بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اللہ کے نام (اسی کی مدد) سے جورحمٰن اور رحیم ہے، میں اس کا م کا آغاز کر ر ہا ہوں۔
الۗرٰ۰ۣ
الف۔ لام۔ را۔ یہ حروف مقطعات ہیں۔ نبی کریمﷺ وصحابہ کرام سے بہ سند صحیح ان حروف کے معنی منقول نہیں ہیں۔ جوکچھ معنی بیان کیے جاتے ہیں، وہ قیاسی ہیں۔
تشریح: سورۂ یوسف اس وقت نازل ہوئی جب کہ آپؐ کے برادران قوم یعنی قریش کی مخالفت اورظلم اپنی انتہا کوپہنچ گیا تھا، اس سورۃ میں حضرت یوسفؑ کے ساتھ ان کے بھائیوں کی مخالفت کی سرگزشت ہے جس کا انجام حضرت یوسفؑ کی کامیابی پر ہوا اور ان کے بھائیوں کو بالآخر ندامت اٹھانی پڑی۔ اس سورۃ میں ان مصائب کا بیان نہیں ہے جوتبلیغی سلسلہ میں پیش آتی ہیں بلکہ ان مصیبتوں کا بیان ہے جن کا زیادہ ترتعلق خانگی حالات سے ہے۔ ان آیات میں رسول اللہﷺ کیلئے تسکین وطمانیت کا سامان ہے عفو ودرگزرکا سبق ہے۔
تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۱ۣ
یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جس میں ہر بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۲
ہم نے اس کتاب کوقرآن کے نام سے عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم اچھی طرح سمجھ سکو۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ۰ۤۖ
ائے (پیغمبرﷺ) ہم اس قرآن کے ذریعہ جوہم نے آپ کی طرف بھیجا ہے ایک اچھا قصہ سناتے ہیں۔
وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ۳
اورآپ اس سے پہلے ان واقعات سے بے خبر تھے۔
اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْہِ يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُہُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ۴
جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا ابا میں نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اورچاند سورج مجھے سجدہ کررہے ہیں۔
قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ
باپ نے کہا ائے میرے بیٹے اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔
فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًا۰ۭ
کہیں وہ تمہارے خلاف کوئی مکروفریب نہ کرنے لگیں۔
اِنَّ الشَّيْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۵
یقینا ًشیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے (وہ تمہارے بھائیوں کوتمہاری مخالفت پرآمادہ کرے گا)
وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ
اوراسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں برگزیدہ کرے گا(یعنی نبوت کے لیے منتخب کرے گا)
وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ
اورتمہیں خواب کی تعبیر کا علم سکھائے گا۔
وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَـمَآ اَتَمَّــہَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْحٰقَ۰ۭ
اوراپنی نعمت تجھ پراورآل یعقوب پر پوری کرے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کے قبل تمہارے بزرگوں ابراہیمؑ واسحاقؑ کواپنی نعمتوں سے مالا مال کیا تھا۔
اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۶ۧ
بے شک تمہارا رب بڑا ہی جاننے والا حکمت والا ہے۔ (وہی اپنے بندوں کوعلم ودانائی کی باتیں سکھاتا ہے۔)
لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ۷
یقیناً یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے واقعہ میں پوچھنے والوںکے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔
توضیح : یہودیوں کی ایماء پرکفار مکہ نے رسول اللہﷺ سے حضرت یوسفؑ کا واقعہ دریافت کیا تھا۔ دیگر انبیاء علیہم السلام کے واقعات کچھ تو صحیح اورکچھ غلط طریقوں سے عرب میں مشہور تھے۔ لیکن حضرت یوسفؑ کے اصل حالات سے اہل عرب ناآشنا تھے۔ اوران کا یہ واقعہ مشہور تھا بھی توعشق ومحبت کی ایک داستان کی طرح تھا۔
