ۝۴

اورجن لوگوں نے اس حقیقت کونہ مانا۔ ان کے اس انکار کی سزا میں ان کے لیے کھولتا ہوا پانی اوردرد ناک عذاب ہے۔

ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا

وہی توہے جس نے آفتاب کوروشن اورچاند کونورانی بنایا۔

وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ۝۰ۭ

اوران کے لیے منزلیں مقررکیں تا کہ تم برسوں(مہینوں دنوں) کی تعداد معلوم کرو اوروقت کا حساب بھی۔

مَا خَلَقَ اللہُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ۝۰ۚ

اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بے فائدہ نہیں پیدا کیں بلکہ اس کا ایک یقینی مقصد ہے۔

يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝۵

سمجھنے والوں کے لیے تفصیلی نشانیاں ہیں۔ (جوانسانوں کے لیے آخرت کی طرف رہنمائی کرنے اور اللہ تعالیٰ کوالہ واحد معبودومستعان ماننے کے لیے کافی ہیں)

اِنَّ فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللہُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَّقُوْنَ۝۶

(یہی نہیں) بلکہ رات دن کے اختلاف میں اورجوکچھ آسمانوں اورزمین میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ان سب میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں(تاکہ اللہ تعالیٰ ہی کوالہ واحد معبود ومستعان مانیں اورمغفرت وجنت کے مستحق بنیں)

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا

جن لوگوں کوہم سے ملنے کی توقع نہیں(یعنی محاسبۂ اعمال کے لیے ہمارے سامنے لائے جانے کا یقین نہیں) اوروہ دنیا ہی کی زندگی سے راضی وخوش ہیں اوراسی دنیا پرمطمئن ہوبیٹھے ہیں۔

وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۝۷ۙ

اورجوہماری آیتوں سے غافل ہیں(یعنی ہمارے مقرر کردہ انجام سے بے خبر ہیں)

اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۸

یہ وہ لوگ ہیں جن کا آخر ٹھکانہ (دوزخ) ہے کیونکہ یہی کچھ ان لوگوں نے اپنے عمل سے کمایا ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ

بے شک جوایمان لائے(یعنی جنہوں نے یہ حقیقت تسلیم کرلی کہ اللہ تعالیٰ ہی الہ واحد معبود مستعان ہیں) اورنیک کام کرتے رہے۔

يَہْدِيْہِمْ رَبُّھُمْ بِـاِيْمَانِہِمْ۝۰ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝۹

ان کے ایمان کی وجہ ان کا پروردگار انھیں جنت نعیم کی راہ دکھائے گا جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی (جس کا نہایت ہی خوشنما منظرہوگا)

دَعْوٰىھُمْ فِيْہَا سُبْحٰنَكَ اللّٰہُمَّ

جس میں وہ (بے ساختہ) سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ کہیں گے
( حدیث ابوکعب میں مرفوعا آیا ہے کہ جب وہ سبحان اللہ کہیں گے توجو چیز جنت کی چاہیں گے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آجائے گی)

وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْہَا سَلٰمٌ۝۰ۚ

اوراس (جنت) میں ان کیلئے دعائیہ کلمہ ’’السلام علیکم‘‘ ہوگا ( اللہ تعالیٰ اور فرشتے ان پر سلام بھیجتے ہونگے ’سَلَامٌ قَوْلًا مِّن الرَّبِّ الرَّحِیْم‘ پروردگار مہربان کی طرف سے سلام بھیجا جائیے گا (یٰسٓ ع)

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (سورۃ النحل:۳۲) ایسے مسلمان جنکا ایمان شرک کی ملاوٹ سے پاک ہوتا ہے، جب ان کی جانیں فرشتے نکالنے لگتے ہیں توانھیں السلام علیکم کہتے ہیں اورکہیں گے جو عمل تم کیا کرتے تھے اس کے بدلے بہشت میں داخل ہوجاؤ۔ گویا سلام کے ذریعہ انھیں جنت کی مبارکبادی جاتی رہے گی۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۰ۧ

اوران کا آخری قول اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن ہوگا۔
یعنی ساری تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جوتمام جہانوں کا بلا شرکت غیرے حاجت رواوکارساز ہرقسم کے نقص وخامی سے پاک ہے۔

توضیح : جنت اورجنت کی نعمتوں کے سبب قلب ودماغ جذبۂ شکر سے معمور ہوں گے اوران کی زبان پربے ساختہ شکر کے کلمات ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ جاری ہوجائیں گے۔

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَيْرِ

اوراگراللہ تعالیٰ لوگوں کوضررپہنچانے میں ایسی ہی جلدی کرتے جیسے بھلائی پہنچانے میں جلدی کرتے ہیں۔

لَقُضِيَ اِلَيْہِمْ اَجَلُھُمْ۝۰ۭ

تووہ کب کے تباہ کردیئے گئے ہوتے۔

فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِيْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَہُوْنَ۝۱۱

لہٰذا جولوگ اس بات کا یقین نہیں کرتے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے (اور انھیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تواللہ تعالیٰ انھیں اسی سرکشی میں سرگرداں رہنے کیلئے چھوڑدیتے ہیں۔

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا۝۰ۚ

انسان جب کسی سخت مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے توکھڑے بیٹھے یا لیٹے ہرحال میں ہم ہی کومدد کے لیے پکارنے لگتا ہے

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّہٗ۝۰ۭ

پھرجب ہم اس سے اس کی مصیبت دورکردیتے ہیں توایسا بےپروا ہوجاتا ہے گویا کہ وہ اپنی تکلیف دورکرنے کے لیے ہم کوپکارا ہی نہ تھا۔

كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۲

اس طرح حد سے گزرجانے والوں کوان کے اعمال ان کی نظرمیں خوشنما بنادیئے جاتے ہیں۔

وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا۝۰ۙ

اورتم سے پہلے کئی ایک امتوں کوجب وہ ظلم پراترآئے (شرک کے مرتکب ہوئے) تو ہم نے انھیں ہلاک کردیا۔

وَجَاۗءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا۝۰ۭ

حالانکہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ آئے تھے۔ اوروہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے۔

كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ۝۱۳

ہم مجرمین کوایسی ہی سزادیتے ہیں۔

ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ۝۱۴

پھر ہم نے ان کی ہلاکت کے بعد تم کوملک میں خلیفہ بنادیا تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو۔

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ۝۰ۙ

اورجب ان کوہمارے احکام پڑھ کرسنائے جاتے ہیں

قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۝۰ۭ

تووہ لوگ جنہیں (محاسبۂ اعمال کے لیے) ہمارے روبرو حاضرکیے جانے کا یقین نہیں۔ کہتے ہیں۔ اس قرآن کے سواکوئی اورقرآن لے آؤ(جس میں ہمارے بتوں کی مذمت نہ ہو) یا اس کے بعض اجزاء کوبدل دو۔

قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗيِ نَفْسِيْ۝۰ۚ

آپ کہہ دیجئے مجھ سے یہ ہونہیں سکتا کہ میں اپنی طرف سے اس میں تغیروترمیم کرسکوں۔

اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۝۰ۚ

میں ان احکام کی اتباع کرتا ہوں جومیری طرف وحی کیے جاتے ہیں۔

اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۱۵

اگرمیں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تومجھے ایک بڑے (ہولناک) دن کے عذاب کا ڈرہے۔

قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِہٖ۝۰ۡۖ

کہئے اگراللہ تعالیٰ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں یہ قرآن تمہیں سناؤں تومیں کبھی نہ سناسکتا اورنہ تم کواس کی خبر دے سکتا۔

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُـرًا مِّنْ قَبْلِہٖ۝۰ۭ

(تم جانتے ہوکہ) اس سے پہلے میں اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ تم میں گزارچکا ہوں( مگرایسی کوئی بات میں نے تم سے نہیں کہی)

اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۱۶

کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے اتنی بات سمجھ نہیںسکتے

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۝۰ۭ

پھر اس سے بڑھ کرظالم کون ہوگا جوایک جھوٹی بات گھڑ کراللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرے۔ یا اس کی آیتوں کوجھٹلادے۔

اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۱۷

یقیناً مجرم فلاح نہیں پاسکتے۔

وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ

اوریہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی پرستش کرتے ہیں جوان کونہ نفع پہنچاسکتے اورنہ نقصان۔

وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ

اورکہتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔

قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللہَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

ائے نبی محمدﷺ ان سے کہیے۔ کیا تم ان اللہ تعالیٰ کوایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں (جس کا وجود نہ آسمانوں میں ہے اور زمین میں )

توضیح :پھر تم اللہ تعالیٰ کو کن سفارشیوں کی خبردیتے ہو؟ نضربن حارث کہنے لگا۔ لات ا ورعزیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں گے، اس وقت یہ آیت اتری۔
نوٹ:۔ موجودہ زمانہ کے بعض پیرپرست، قبرپرست مسلمان اپنے بزرگوں کی نسبت اسی قسم کا اعتقاد رکھتے ہیں، جوشرک ہے۔

سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝۱۸

وہ پاک وبرترہے، اس شرک سے جویہ کرتے ہیں۔

وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا۝۰ۭ

ابتداء تمام انسان ایک ہی دین کے پیروتھے پھر(دین الٰہی کوبھول کر) اختلاف کیا (مختلف ادیان میں بٹ گئے)

وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ

اوراگر آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی اختلاف کے فیصلہ کی بات طے کرلی نہ گئی ہوتی۔

لَقُضِيَ بَيْنَھُمْ فِيْمَا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝۱۹

تووہ جن باتوں میں اختلاف کرتے ہیں، کب کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا۔تووہ جن باتوں میں اختلاف کرتے ہیں، کب کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا۔

وَيَقُوْلُوْنَ لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۚ

اورکہتے ہیں کہ اس نبی پر(نبوت کی) کوئی نشانی اس کے رب کی طرف سے کیوں نہیں نازل کی گئی؟

فَقُلْ اِنَّمَا الْغَيْبُ لِلہِ فَانْتَظِرُوْا۝۰ۚ اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ۝۲۰ۧ

کہئے غیب کی تمام باتیں اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں لہٰذا(انجام کا) تم بھی انتظار کرومیں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔

وَاِذَآ اَذَقْــنَا النَّاسَ رَحْمَۃً

لوگوں کوتکلیف پہنچنے کے بعد جب ہم اپنی رحمت سے

مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّكْرٌ فِيْٓ اٰيَاتِنَا۝۰ۭ

انھیں نعمتیں بخشتے ہیں (یعنی بدحالی کے بعد خوشحالی عطا کرتے ہیں) تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں مخالفانہ سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں۔

توضیح : اہل مکہ سات برس تک سخت قسم کے قحط میں مبتلا کردیئے گئے تھے۔ اپنے معبود انِ باطل سے دعائیں، نذریں، منتیں، مرادیں مانگ مانگ کرمایوس ہوچکے تھے۔ بالآخر ابوسفیان نے نبی کریمﷺ سے درخواست کی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اس بلا کوٹالنے کی دعا کیجئے۔ تب قحط دورہوا بارش ہونے لگی۔ خوش حالی کا دورآیا توپھر ان لوگوں نے سرکشی اوربداعمالیاں شروع کیں۔ دین حق کا مذاق اڑایا۔ احکام الٰہی کا انکار کیا۔

قُلِ اللہُ اَسْرَعُ مَكْرًا۝۰ۭ

ائے نبیﷺ کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ بہت جلد (تمہیں اس تکذیب واستہزا کی) سزادیں گے۔

اِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ۝۲۱

تم جوکچھ مکروفریب کررہے ہو، ہمارے فرشتے لکھتے جاتے ہیں۔

ھُوَالَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ

(اللہ) وہی تو ہے جوتم کوبحروبر(خشکی وتری) میں چلاتا پھراتا ہے۔

حَتّٰٓي اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ۝۰ۚ

یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔

وَجَرَيْنَ بِہِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا جَاۗءَتْہَا رِيْحٌ عَاصِفٌ

اوروہ کشتیاں موافق ہواؤں کے ذریعہ کشتی کے سواروں کولیے چلتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں دفعتًہ ان پرایک تیز وتند ہواؤں کا جھونکا چلتا ہے۔

وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ

اورہرطرف سے ان پر(طوفانی) موجیں اٹھی چلی آتی ہیں۔

وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِہِمْ۝۰ۙ

اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اب تو وہ (ہلاکت خیز لہروں میں) گھرگئے ہیں۔

دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۚ

وہ اس وقت بڑے ہی اخلاص وجذبہ اطاعت کے ساتھ (مدد کے لیے) اللہ تعالیٰ کوپکارتے ہیں۔

لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ۝۲۲

(اللہ تعالیٰ) اگر آپ ہم کواس مصیبت سے بچالیں توہم ضرور آپ کے شکر گزاربندے بنے رہیں گے۔

فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ

پھرجب ہم ان کواس ہلاکت سے بچالیتے ہیں تووہ اسی لمحہ حق سے منحرف ہوکرزمین پرباغبانہ روش ا ختیار کرتے ہیں( یعنی شرک ومعصیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں)

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ۝۰ۙ

ائے لوگو! یہ تمہاری سرکشی تمہارے ہی لیے وبال جان ہوگی۔

مَّتَاعَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۡثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۲۳

دنیا کی چند روزہ زندگی سے فائدہ اٹھالو۔ پھرتم محاسبہ اعمال کیلئے ہماری طرف لوٹ کرآؤگے اورہم بتادیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے تھے۔

توضیح : مقربان بارگاہ الٰہی اوربزرگان دین کومدد کیلئے پکارنے اوران کی نذرومنت ماننے کے باوجود مصیبتیں دورنہیں ہوتی ہیں توسخت سے سخت کافرومشرک بھی بزرگ ہستیوں اوران کے واسطے وسیلوں کونظرانداز کرتے ہوئے نہایت ہی عاجزی وانکساری کے ساتھ گڑگڑاتے ہوئے صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کوپکارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ان مصیبتوں کو دور کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتے ہیں أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ بتاؤ توسہی حالت اضطراری میں جب مُضْطَرَّ اللہ سے دعا کرتا ہے تواس کی دعا کون قبول کرتا ہے؟ اوراس کی مصیبت کون دورکرتا ہے؟ یہ اضطراری کیفیت قبروں اورمزاروں کے پاس طاری ہوتی ہے توقبرپرست سمجھتا ہے کہ قبروالے بزرگ نے اس کی التجائیں قبول کیں۔ اور مندروں میں جا کر دعا کرنے والا سمجھتا ہے کہ مندروالے نے اس کی منہ مانگی مراد پوری کی۔ اس طرح انکا امتحان ہوجاتا ہے۔

اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ

دنیا کی زندگی مینہ کی سی ہے جسے ہم آسمان سے برساتے ہیں۔

فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ۝۰ۭ

پھرپانی اورزمین کے اختلاط سے زمین کی روئیدگی، سبزہ، نباتات، پھل، میوہ وغیرہ جنہیں انسان اورجانورکھاتے ہیں، پیدا کیے۔

حَتّٰٓي اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّيَّنَتْ

یہاں تک کہ زمین، سبزہ اورنباتات سے پربہاروپررونق ہوجاتی ہے۔

وَظَنَّ اَہْلُہَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَيْہَآ۝۰ۙ

اوراس کے مالک سمجھ بیٹھے کہ وہ اس (تیارشدہ فصل) پرپوری طرح قادرہوچکے ہیں( دوایک روزمیں فصلیں کاٹ لیں گے وغیرہ)

اَتٰىھَآ اَمْرُنَا لَيْلًا اَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِيْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ۝۰ۭ

اچانک رات یا دن میں ہمارا حکم (عذاب) آپہنچتا ہے توہم اس کوکاٹی ہوئی کھیتی کی طرح کردیتے ہیں، گویا کہ کل تک وہاں کوئی کھیتی تھی ہی نہیں۔

كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۝۲۴

اس طرح ہم اہل فکر کے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کربیان کرتے ہیں۔

وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ۝۰ۭ

اوراللہ تعالیٰ تم کوابدی سلامتی کے گھر(جنت) کی طرف بلارہے ہیں۔
(اورتم ادبی تباہی کی طرف جارہے ہو)

وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ۝۲۵

اور وہ جس کوچاہتے ہیںسیدھا راستہ دکھاتے ہیں (یعنی جوطالب ہدایت ہوتا ہے، اس کو ہدایت دیتے، ہیں (وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ) (سورہ شوریٰ)

لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَۃٌ۝۰ۭ

جن لوگوں نے (ایمان کی حالت میں) نیکیاں کیں ان کے لیے آخرت میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں اوران میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ (دراصل نیکی اللہ تعالیٰ کوالہ واحدمعبود ومستعان ماننا اوراللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق رسول اللہﷺ کی اتباع میں زندگی گزارنا ہے)

وَلَا يَرْہَقُ وُجُوْہَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّۃٌ۝۰ۭ

اوران کے چہروں پرنہ توسیاہی چھائے گی اورنہ رسوائی۔

اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۶

وہ جنتی ہیں اوروہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

وَالَّذِيْنَ كَسَبُوا السَّيِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـيِّئَۃٍؚبِمِثْلِہَا۝۰ۙ

اورجن لوگوں نے (شرک اورکفر جیسی) برائیوں کواختیارکیا توانھیں اس کا بدل ویسا ہی براملے گا۔

وَتَرْہَقُھُمْ ذِلَّۃٌ۝۰ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ عَاصِمٍ۝۰ۚ

اوران پرذلت ورسوائی چھائی ہوگی۔ ان کواللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانہ سکے گا۔

كَاَنَّمَآ اُغْشِيَتْ وُجُوْہُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّيْلِ مُظْلِمًا۝۰ۭ

(شدت غم سے) ان کے چہرے ایسے سیاہ ہوں گے گویا کہ اندھیری رات کے سیاہ پردے ان پرڈھانک دیئے گئے ہیں

اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۷

ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا

اورجس دن ہم سب لوگوں کومحاسبہ اعمال کے لیے جمع کریں گے۔ پھرمشرکین سے کہیں گے۔

مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَاۗؤُكُمْ۝۰ۚ

تم اورتمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھیرے رہو۔
(جنہیں تم نے شریک خدائی بنارکھا تھا)

فَزَيَّلْنَا بَيْنَھُمْ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ۝۲۸

پھرہم ان کے درمیان جدائی ڈال دیں گے(یعنی ان کی عقیدتیں عداوت میں تبدیل ہوجائیں گی) اوران کے شریک ان سے کہیں گے کہ (تم جھوٹے ہو)تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے۔

فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ

لہٰذا ہمارے تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔

ہُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّآ اَسْلَفَتْ

وہاں ہرشخص جان لے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کچھ کیا تھا۔

وَرُدُّوْٓا اِلَى اللہِ مَوْلٰىھُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝۳۰ۧ

اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جوان کا حقیقی مالک ہے لوٹائے جائینگے اور انہوں نے جوکچھ افترا پردازی کی تھی وہ سب کچھ (ان کے ذہن سے) نکل جائیگی۔

وَرُدُّوْٓا اِلَى اللہِ مَوْلٰىھُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝۳۰ۧ

اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جوان کا حقیقی مالک ہے لوٹائے جائینگے اور انہوں نے جوکچھ افترا پردازی کی تھی وہ سب کچھ (ان کے ذہن سے) نکل جائیگی۔

توضیح : مقربان بارگاہ الٰہی اوربزرگان دین کومدد کیلئے پکارنے اوران کی نذرومنت ماننے کے باوجود مصیبتیں دورنہیں ہوتی ہیں توسخت سے سخت کافرومشرک بھی بزرگ ہستیوں اوران کے واسطے وسیلوں کونظرانداز کرتے ہوئے نہایت ہی عاجزی وانکساری کے ساتھ گڑگڑاتے ہوئے صرف اورصرف اللہ تعالیٰ ہی کوپکارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ان مصیبتوں کو دور کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتے ہیں أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ بتاؤ توسہی حالت اضطراری میں جب مُضْطَرَّ اللہ سے دعا کرتا ہے تواس کی دعا کون قبول کرتا ہے؟ اوراس کی مصیبت کون دورکرتا ہے؟ یہ اضطراری کیفیت قبروں اورمزاروں کے پاس طاری ہوتی ہے توقبرپرست سمجھتا ہے کہ قبروالے بزرگ نے اس کی التجائیں قبول کیں۔ اور مندروں میں جا کر دعا کرنے والا سمجھتا ہے کہ مندروالے نے اس کی منہ مانگی مراد پوری کی۔ اس طرح انکا امتحان ہوجاتا ہے۔

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ

ائے پیغمبرﷺ! ان سے پوچھئے کہ تم کوزمین وآسمان سے کون رزق دیتا ہے؟

اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ

یا تمہاری سماعت وبصارت کے پیدا کرنے پرکون قدرت رکھتا ہے؟ (کون تمہاری سماعت وبصارت کا حقیقی مالک ہے؟)

وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ

اورکون بے جان سے جاندار کوپیدا کرتا ہے؟

وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ
وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۝۰ۭ

اورکون جاندار سے بے جان کوپیدا کرتا ہے؟
اورکائنات ارضی وسماوی کا نظام کس کے حکم سے چل رہا ہے؟
(کائنات کی کارسازی وحاجت براری کون کررہا ہے)

فَسَيَقُوْلُوْنَ اللہُ۝۰ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝۳۱

بے ساختہ کہیں گے ’’اللہ‘‘ توپھر ان سے کہئے تم اس حقیقت کومان کربھی اللہ تعالیٰ سے کیوں نہیں ڈرتے؟(یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ کے مقرب بندوں کوبھی الٰہ قرراردیتے ہو؟)

فَذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ۝۰ۚ

لہٰذا یہی اللہ تمہارا پروردگار برحق ہے(جوبلاشرکت ِغیرے تمہارا حقیقی پالنہار، حاجت روا اورکارساز ہے)

فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ۝۰ۚۖ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ۝۳۲

یہی جب حق ہے تواس کے بعد جو کچھ ہے وہ گمراہی کے سوا اورکیا ہے۔ پھر تم کدھر اٹھے جارہے ہو(یعنی سیدھا راستہ چھوڑکرکفروگمراہی کی طرف جارہے ہو)

كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَي الَّذِيْنَ فَسَقُوْٓا اَنَّھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۳۳

اس طرح(ائے نبیﷺ) آپ کے رب کی یہ بات سرکش اور نافرمانوں کے حق میں پوری ہوکررہی کہ وہ ایمان نہ لائیں گے(یعنی اپنے اختیار اورعقل وفطرت کا غلط استعمال کریں گے)

قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ۝۰ۭ

ائے نبیﷺ ان سے پوچھئے کیا تمہارے (تجویز کئے ہوئے) شرکاء میں کوئی ایسا بھی ہے جوپہلی بارمخلوقات کوپیدا کرے پھر(قیامت میں) دوبارہ بھی پیدا کردے؟

قُلِ اللہُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ۝۳۴

آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہی پہلی بار پیدا کرتے ہیں۔ پھروہی دوبارہ بھی پیدا کریں گے پھرتم کدھر بھٹکائے جارہے ہو؟

قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ۝۰ۭ

(ائے نبیﷺ) ان سے پوچھئے کیا تمہارے شرکاء میں کوئی اس قابل ہے کہ راہ حق دکھائے؟

قُلِ اللہُ يَہْدِيْ لِلْحَقِّ۝۰ۭ

کہئے اللہ تعالیٰ ہی راہ حق دکھاتے ہیں۔

اَفَمَنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ

کیا وہ جوحق کا راستہ دکھائے زیادہ حق دار ہے کہ اس کی اتباع کی جائے؟

اَمَّنْ لَّا يَہِدِّيْٓ اِلَّآ اَنْ يُّہْدٰى۝۰ۚ

یا وہ کہ جب تک کوئی اسے راستہ نہ بتائے راستہ نہ پائے(کیا ایسے کواللہ تعالیٰ کے ساتھ الہ قراردیا جاسکتا ہے؟)