آپؐ سے سوال کرنے کا منشاء یہ تھا کہ آپؐ کی نبوت کا امتحان لیا جائے یعنی اگر آپؐ نبی ہیں تووحی کے ذریعہ تفصیلی طورپر حضرت یوسفؑ کا واقعہ آپؐ کی زبان حقیقت ترجمان سے ظاہر ہوجائے گا۔
اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا
(قصہ یہ ہے) حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے آپس میں کہا یوسفؑ اوراس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں۔
وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ۰ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ۸ۚۖ
حالانکہ ہم ایک جماعت کی جماعت ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے باپ ان کے معاملے میں سخت غلطی پر ہیں۔
اقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْہُ اَبِيْكُمْ
یاتویوسف کوجان سے مارڈالو یا کسی دوردراز مقام پر پھینک آؤ تو تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہوجائے گی
وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ۹
اوراس (جرم) کے بعد ایک صالح قوم (کی طرح نیک) بنے رہو۔
قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْہُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْہُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّـيَّارَۃِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ۱۰
ان مشورہ کرنے والوں میں سے ایک نے کہا۔ یوسف کوقتل نہ کروبلکہ اس کوکسی گہرے اندھیرے کنویں میں ڈال آؤ کہ کوئی راہ چلتا قافلہ اس کو نکال کرکہیں دورلے جائے اگرتم کو کرنا ہے تویوں کرو)
قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ۱۱
(اس تجویز پراتفاق رائے کے بعد یوسف کے بھائیوں نے اپنے باپ سے) کہا ابا جان کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پربھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم یوسف کے بہی خواہ ہیں۔
اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۱۲
(لہٰذا) کل یوسف کوہمارے ساتھ بھیجئے تا کہ کھائے پئے، کھیلے، کودے، اورہم یقیناً ان کی اچھی طرح حفاظت کرنے والے ہیں۔
قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْہَبُوْا بِہٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَ۱۳
باپ نے کہا تمہارا اسے لے جانا مجھے غمگین کیے دیتا ہے اورمجھے یہ بھی اندیشہ ہے تم کھیل میں اس سے غافل ہوجاؤ اورتمہاری بے خبری میں اسے کوئی بھیڑیا کھاجائے۔
قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ
انہوں نے کہا ہمارے ہوتے ہوئے اگراس کوبھیڑیا کھاجائے جب کہ ہم ایک (طاقتور) جماعت ہیں۔
اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ۱۴
توبیشک اس صورت میں ہم بڑے ہی گئے گزرے لوگوں میں شمار ہونگے۔
فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْہُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ۰ۚ
غرض جب وہ اس کولے گئے اوراس کوایک گہرے کنویں میں ڈال دینا طے پایا اورڈال دیئے گئے۔
وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْہِ لَتُنَبِّئَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ھٰذَا وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۱۵
اورہم نے (یوسفؑ) کی طرف وحی بھیجی کہ ایک وقت آئے گا کہ تم ان کوان کی اس حرکت سے متنبہ کروگے اوران کواس کی خبر نہیں ہے۔
وَجَاۗءُوْٓا اَبَاہُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ۱۶ۭ
(یوسفؑ کوکنویں میں ڈالنے کے بعد) شام کوان کے بھائی باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔
قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ
کہا ائے ہمارے ابا جان ہم توبا ہم ایک دوسرے کے ساتھ دوڑکا مقابلہ کررہے تھے۔
وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا
اوریوسف کواپنے سامان کے پاس حفاظت کے لیے چھوڑدیا تھا۔
فَاَكَلَہُ الذِّئْبُ۰ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ۱۷