فَمَا لَكُمْ۝۰ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۝۳۵

توتم کوکیا ہوگیا؟ تم کیسی الٹی تجویزیں کرتے ہو؟

وَمَا يَتَّبِـــعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا۝۰ۭ

اوران میں اکثرلوگ ظن وتخمین اوربے اصل خیالات کی اتباع کرتے ہیں۔

اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ

یقیناً ظن وقیاس کی بنیاد پرکوئی شخص حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔

اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ۝۳۶

بے شک اللہ تعالیٰ خوب واقف ہیں ان اعمال سے جو وہ کرتے ہیں۔

وَمَا كَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللہِ

اوریہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی اپنی طرف سے بنالائے۔

وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۳۷ۣ

بلکہ یہ قرآن تواللہ تعالیٰ کی اس تعلیم کوپیش کرتا ہے جودنیا میں اس سے پہلے آچکی ہے اورسابقہ الٰہی تعلیم کی اس میں تفصیل ہے۔ کلام رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ جس کے منزل من اللہ ہونے میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا۔

اَمْ يَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۭ

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کواپنی طرف سے گھڑلیا ہے؟

قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۳۸

توکہئے تم اس کی مثل کوئی سورۃ بنالاؤ اورہوسکے تواللہ تعالیٰ کے سوا جن جن کواس کام میں شریک کرسکتے ہو کر دیکھو اگر تم سچے ہو (یعنی اگر تمہاری یہ بات صحیح ہے کہ انسان ایسی کتاب لکھ سکتا ہے توتم بھی انسان ہوایسی کوئی سورۃ تصنیف کرلاؤ)

بَلْ كَذَّبُوْا بِمَا لَمْ يُحِيْطُوْا بِعِلْمِہٖ

بلکہ ان لوگوں نے ایسی چیز کی تکذیب کی ہے جس کے صحیح یا غلط ہونے کو اپنے احاطہ علمی میں نہ لاسکے(یعنی قرآن سننے کے بعداس کی تعلیمات پرغور وفکر کیے بغیر جھٹلادیا)

وَلَمَّا يَاْتِہِمْ تَاْوِيْلُہٗ۝۰ۭ

اورابھی اس(قرآن) کی حقیقت ان پرکھلی ہی نہیں۔

كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ

ان سے پہلے بھی لوگوں نے اسی طرح حق بات کی تکذیب کی تھی۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۳۹

پھردیکھ لیجئے ان ظالموں کا کیا(ہی برا) انجام ہوا(اسی طرح ان کا بھی ہوگا)

وَمِنْھُمْ مَّنْ يُّؤْمِنُ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ لَّا يُؤْمِنُ بِہٖ۝۰ۭ

اوران میں بعض ایسے ہیں جو اس (قرآن) پرایمان لاتے ہیں۔ اوربعض ایسے ہیں کہ اس پرایمان نہیں لاتے۔

وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِيْنَ۝۴۰ۧ

اورآپ کا پروردگار مفسدوں کوخوب جانتا ہے۔

وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّيْ عَمَلِيْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ۝۰ۚ اَنْتُمْ بَرِيْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۴۱

اوراگریہ(ان دلائل کے بعد بھی) آپ کو جھٹلاتے رہیں تو کہہ دیجئے میرے لئے میرا عمل ہے اورتمہارے لیے تمہارا عمل(یعنی میرے عمل کا میں بدل پاؤں گا اورتمہارے عمل کا تم، تم میرے اعمال کے جواب دہ نہیں ہواورنہ میں تمہارے کیے ہوئے اعمال کا ذمہ دار ہوں۔)

وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ۝۰ۭ

اوران میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو(بظاہر) آپ کی طرف کان لگائے رکھتے ہیں(لیکن ان کامقصد بات کوسمجھنا نہیں ہوتا)

اَفَاَنْتَ تُسْمِـــعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوْا لَا يَعْقِلُوْنَ۝۴۲

توکیا آپؐ بہروں کوسنا سکتے ہیں جب کہ وہ سمجھنا ہی نہ چاہتے ہوں۔

وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّنْظُرُ اِلَيْكَ۝۰ۭ

اوران میں کوئی ایسا بھی ہے جو(بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ وہ) آپ کی طرف ہمہ تن متوجہ ہے۔

اَفَاَنْتَ تَہْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوْا لَا يُبْصِرُوْنَ۝۴۳

توکیا آپ اندھوں کوراستہ بتاسکتے ہیں؟ جب کہ وہ سمجھ بوجھ سے کام لینا ہی نہ چاہتے ہوں۔

اِنَّ اللہَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـــًٔـا وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ۝۴۴

واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پرذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے لیکن لوگ خودہی اپنے آپ پرظلم کرتے ہیں۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ۝۰ۭ

اورجس دن وہ(پرسش اعمال کیلئے) جمع کیے جائیں گے تو انھیں ایسا معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں ایک گھڑی بھر دن سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کوپہچانیں گے۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللہِ وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۝۴۵

یقیناً بڑے ہی نقصان میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کی حقیقت کوجھٹلادیا اوروہ ہدایت نہ پاسکے۔

وَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُھُمْ

اوراگر اس عذاب کا کچھ حصہ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، آپؐ کو دنیا ہی میں دکھادیں یا

اَوْ نَــتَوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ اللہُ شَہِيْدٌ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ۝۴۶

اس سے پہلے ہی آپؐ کواٹھالیں، بہرحال ان کوآخر ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے۔ پھر جوکچھ وہ کررہے تھے اللہ تعالیٰ ان کے ایک ایک عمل کی گواہی دینگے۔

وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِيَ بَيْنَھُمْ بِالْقِسْطِ

اور ہر امت کیلئے رسول بھیجا گیا۔ پھر جب انکا رسول آجاتا ہے (اور قوم دعوت حق کا انکار کرتی ہے تو) انکے درمیان منصفانہ فیصلہ کردیا جاتا ہے۔

وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۴۷

ان پرکسی طرح کا ظلم نہیں کیا جاتا(یہ اپنے کئے کی سزا پائیں گے)

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۴۸

اوروہ کہتے ہیں اگرآپؐ سچے ہیں توبتاؤ وہ وعدۂ عذاب کب آئے گا؟

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ

کہئے میں تواپنے نفع ونقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا سوائے اس کے جواللہ تعالیٰ ہی چاہے(یعنی سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت پرمنحصر ہے)

لِكُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ۝۰ۭ اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ

(ہرقوم) ہرامت کے لیے اس کی تباہی اورموت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب ان کا وقت آجاتا ہے۔

فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۝۴۹

تووہ ایک ساعت متاخر کرسکتے ہیں اورنہ(ایک ساعت) کی تقدیم کرسکتے ہیں۔

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُہٗ بَيَاتًا اَوْ نَہَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۵۰

(ائے نبیﷺ) ان سے کہئے کیا تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ اگراللہ کا عذاب تم پر(اچانک) دن یا رات میں (کسی وقت بھی) آجائے (تو اس سے بچنے کی کیا کوئی صورت بھی ہے؟ پھر پوچھنے سے کیا حاصل) پھر مجرم اس (عذاب) کی جلدی کس لیے کرتے ہیں؟

اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ

کیا پھر جب وہ عذاب واقع ہوجائے گا تب اس پرایمان لادیں گے(تمہارا اس وقت ایمان لانا مفید نہ ہوگا)

اٰۗلْــٰٔنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۝۵۱

( اس وقت کہا جائے گا) اب ایمان لاتے ہو اورتم تواس (عذاب) کے جلد آنے کی خواہش مند تھے۔

ثُمَّ قِيْلَ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ۝۰ۚ

پھرظالموں سے کہا جائے گا ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب چکھتے رہو۔

ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ۝۵۲

اب تمہیں ان ہی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جوتم دنیا میں کرتے رہے تھے۔

وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ۝۰ۭؔ قُلْ

(یہ باتیں سن کر) وہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا واقعی ایسا ہوگا۔

اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّ۝۰ۭۚؔ

کہئے ہاں ہاں قسم ہے میرے رب کی یہ بات بالکل حق ہے۔

وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۝۵۳ۧ

اورتم اس کے واقع ہونے سے اس کوروک نہیں سکتے۔

وَلَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْاَرْضِ لَافْـــتَدَتْ بِہٖ۝۰ۭ

اوراگر ہراس شخص کے پاس جس نے ظلم کیا ہے (یعنی مشرکانہ عقائد اختیارکیے ہیں) روئے زمین کی ساری دولت بھی ہوتی وہ اس کوفدیہ میں دے کرعذاب سے بچنا چاہتا۔

وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ۝۰ۚ

اورجب وہ اس عذاب کودیکھیں گے تودل ہی دل میں پچھتائیں گے۔

وَقُضِيَ بَيْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝۵۴

اوران کے درمیان منصفانہ فیصلہ کردیا جائے گا۔ اوران پر (کسی طرح ) زیادتی نہ ہوگی۔

اَلَآ اِنَّ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

خبردار! سنو جوکچھ آسمانوں اورزمین میں ہے، سب اسی اللہ کا ہے۔

اَلَآ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَھُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۵۵

اوراس بات سے بھی آگاہ ہوجاؤ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے(یعنی اللہ تعالیٰ نے عذاب کا جووعدہ کیا ہے وہ بالکل حق ہے) لیکن اکثر لوگ (ان حقائق کو) نہیں جانتے ۔

ھُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝۵۶

وہی زندگی بخشتا ہے اوروہی موت دیتا ہے اوراسی کی طرف تم سب کولوٹ کرجانا ہے۔

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ

ائے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت (بہ شکل قرآن) آچکی ہے اوروہ دل کی بیماریوں کے لیے شفاء ہے۔

وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۝۵۷

اوراہل ایمان کے لیے (یعنی اس تعلیم کوقبول کرنے والوں کے لیے) ہدایت ورحمت ہے۔

قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا۝۰ۭ

کہئے! اللہ تعالیٰ کے فضل اوراس کی اس رحمت پر(کہ قرآن نازل فرماکر) ہدایت ورحمت کا ذریعہ بنایا(خوب) خوشیاں مناؤ۔

ھُوَخَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۝۵۸

وہ(قرآن) اس دولت سے کہیں زیادہ بہتر ہے (جس کوجمع کرنے کی دھن میں لوگ لگے رہتے ہیں۔

قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ

ائے نبی (ﷺ) ان سے کہئے کیا تم نے کبھی غور بھی کیا ہے؟ کہ جو رزق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نازل کیا ہے۔

فَجَــعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا۝۰ۭ

توتم نے اس میں(اپنے طورپر) کسی کوحرام اورکسی کوحلال ٹھہرایا۔

قُلْ اٰۗللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللہِ تَفْتَرُوْنَ۝۵۹

ان سے پوچھئے کیا اللہ تعالیٰ نے تم کواس کی اجازت دی ہے یا تم اللہ تعالیٰ پرافتراء کرتے ہو۔

وَمَا ظَنُّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝۰ۭ

اورجولوگ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے ہیں قیامت کے دن کوآخر کیا سمجھے ہوئے ہیں

اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَھُمْ لَا يَشْكُرُوْنَ۝۶۰ۧ

بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پربڑے ہی مہربان ہیں لیکن اکثرلوگ شکرنہیں کرتے۔

توضیح : اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے قیامت تک کے لیے دنیا کے تمام انسانوں کی رہنمائی کے لیے پیغمبر آخرالزماں کومبعوث فرمایا۔ اوراپنی کتاب (القرآن ) نازل فرمائی لیکن لوگوں کی اکثریت نے اس نصیحت الٰہی کی ناشکری کی(رہنمائی حاصل نہ کی)

وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْہِ۝۰ۭ

اور تم جس حال میں بھی ہوتے ہواورجوکچھ قرآن میں سے پڑھتے ہواورتم کوئی عمل کرنہیں پاتے مگرہم تم پرنگران ہوتے ہیں(یعنی تمہارے اعمال ہماری نظروں میں ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو۔)

نوٹ : حدیث احسان میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروگویا کہ تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو۔ اگرچہ کہ تم اللہ تعالیٰ کودیکھ نہیں سکتے۔ مگراللہ تعالیٰ توتم کودیکھ رہے ہیں۔ جولوگ تقوی کے اس مقام پرفائز ہیں اپنے کوہر وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے سمجھتے ہیں۔

وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ

اورتمہارے پروردگار سے ذرہ برابر چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں نہ آسمان میں۔

وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۝۶۱

اورنہ کوئی چیز اس سے چھوٹی اورنہ بڑی ایسی ہے، جوکھلی کتاب (اللہ کے دفتر میں) میں لکھی ہوئی نہ ہو۔

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۶۲ۚۖ

سنو (آگاہ ہوجاؤ) بے شک جولوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ان پرکسی قسم کا خوف طاری ہوتا ہے اورنہ وہ حزن وملال میں مبتلا ہوتے ہیں۔

توضیح : اہل اللہ کی شان یہ ہے کہ خوف وحزن پیدا کرنے والے کتنے ہی اوقعات پیش آتے رہیں اورراہ حق میں انھیں کتنی ہی تکلیفیں اوراذیتیں پہنچتی رہیں مگر خوف وحزن ان کے دامن گیر نہیں ہوتے( یہ آیت کریمہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں ہے) حضرت ابن عباس اورسعید جبیر نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ولی وہ ہیں جن کے دیکھنے سے اللہ یاد آجائے اورفرمایا اللہ کا ولی وہ ہے جوصحیح اعتقاد رکھتا اورسنت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ولی کیلئے کشف وکرامات کا ہونا بطورشرط کے نہیں ہے۔ ان کیلئے دنیا وآخرت میں ایمان وتقویٰ کی نعمت ایک لازوال نعمت ہے۔

الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۝۶۳ۭ

یہ وہ لوگ ہیں، جوایمان لائے(اللہ تعالیٰ کویقیناً واحد معبود ومستعان، کارساز، حاجت روامانا اورپرہیزگار بنے رہے (یعنی الٰہی تعلیم کے مطابق زندگی گزاری اوراحکام الٰہی کی خلاف ورزی سے بچتے رہے)

لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ

ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارتیں ہیں اورآخرت میں بھی۔

لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللہِ۝۰ۭ

(یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے) اللہ تعالیٰ کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

ذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۶۴ۭ

یہ (دنیا وآخرت کی خوشخبری) بہت بڑی کامیابی ہے۔

وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُھُمْ۝۰ۘ اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۝۰ۭ

اور ائے نبی (ﷺ) ان (منکرانِ حق) کی (تکلیف دہ) باتوں سے آپؐ کورنجیدہ نہ ہونا چاہئے۔ بیشک عزت، وفرمانروائی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے

ھُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۶۵

وہی سب کچھ سنتا اورجانتا ہے۔

اَلَآ اِنَّ لِلہِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

خبردار! آگاہ ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار وتصرف میں ہے مخلوق جوآسمانوں میں ہے اورجوزمین میں ہے (سب اسی کے بندے اورمملوک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار کا کوئی جزوکسی مقرب سے مقرب بندے کوعطا نہیں کیا ہے)
’’مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ خِطْمِیْرٌ مَاکَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ‘‘ (سورۂ قصص)

وَمَا يَتَّبِـــعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ شُرَكَاۗءَ۝۰ۭ

اورجولوگ اللہ تعالیٰ کے سوا (اپنے خود ساختہ شرکاء) کو(مدد کے لیے) پکارتے ہیں،

اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۝۶۶

وہ تومحض اپنی من گھڑت باتوں اوروہم وگمان کی اتباع کرتے ہیں، اوروہ محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں(من گھڑت باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں)

ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْہِ

اللہ وہی توہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تا کہ تم اس میں سکون حاصل کرو۔

وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ۝۶۷

اوردن کوروشن بنایا (تا کہ تم اپنے کاروبار انجام دے سکو۔ لیل ونہار کی اس تخلیق میں) گوش دل سے سننے والوں کے لیے (اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ واحد، معبود ومستعان ہونے کی) بے حساب نشانیاں ہیں۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ۝۰ۭ

اور(بعض لوگ) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے( اپنی حکمرانی میں رائے ومشورے کے لیے اپنی مخلوق میں سے) کسی کواپنا بیٹا بنالیا ہے ( یہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے) سبحان اللہ وہ ایسی مشرکانہ باتوں سے پاک ومنزّہ ہے۔