تواس کوبھیڑیا کھاگیا۔ اورآپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے، اگرچہ کہ ہم سچے ہی کیوں نہ ہوں۔
وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ۰ۭ
اور (اپنی بات کوصحیح ثابت کرانے کے لیے) اس کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کرلے آئے۔
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا۰ۭ
باپ نے کہا تم اپنی طرف سے بات بنا کرلائے ہو۔
(واقعہ توایسا معلوم نہیں ہوتا)
فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ۰ۭ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ۱۸
پس اب صبر ہی اچھا ہے تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ تعالیٰ ہی سے مدد کا طالب ہوں۔
وَجَاۗءَتْ سَـيَّارَۃٌ
اور(ادھر یہ صورت پیش آئی کہ کنویں کے قریب) ایک قافلہ آپہنچا۔
فَاَرْسَلُوْا وَارِدَہُمْ فَاَدْلٰى دَلْوَہٗ۰ۭ
چنانچہ اس قافلہ نے پانی کے لیے اپنا ایک آدمی بھیجا۔ تواس نے اپنا ڈول ڈالا(جھانک کرجودیکھا تویوسف نظرآئے)
قَالَ يٰبُشْرٰي ھٰذَا غُلٰمٌ۰ۭ
اس نے قافلہ والوں کوپکارکر کہا زہے قسمت یہ تو ایک (حسین) لڑکا ہے (قافلہ بردہ فروشوں کا تھا)
وَاَسَرُّوْہُ بِضَاعَۃً۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۱۹
اورقافلہ نے اس کو(قیمتی) سرمایہ سمجھ کرچھپالیا اوراللہ تعالیٰ علیم ہیں، سب باتوں کوجانتے ہیں جووہ کررہے تھے۔
وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍؚبَخْسٍ دَرَاہِمَ مَعْدُوْدَۃٍ۰ۚ
اوراس کوتھوڑی سی قیمت کے بدلے بیچ ڈالا( یعنی گنتی کے چند درہموں میں)
وَكَانُوْا فِيْہِ مِنَ الزَّاہِدِيْنَ۲۰ۧ
اورانہوں نے اس کی قیمت کے بارے میں اسی کوغنیمت جانا( وہ آپ کی قدرومنزلت جانتے ہی کیا تھے؟)
وَقَالَ الَّذِي اشْتَرٰىہُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِہٖٓ
اورمصر میں جس شخص نے اس کوخریدا تھا اپنی بیوی سے کہا
اَكْرِمِيْ مَثْوٰىہُ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ
اس کوعزت واحترام سے رکھو شاید کہ اس سے ہمیں فائدہ پہنچے۔
اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا۰ۭ
یا ہم ا سے اپنا بیٹا بنالیں۔
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ۰ۡ
اس طرح ہم نے یوسف کے لیے سرزمین مصرمیں اچھی طرح رہنے بسنے کا سامان فراہم کردیا۔
وَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ۰ۭ
اور اس سے ہماری غرض یہ تھی کہ اس کو تعبیر خواب (ومعاملہ فہمی کی تربیت دیں)
وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِہٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۲۱
اوراللہ تعالیٰ اپنی تجاویز کوروبہ عمل لانے پر پوری طرح قادر ہیں۔ لیکن اکثرلوگ اس حقیقت کونہیں جانتے۔
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗٓ اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۰ۭ
اورجب یوسفؑ (پوری طرح) جوان ہوگئے توہم نے ان کوعلم ودانائی عطا کی۔
وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۲۲
اورہم نیکو کاروں کوایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔
وَرَاوَدَتْہُ الَّتِيْ ہُوَفِيْ بَيْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ
اورجس عورت کے گھر میں رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور (ایک روز) دروازے بند کردیئے۔
وَقَالَتْ ہَيْتَ لَكَ۰ۭ
اورکہنے لگی آؤ (تنہائی کا انتظام) تمہارے ہی لیے کیا ہے
قَالَ مَعَاذَ اللہِ
(یوسف نے) کہا اللہ کی پناہ (یعنی اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے اپنے جس ارادے سے تومجھے بلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے رکھے)
اِنَّہٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ۰ۭ
وہی میرا رب ہے جس نے از راہ احسان مجھے اچھا ٹھکانہ مرحمت فرمایا۔
اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۲۳
بے شک ظالم (احسان فراموش) کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔
وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ۰ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ۰ۭ
اوراس عورت نے ان کا قصد کیا اوروہ بھی اس کی طرف مائل ہوگئے ہوتے اگراپنے رب کی دلیل دیکھ نہ لیتے۔
كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ۰ۭ
اسی طرح ہم نے یوسف کوبرائی اوربے حیائی سے باز رکھا۔
اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ۲۴
وہ توہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ
اوروہ دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے۔
وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ
اور(انھیں روکنے کے لیے پیچھے سے عورت نے ان کا دامن پکڑلیا اسی کش مکش میں) پیچھے سے قمیص پھٹ گئی۔
وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۰ۭ
اتنے میں ان دونوں نے دروازے کے پاس عورت کے شوہر کوکھڑا پایا۔
قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَہْلِكَ سُوْۗءًا
عورت نے فوراً ہی بات بنا کر کہا ایسے شخص کی کیا سزا ہوسکتی ہے جوتیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے۔
اِلَّآ اَنْ يُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۲۵
سوائے ا س کے کہ جیل خانہ بھیج دیا جائے یا کوئی درد ناک سزا دی جائے۔
قَالَ ہِىَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ
یوسفؑ نے کہا دراصل اسی نے مجھ کواپنی طرف مائل کرنا چاہا۔
وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَہْلِہَا۰ۚ
اسی کے قبیلے کے ایک فیصلہ کرنے والے نے یہ فیصلہ کیا۔
اِنْ كَانَ قَمِيْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَہُوَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ۲۶
اگر یوسف کی قمیص کا دامن سامنے سے پھٹا ہوا ہے توعورت سچی اور وہ شخص جھوٹا ہے ۔
وَاِنْ كَانَ قَمِيْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَہُوَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۲۷
اوراگر یوسف کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہو تو عورت جھوٹی ہے اوروہ شخص سچا ہے۔
فَلَمَّا رَاٰ قَمِيْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنْ كَيْدِكُنَّ۰ۭ اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ۲۸
چنانچہ جب وہ اس کی قمیص کودیکھا توپیچھے سے پھٹی ہوئی تھی (عزیز مصر نے) کہا یہ توتم عورتوں کا مکروفریب ہے۔ بے شک تمہاری چالاکیاں بھی بڑی(غضب کی) ہوتی ہیں۔
يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا۰۫
(عزیز مصر نے یوسفؑ سے مخاطب ہو کر کہا) یوسف اس واقعہ کو درگزر کردو۔
وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ۰ۚۖ
اور(اپنی عورت سے کہا) اپنے قصور کی معافی مانگ
اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ۲۹ۧ
یقیناً توہی خطاکاروں میں سے ہے۔
وَقَالَ نِسْوَۃٌ فِي الْمَدِيْنَۃِ
(اس واقعہ کی شہرت ہوگئی) شہر کی چند عورتوں نے کہا۔
قَدْ شَغَفَہَا حُبًّا۰ۭ
محبت نے اس کوبے قابو کررکھا ہے۔
اِنَّا لَنَرٰىہَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۳۰
ہم تواس کوصریح غلطی میں دیکھتے ہیں۔
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِہِنَّ
چنانچہ جب اس عورت نے ان عورتوں کی فریب آمیزباتیں سنیں۔
اَرْسَلَتْ اِلَيْہِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَہُنَّ مُتَّكَاً
عزیز مصر کی عورت نے ان عورتوں کے پاس( دعوت نامے) بھیجے اوران کے بیٹھنے کے لیے مسند اورتکیے لگائے۔
وَّاٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنْہُنَّ سِكِّيْنًا
(اورپھل تراشنے کے لیے) ان میں ہرایک کوایک ایک چھری دے دی (اورعین اس وقت جب کہ وہ چھری سے پھل کاٹ رہی تھیں)
وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْہِنَّ۰ۚ
اس عورت نے یوسف سے کہا ان عورتوں کے سامنے آؤ۔
فَلَمَّا رَاَيْنَہٗٓ اَكْبَرْنَہٗ
جب ان عورتوں نے یوسفؑ کودیکھا توان کے (حسن وجمال) کودیکھ کردنگ رہ گئیں۔
وَقَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۰
اور(ان پرایسی مدہوشی طاری ہوئی کہ) اپنے ہاتھ کاٹ لیے
وَقُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا۰ۭ
اوربے ساختہ کہنے لگیں حاشہ للہ یہ توانسان نہیں۔
اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَكٌ كَرِيْمٌ۳۱
یہ توکوئی فرشتہ ہے یعنی ایسا حسن وجمال انسان میں کہاں ہوتا ہے۔ البتہ فرشتے ایسے نورانی ہوتے ہوں گے۔
قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ لُمْتُنَّنِيْ فِيْہِ۰ۭ
اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے کہا دیکھ لیا تم نے یہی وہ شخص ہے جس کے معاملے میں تم مجھ پرملامت کرتی تھیں۔
وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ فَاسْتَعْصَمَ۰ۭ
اوربے شک میں نے اس کواپنی طرف مائل کرنے کی بہت کوشش کی مگریہ بچ نکلا۔
وَلَىِٕنْ لَّمْ يَفْعَلْ مَآ اٰمُرُہٗ
اوراگریہ وہ کام نہ کرے گا جومیں اس سے کہتی ہوں
لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ۳۲
توقید کروادیا جائے گا اورذلیل وخوار لوگوں میں شمار ہوگا (عورتوں کے سامنے یہ بات اس لیے کہی وہ بھی انھیں سمجھائیں اورحضرت یوسفؑ ڈرکراس کے مطالبہ کوقبول کریں)
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْہِ۰ۚ
اس موقع پریوسفؑ نے دعا کی ائے میرے پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں، اس کے مقابلے میں مجھے قید خانہ پسند ہے۔
وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَہُنَّ
اور(اگر آپ مجھے ان کے مکروفریب سے محفوظ نہ رکھیں یا) ان کی چالوں سے مجھے دورنہ کردیں۔
اَصْبُ اِلَيْہِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰہِلِيْنَ۳۳
تومیں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اورجاہلوں میں سے ہوجاؤں گا۔
فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ كَيْدَہُنَّ۰ۭ
پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کرلی اوران عورتوں کا مکردفع کردیا۔
اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۳۴
بے شک وہی سننے اور(ہرایک احوال) جاننے والے ہیں۔
ثُمَّ بَدَا لَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰيٰتِ لَيَسْجُنُنَّہٗ حَتّٰي حِيْنٍ۳۵ۧ
پھرباوجود اس کے کہ یوسفؑ کی پاکدامنی ثابت ہوچکی تھی، (مصلحتاً بدنامی پرپردہ ڈالنے کے لیے یہی رائے ٹھہری کہ)یوسفؑ کوکچھ مدت کے لیے قید میں رکھا جائے۔
وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ۰ۭ
یوسفؑ کے ساتھ دواورنوجوان بھی جیل خانہ میں داخل ہوئے۔
قَالَ اَحَدُہُمَآ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا۰ۚ
ان میں ایک نے کہا(ائے یوسفؑ) میں نے خواب میں اپنے آپ کوشراب کشید کرتے دیکھا ہے۔
وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِيْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْہُ۰ۭ
اوردوسرے نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ اپنے سرپر روٹیاں اٹھایا ہوا ہوں اورپرندے اس میں کھارہے ہیں۔
نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِہٖ۰ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۳۶
ہم کواس کی تعبیر بتائیے ہم آپ کوایک نیکو کارانسان دیکھتے ہیں۔
قَالَ لَا يَاْتِيْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِيْـلِہٖ قَبْلَ اَنْ يَّاْتِيَكُمَا۰ۭ
یوسفؑ نے کہا تم کویہاں جوکھانا ملتا ہے ، اس کے آنے سے پہلے ہی میں تم کواس کی تعبیر بتادوں گا۔
ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِيْ رَبِّيْ۰ۭ
اللہ تعالیٰ نے جوعلوم مجھے عطا کیے ہیں، ان ہی میںسے یہ ایک علم
اِنِّىْ تَرَكْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ
(مگر پہلے ایک بات یہ بھی سنو کہ) میں نے ان لوگوں کا مذہب ترک کردیا ہے جواللہ تعالیٰ پرایمان نہیںلاتے ۔
وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ كٰفِرُوْنَ۳۷
اوروہ آخرت کے بھی منکر ہیںیعنی آخرت میں محاسبہ اعمال وپرسش اعمال کے بھی قائل نہیں ہیں۔
وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَاۗءِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ۰ۭ
اورمیں نے اپنے باپ دادا ابراہیمؑ واسحاقؑ ویعقوب کے مذہب کا اتباع اختیار کیا ہے۔
مَا كَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللہِ مِنْ شَيْءٍ۰ۭ
ہمارے لیے یہ کسی طرح بھی درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اورکوشریک ٹھہرائیں۔
ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللہِ عَلَيْنَا وَعَلَي النَّاسِ
ہم پراللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کوایسی توفیق بخشی اورلوگوں پربھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے لوگوں کو(شرک سے باز رہنے کی) تعلیم دی۔
وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۳۸
لیکن اکثرلوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے۔
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ
ائے قید خانے کے ساتھیو! تم خود ہی غورکروبہت سے
مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ
متفرق رب بہتر ہیں یا اللہ واحد جوسب پرغالب ہے۔
مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَاۗءً سَمَّيْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ
اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تو صرف نام ہی نام ہیں جوتم نے اورتمہارے آباواجداد نے گھڑلیے ہیں۔
مَّآ اَنْزَلَ اللہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ۰ۭ
ان سے متعلق اللہ تعالیٰ نے کوئی سند جوازنازل نہیں فرمائی۔
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ
عبادت اوراس کا طریق کارمتعین کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔
اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۰ۭ
اسی کا حکم ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو۔
ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ
یہی سیدھا سادا طریقۂ عبادت دین ہے۔
وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۴۰
لیکن اکثر لوگ اس سے ناواقف ہیں۔
يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّہٗ خَمْرًا۰ۚ
(اس کے بعد حضرت یوسفؑ نے خواب کی تعبیر بیان کی) ائے قید خانے کے ساتھیو! تم میں سے ایک تو(بری ہوکر) اپنے آقا کوشراب پلائے گا۔
وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَّاْسِہٖ۰ۭ
اوردوسرا سولی پرچڑھا دیا جائے گا اوراس کے سرکوپرندے نوچ کرکھا جائیں گے۔
قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْہِ تَسْتَفْتِيٰنِ۴۱ۭ
خواب کے بارے میں جوبات تم دریافت کیے تھے اس کی یہ فیصل شدہ تعبیر ہے
وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ۰ۡ
اوردنوں شخصوں میں سے جس کی نسبت یوسفؑ نے خیال کیا تھا، کہ وہ رہا ہوجائے گا، اس سے کہا۔ اپنے آقا سے میرا بھی ذکر کردینا(یعنی یہ کہ قیدخانہ میں ایک ایسا شخص بھی ہے جویہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کسی مقرب بندوں کویا اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کوشریک نہ بنانا۔ اور وہ خواب کی تعبیر بیان کرتا ہے)
فَاَنْسٰىہُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّہٖ
مگرشیطان نے اس کواپنے آقا سے ذکرکرنا بھلادیا۔
فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ۴۲ۧ
اس طرح یوسفؑ کئی سال جیل میںرہے