توضیح : اہل حق کا اتفاق ہے کہ نصاریٰ کا یہ عقیدہ اس قدر نحیف وضعیف ہے کہ اس قدردنیا میں کسی قوم کا مذہب واعتقاد ضعیف نہیں ہے۔ غورکرنے کی بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہرچیز سے غنی ہے تواس کوفرزندکی کیا ضرورت پیش آئی۔ جس نے ایسا عقیدہ رکھا اس نے اللہ کونہیں پہچانا اورایسا کلمہ زبان سے نکالا جس کے لیے کوئی دلیل نہیں۔ اس آیت میں اہل حق کے لیے بھی دلیل ہے کہ جوبات یا جوفعل ایسا ہوکہ جس پرکوئی دلیل شرعی نہ ہوتووہ قول وفعل جہالت ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل ایمان جن امور پراعتقاد رکھتے ہیں، ان کا دلیل قطعی سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ اوردلیل قطعی سے مراد ہے کتاب اللہ کی آیت یا رسول اللہ کا ارشاد۔

ھُوَالْغَنِيُّ۝۰ۭ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

وہ بے نیاز، بے احتیاج ہے (وہ کسی کی رائے ومشورہ وشرکت کا محتاج نہیں) جوکچھ آسمانوں اورزمین میں ہے(بلاشرکت غیرے) سب اسی کا ہے۔

اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍؚبِہٰذَا۝۰ۭ

کیا تمہارے پاس (ان مشرکانہ عقائد کی تائید میں) کوئی دلیل علمی بھی ہے؟

اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۶۸

یا تم اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی باتیں کہتے ہو جس کوتم نہیں جانتے

قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ۝۶۹ۭ

ائے نبی (ﷺ) جولوگ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی مشرکانہ باتیں منسوب کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔

مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ

(ان کے لیے) دنیا کے چند روزہ فائدے ہیں۔ پھران کوہماری طرف لوٹ کرآنا ہے۔

ثُمَّ نُذِيْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيْدَ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ۝۷۰ۧ

پھرہم ان کوکفرکی پاداش میں سخت ترین عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ نُوْحٍ۝۰ۘ

ائے نبی (ﷺ) انھیں نوحؑ کا قصہ سنائیے۔

اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖ يٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِيْ وَتَذْكِيْرِيْ بِاٰيٰتِ اللہِ

جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ ائے میری قوم اگرتم کومیرا یہاں رہنا اوراللہ تعالیٰ کی آیتوں سے نصیحت کرنا ناگوار ہوتو(تم میرے خلاف جوچاہوکرلو)

فَعَلَي اللہِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَاۗءَكُمْ

میں تواللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ رکھتا ہوں۔ لہٰذا تم سب اپنے (خودساختہ) شرکاء سمیت میرے خلاف تمام تدبیریں سوچ لو۔

ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّۃً

پھراس کا کوئی پہلو تم سے پوشیدہ نہ رہنے پائے(یعنی کوئی کسراٹھانہ رکھو)

ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ۝۷۱

پھران تدابیر کوروبہ عمل لے آؤ اور مجھے ذرابھی مہلت نہ دو (مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مدد کریں گے اورتمہاری کوئی تدبیر کارگرنہ ہوگی)

توضیح : قرآن مجید کا عام اسلوب خطاب یہ ہے کہ پہلے وجدانی دلائل کا بیان ہوتا ہے پھرواقعات وشواہد سے استدلال ہوتا ہے۔ یہاں نوحؑ کی سرگزشت کا ذکر ہے۔

فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ۝۰ۭ

پھراگرتم نے میری دعوت سے منہ موڑا(تواس میں میرا کیا نقصان) میں توتم سے اس کا کوئی صلہ نہیں چاہتا۔

اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللہِ۝۰ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۷۲

میرا اجرتواللہ تعالیٰ پرہے (یعنی اللہ تعالیٰ ہی میرا اجردیں گے) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں رہوں (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے)

فَكَذَّبُوْہُ فَنَجَّيْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنٰھُمْ خَلٰۗىِٕفَ

پھرانہوں نے ان کی (نوحؑ کی) تکذیب کی، توہم نے نوحؑ کواوران کے ساتھیوں کوجوکشتی میں سوار تھے، طوفان سے بچالیا اورہم نے انھیں کو زمین پرباقی رکھا(ڈوب مرنے والوں کا قائم مقام بنایا)

وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۝۰ۚ

اورجن لوگوں نے ہمارے احکام کوجھٹلایا، ہم نے انھیں غرق کردیا۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِيْنَ۝۷۳

پھردیکھئے(انجام آخرت سے) ڈرائے جانے والوں کا کیا ہی (برا) انجام ہوا۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِہِمْ

پھر نوحؑ کے بعد ہم نے اورپیغمبر اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے۔

فَجَاۗءُوْھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ

پھروہ ان کے پاس واضح نشانیاں (معجزات) لے کرآئے مگروہ اس تعلیم کوماننے والے نہ تھے جسے وہ اس سے قبل جھٹلاچکے تھے۔

توضیح : حضرت نوحؑ کے بعد حضرت ہودؑ، حضرت لوطؑ حضرت ابراہیمؑ، حضرت شعیبؑ وغیرہ انبیاء اپنی اپنی قوم کی طرف کھلے نشانات دے کربھیجے گئے لیکن جن اصول صحیحہ کی تکذیب اولا قومِ نوحؑ کرچکی تھی۔ ان سبھوں نے بھی وہی کیا اورماننے سے انکار کردیا۔ پھرموسیٰؑاورہارونؑ کا ذکر شروع ہوتا ہے۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ مُّوْسٰى وَھٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ بِاٰيٰتِنَا

پھران کے بعد ہم نے موسیٰ وہارونؑ کوفرعون اوراس کے سرداروں کی طرف اپنی نشانیاں (معجزات) دے کربھیجا۔

فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ۝۷۵

توانہوں نے تکبر کیا اور وہ قوم تھی ہی گنہگار۔

فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ ہٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝۷۶

پھر جب ہماری طرف سے حق بات ان پرظاہر ہوئی (یعنی معجزہ دیکھا) توکہنے لگے یہ توکھلا جادو ہے۔

قَالَ مُوْسٰٓى اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَكُمْ۝۰ۭ اَسِحْرٌ ہٰذَا۝۰ۭ وَلَا يُفْلِحُ

موسی ٰ نے کہا کیا تم دین حق کوجبکہ وہ تمہارے پاس آیا ہے توکہتے ہو یہ جادو ہے؟ کیا جادوایسا ہوتا ہے حالانکہ جادوگرحق کے مقابلہ میں کبھی

السّٰحِرُوْنَ۝۷۷

کامیاب نہیں ہوتے (یعنی حق کے مقابلے میں جادوگروں کی کوئی بات چل نہیں سکتی)

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا

انہوں نے کہا کیا تم ہمارے پاس اس لیے آتے ہو کہ جس راہ پرہم نے اپنے باپ دادا کوپایا ہے، ہم اسے چھوڑدیں؟

وَتَكُوْنَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاۗءُ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ

اور (چاہتے ہو کہ) ملک میں تم دونوں (موسیٰ وہارونؑ) کو اقتدار حاصل ہوجائے

وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِيْنَ۝۷۸

ہم توتم پرایمان لانے والے نہیں ہیں( تمہاری باتوں کوکبھی سچ نہ جانیں گے)

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِيْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ۝۷۹

اور(موسیٰ سے مقابلہ کے لیے) فرعون نے حکم دیا کہ تمام ماہر جادوگروں کومرے پاس لے آؤ۔

فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَۃُ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰٓى

پھر جب جادوگرلائے گئے توموسیٰ نے ان سے کہا۔

اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ۝۸۰

ڈالو جو کچھ (جادو) تم کوڈالنا ہے۔

فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِہِ۝۰ۙ السِّحْرُ۝۰ۭ

پھر جب انہوں نے اپنا جادوڈالا(یعنی جادوکی رسیاں لاٹھیاں زمین پر ڈال دیں) توموسیٰ نے کہا جوچیزیں تم بنا کر لائے ہو، جادو ہے۔

اِنَّ اللہَ سَيُبْطِلُہٗ۝۰ۭ

یقینا ًاللہ تعالیٰ ابھی اس کوباطل کیے دیتے ہیں۔

اِنَّ اللہَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۸۱

یقیناً اللہ تعالیٰ مفسدین کے کسی عمل کوبارآورہونے نہیں دیتے۔

وَيُحِقُّ اللہُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ

اوراللہ تعالیٰ اپنے حکم سے حق کا حق ہونا ثابت کردکھاتے ہیں۔

وَلَوْ كَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ۝۸۲ۧ

خواہ مجرمین کے لیے کتنا ہی ناگوار ہو۔

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ

پس موسیٰ پران کی قوم کے چند نوجوانوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔

عَلٰي خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہِمْ اَنْ يَّفْتِنَھُمْ۝۰ۭ

محض اس خوف سے کہ فرعون اوراس کی قوم کے سردار انھیں اپنے جور وستم کا تختۂ مشق نہ بنالیں۔

وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْاَرْضِ۝۰ۚ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ۝۸۳

اور(واقعہ یہ ہے) فرعون ملک میں چھایا ہوا تھا۔
اوروہ حدود عبدیت سے تجاویز کرنے والوں میں سے تھا۔ (یعنی اپنے مطلب کے حصول کیلئےبدسے بدتر طریقہ اختیار کرنے میں تامل نہ کرتا تھا)

وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ فَعَلَيْہِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ۝۸۴

اور موسیٰ نے کہا، ائے میری قوم کے لوگو! اگرتم اللہ تعالیٰ پرایمان لائے ہو تو (ایمان کا اقتضاء ہی یہ ہیکہ) اسی پربھروسہ رکھو (فرعون کے جور وستم کے خیال سے گھبراؤ نہیں) اگر تم واقعی مسلمان ہو(اطاعت گزار فرمانبردار بنے رہو)

فَقَالُوْا عَلَي اللہِ تَوَكَّلْنَا۝۰ۚ

توقوم نے کہا ہم اللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ رکھتے ہیں۔

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ۝۸۵ۙ

اوردعا کی کہ ائے ہمارے پروردگار! ہم کوظالم قوم کے ظلم وستم کا نشانہ نہ بنا۔

وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۸۶

اورہمیں اپنی رحمت سے کافرقوم سے نجات دیجئے اوران کے ظلم وستم سے محفوظ رکھئے)

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰى وَاَخِيْہِ

اورہم نے موسیٰ اوران کے بھائی (ہارون) کے پاس وحی بھیجی۔

اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا

کہ اپنی قوم کے لیے مصرمیں مکان بناؤ۔

وَّاجْعَلُوْا بُيُوْتَكُمْ قِبْلَۃً

اوراپنے مکانوں کوقبلہ بناؤ(مساجد کا کام لو)

وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۸۷

اوران میں نمازیں قائم کرو( جب کہ دنیا شرک سے بھرجائے اوراہل ایمان ستائے جانے لگیں) اوراہل ایمان کوخوشخبری سناؤ کہ( اللہ تعالیٰ تم کوغلامی سے نجات دیں گے)

وَقَالَ مُوْسٰى رَبَّنَآ اِنَّكَ اٰتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَہٗ زِيْنَۃً وَّاَمْوَالًا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۙ

موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی ائے ہمارے پروردگار! آپ نے فرعون اوراس کے سرداروں کودنیا کی زندگی میں بڑی خوشحالی بخشی زیب وزینت اورمال وزردے رکھا ہے۔

رَبَّنَا لِيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْــلِكَ۝۰ۚ

ائے ہمارے پروردگار! کیا یہ اس لیے کہ وہ (اپنے زورقوت سے لوگوں کو) آپ کی راہ سے بھٹکائیں؟

رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓي اَمْوَالِہِمْ

ائے ہمارے پروردگار! ان کے مال ومنال برباد کردیجئے

وَاشْدُدْ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا

اوران کے دلوں کوسخت کردیجئے کہ وہ ایمان نہ لائیں جب تک کہ

حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ۝۸۸

عذاب الیم کودیکھ لیں۔

قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَــقِيْمَا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہاری دعا قبول کرلی گئی لہٰذا تم (دونوں اپنے دین پر) ثابت قدم رہو۔

وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۸۹

اوران لوگوں کے کسی طریقہ کی پیروی نہ کرو جو(دین کے تعلق سے) کچھ بھی نہیں جانتے۔

وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ

اورہم نے بنی اسرائیل کودریا سے پاراتارا(جوان کے راستہ میں حائل تھا)

فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہٗ بَغْيًا وَّعَدْوًا۝۰ۭ

پھر فرعون اوراس کے لشکر نے سرکشی ظلم وتعدی سے ان کا تعاقب کیا (دریا کے کنارے پہنچا اسی راستے دریا میں اتر پڑا جب وہ لشکر کے ساتھ وسط دریا میں پہنچاتوپانی کے دونوں حصے مل گئے اوروہ غوطہ کھانے لگا)

حَتّٰٓي اِذَآ اَدْرَكَہُ الْغَرَقُ۝۰ۙ

جب وہ غرق ہونے کے قریب ہوا تو

قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝۹۰

کہا میں ایمان لایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اللہ جس پربنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں (یعنی فرمانبرداروں ) میں سے ہوں۔

اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۹۱

(اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) اب ایمان لاتا ہے اور تو اس سے پہلے نافرمانیاں کرتا رہا حالانکہ توفساد مچانے والوں میں سے تھا۔

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً۝۰ۭ

لہٰذا آج ہم تیرے بدن کودریا میں ڈوبنے نہ دیں گے تا کہ (تیرا بدن) آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا ذریعہ بنارہے

وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۝۹۲ۧ

اوربہت سے لوگ ہماری نشانیوں (یعنی قدرت) سے بے خبرہیں۔

وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ

اوریقیناً ہم نے اسرائیل کورہنے کے لیے اچھا ٹھکانا دیا۔

وَّرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ۝۰ۚ

اورانھیں اچھے سے اچھے وسائل معاش دیئے۔

فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ۝۰ۭ

مگرانہوں نے اس وقت اختلاف کیا جب کہ علم حق (القرآن) ان کے

اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝۹۳

پاس آیا۔
بے شک تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان کے درمیان ان تمام امورمیں فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے تھے۔

فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ

پھراگر آپؐ کواس کتاب کے بارے میں جوہم نے نازل کی ہے (مخالفین کے مسلسل انکارکی وجہ) کچھ شک وتردد پیداہورہا ہے؟

فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ

توان لوگوں سے پوچھ لیجئے جنہیں آپؐ سے پہلے کتاب دی گئی تھی اوروہ اس کو(بڑی ہی نیک نیتی سے) پڑھتے رہتے ہیں( وہ اس کے منزل من اللہ ہونے کی گواہی دیں گے)

توضیح : بظاہر یہ خطاب آنحضرتﷺ کی طرف ہے لیکن درحقیقت ان لوگوں سے ہے جوقرآن کے منزل من اللہ ہونے میں شک کرتے ہیں۔

لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ۝۹۴ۙ

بے شک آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ کے پاس (دین) حق آچکا، لہٰذا آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجانا۔

وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۹۵

اورنہ ان لوگوں میں سے ہوجانا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کوجھٹلایا، ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤگے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْہِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۹۶ۙ

جن لوگوں کا ایمان نہ لانا آپؐ کے پروردگار کے پاس طے شدہ ہے وہ کبھی ایمان نہ لائیں گے۔

وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَۃٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ۝۹۷

خواہ کتنی ہی نشانیاں ان کے پاس آئیں۔(وہ ایمان نہ لائیں گے) جب تک کہ وہ دردناک عذاب کودیکھ نہ لیں۔
(عذاب دیکھنے کے بعد ایمان لانا مفید نہیں ہوتا)

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِيْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ۝۰ۭ

قوم یونسؑ کے سوا کوئی بستی ایسی نہیں گزری(جہاں عذاب کے آثاردیکھ کر) قوم کا ایمان لانا سود مندہوا ہو۔

لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا

جب وہ ایمان لائے تودنیوی زندگی میں ہم نے ان سے ذلت آمیز عذاب دورکردیا۔

وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰى حِيْنٍ۝۹۸

اورکچھ عرصہ تک دنیا سے استفادہ کرنے کی ہم نے ا نہیں مہلت دے دی۔

توضیح : آیت ہذا میں حضرت یونسؑ کے واقعہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ہیں۔ حضرت یونس ؑنے اپنی قوم کوخبردی تھی کہ چالیس دن کے بعد شہر تباہ ہوجائے گا۔ کیونکہ تمہارا ظلم وفساد حد سے گزرگیا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ سے لے کر گڈریے تک سب توبہ واستغفارمیں لگ گئے۔ یہ مدت گزرنے کے باوجود ان پرعذاب نہ آیا، ٹل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک مدت تک مہلت دی۔ پھر جب ظلم وتعدی بڑھ گیا۔تو ۳۰۰ ق م میں عذاب نازل ہوا اوراس کی جائے وقوع بھی لوگوں کومعلوم نہ ہوسکی۔

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ

ائے نبی(ﷺ) اگرآپ کا پروردگار چاہتا توجتنے لوگ زمین پرہیں سب کے سب ایمان لاتے۔

توضیح : جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گمراہی بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتی ہے تووہ سخت غلطی پرہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت گمراہی پر نہیں ہوتی۔ مشیث الٰہی ہدایت سے متعلق ہوتی ہے۔ اگراللہ تعالیٰ اپنی مشیت بندوں پرمسلط فرما کر سب کوہدایت یافتہ کردیتے توتمام انسان بے اختیار ہوکر رہ جاتے اورانسان فطرتاً بااختیار رہناچاہتا ہے۔ ان کا اختیار سلب کرنا ایک طرح کا جبر ہوتا اوراللہ تعالیٰ کی شان اس سے اعلیٰ وارفع ہے کہ کسی پرذرا سا بھی ظلم ہوجائے۔

اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝۹۹

کیا آپؐ لوگوں پراس وقت تک زبردستی کرنا چاہتے ہیں جب تک کہ وہ مومن نہ ہوجائیں۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ

اِذنِ الٰہی (توفیق الٰہی) کے بغیر کوئی شخص ایمان نہیں لاتا (توفیق الٰہی اسی کو نصیب ہوتی ہے جو احکام الٰہی سے توافق کرتا ہے۔ طالب ہدایت کو ہدایت نصیب ہوتی ہے)

وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ۝۱۰۰

اورجولوگ عقل ودانش سے کام نہیں لیتے یعنی علم الٰہی کی روشنی میں دین کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کوانھیں کے اپنے شرک وکفر کی گندگی میں ڈالے رکھتے ہیں۔

توضیح : اگرعلم الٰہی ’’سراجٌ مُنِیرٌ‘‘ کی روشنی سامنے نہ ہو توعقل انسانی اندھی ہے۔

قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ

ائے نبی ان سے کہئے جوکچھ آسمانوں اورزمین میں ہے وہ انھیں آنکھیں کھول کردیکھیں (ایمان لانے والوں کے لیے ہرطرف قدرت کی بے حد وبے حساب نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔)

وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ۝۱۰۱

اورجولوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں (معجزات) تنبیہات کبھی سود مند نہیں ہوتیں

فَہَلْ يَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَيَّامِ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰ۭ

کیا یہ لوگ ویسے ہی دن دیکھنے کے منتظر ہیں جیسے کہ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ دیکھ چکے ہیں۔

قُلْ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِيْنَ۝۱۰۲

کہئے پھرتم بھی انتظار کرومیں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا

پھر ہم نے اپنے رسولوں کواوران لوگوں کوجوایمان لائے تھے، اپنے عذاب سے بچالیا۔

كَذٰلِكَ۝۰ۚ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۰۳ۧ

اس طرح اہل ایمان کوبچالینا ہم نے اپنے آپ پرلازم کرلیا ہے۔

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ

ائے نبی(ﷺ) کہئے، لوگو! اگرتم کومیرے دین میں کسی طرح کا شک ہے۔

فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ

(توسن لو) میں توان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کرتے ہو۔

وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ۝۰ۚۖ

لیکن میں تواسی اللہ کی عبادت کرتا ہوں، جوتمہاری روح قبض کرتا ہے (موت کے وقت ہی آنکھیں کھلتی ہیں، اس وقت کی توبہ کوئی قیمت نہیں رکھتی)

وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۱۰۴ۙ

اورمیں حکم کیا گیا ہوں کہ مومن ہی بنارہوں۔

وَاَنْ اَقِمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝۰ۚ

اوریہ حکم دیا گیا ہے کہ سب سے یکسوہوکر اپنے آپ کو دین الٰہی پرقائم رکھوں(یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسی یکسوئی کے ساتھ کروں کہ کسی دوسری طرف میلان نہ ہونے پائے)

وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۱۰۵

اورمیں مشرکین میں سے نہ ہوجاؤں۔

وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ۝۰ۚ

اورحکم دیا گیا ہے کہ (خبردار) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کونہ پکارنا، جونہ تم کونفع پہنچاسکتے ہیں اورنہ تمہارا کچھ بگاڑسکتے ہیں۔

فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِــمِيْنَ۝۱۰۶

پھراگرتم نے ایسا کیا توتم بھی ظالموں میں شمار کیے جاؤگے۔

توضیح : ہمارے لیے کس قدر عبرتیں ہیں کہ نبیٔ آخرالزماں افضل الانبیاء خاتم ا لنبینﷺ بھی دنیا وآخرت کی مشکلات میں کسی اللہ کے مقرب بندے کوپکاریں تواسی وقت ظالموں میں شمار ہوجائیں۔ اورافراد امت ہر پریشانی کے موقع پراپنے پیروں، بزرگوں کوپکاریں جیسے یا پیرویا دستگیر یا خواجہ بندہ نواز یا علی مشکل کشاہ وغیرہ تونہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے۔ مولانا حالیؔ نے کیا خوب کہا ہے۔

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ۝۰ۚ

اوراگراللہ تعالیٰ ہی آپ کوکسی تکلیف میں مبتلا کردے توپھر اس کے سوا کوئی اس تکلیف کودفع نہیں کرسکتا۔

وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۝۰ۭ

اوراگر اللہ تعالیٰ آپ کونفع پہنچائے توپھرکوئی اس کے فضل کوروک نہیں سکتا۔

يُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ وَھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝۱۰۷

وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے اوروہ بڑا ہی معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

توضیح : مصیبت جوعموماً گناہوں کی وجہ سے آتی ہے حق تعالیٰ کواختیارہے کہ کسی مصیبت زدہ بندے کے گناہ معاف کردیں، اس پر رحم کریں اور اس کی مصیبت دورکریں۔

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۚ

ائے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس دین حق آچکا ہے۔

توضیح : توحید اورمعاد پر ہرقسم کے دلائل قائم کرکے حجت تمام کی جاتی ہے کہ ائے نبیﷺ کہہ دیجئے میرے دین میں کوئی شک باقی نہیں ہے۔

فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝۰ۚ

توجوکوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تواسکا ہدایت یافتہ ہونا اسی کیلئے مفید ہوگا۔

وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۝۰ۭ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۝۱۰۸ۭ

اورجوکوئی گمراہی اختیارکرتا ہے توگمراہی کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اورمیں تمہارا وکیل نہیں ہوں یعنی تمہاری طرف سے پیروی کرنے نہیں آیا ہوں۔

وَاتَّبِـــعْ مَا يُوْحٰٓى اِلَيْكَ وَاصْبِرْ

اور ائے نبیﷺ جووحی آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے اس کی اتباع کیجئے اور صبر کیجئے (یعنی مخالفین اسلام کی طرف سے کتنی ہی اذیتیں تکلیفیں پہنچائی جائیں، دل آزاری کی جائے، برداشت کیے جایئے اورثابت قدم رہئے)

حَتّٰى يَحْكُمَ اللہُ۝۰ۚۖ وَھُوَخَيْرُالْحٰكِمِيْنَ ۝۱۰۹ۧ

تاآنکہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کردے اوروہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