وَقَالَ الْمَلِكُ اِنِّىْٓ اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ
اوربادشاہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں۔ جن کوسات دبلی پتلی گائیں کھارہی ہیں۔
وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۰ۭ
اورغلہ کے سات سبزخوشے ہیں اورسات خشک۔
يٰٓاَيُّہَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُوْنَ۴۳
ائے درباریو! تم اگرخوابوں کی تعبیر جانتے ہوتومیرے خواب کی تعبیر بتاؤ۔
قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ۰ۚ
درباریوں نے کہا یہ حقیقی معنی خیز خواب نہیں پریشان خیالی ہے
وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِيْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِيْنَ۴۴
اورہم ایسے پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔
وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْہُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ
اس موقع پروہ شخص جودونوں قیدیوں میں سے رہائی پاگیا تھا، جسے ایک مدت دراز کے بعد (یوسفؑ) کی کہی ہوئی بات یاد آگئی۔
اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِہٖ فَاَرْسِلُوْنِ۴۵
بول اٹھا میں اس کی تعبیر لابتاتا ہوں مجھے جیل خانہ جانے کی اجازت دیجئے۔
يُوْسُفُ اَيُّہَا الصِّدِّيْقُ
(چنانچہ وہ یوسفؑ کے پاس آیا اورکہا) یوسف! ائے سچے یوسف !
اَفْتِنَا فِيْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُہُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ
ہمیں اس خواب کی تعبیر دوکہ سات موٹی گایوں کوسات دبلی گائیں کھارہی ہیں۔
وَّسَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ۰ۙ
اورسات ہری بھری بالیں ہیں اورسات سوکھی ہوئی۔
لَّعَلِّيْٓ اَرْجِـــعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَعْلَمُوْنَ۴۶
تا کہ میں لوگوں کے پاس جا کرتعبیر سناؤں، تا کہ وہ اس سے واقف ہوجائیں۔
قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًا۰ۚ
یوسفؑ نے کہا تم مسلسل سات برس تک خوب کھیتی باڑی کرتے رہوگے۔
فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْہُ فِيْ سُنْۢبُلِہٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ۴۷
پھرجوفصلیں تمہارے ہاتھ آئیں، اس میں سے تھوڑا غلہ جوتمہاری معمولی خوراک کے لیے کافی ہو، نکال لواورباقی حصہ خوشوں کی حالت میں محفوظ رکھو۔
ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ
پھراس کے بعد سات برس سخت آئیں گے۔ یعنی قحط ہوگا۔
يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَہُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ۴۸
جوغلہ(بالیں) خوشوں کی صورت میں تم نے ذخیرہ کررکھا ہوگا استعمال میں آجائے گا۔ یعنی ان سب کوکھالیا جائے گا۔
سوائے اس کے کہ صرف وہی تھوڑا سا رہ جائے گا، جوتم احتیاط سے رکھ چھوڑوگے۔
ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْہِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيْہِ يَعْصِرُوْنَ۴۹ۧ
پھراس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا کہ خوب بارش ہوگی اورلوگ اس میں نچوڑیں گے۔ یعنی میوہ بھی کثرت سے ہوگا۔
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِہٖ۰ۚ
( یہ تعبیر سن کر) بادشاہ نے حکم دیا کہ (یوسف کو) میرے پاس لے آؤ۔
فَلَمَّا جَاۗءَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِـــعْ اِلٰي رَبِّكَ
پھرجب بادشاہ کافرستادہ یوسف کے پاس پہنچا توانہوں نے کہا اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ۔
فَسْـــَٔـلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۰ۭ
اور ان سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے، جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ ( اور اس سلسلہ میں ایک بے گناہ کوجیل میں ڈال دیا گیا۔ مطلب یہ کہ اس معاملے میں تحقیقات کی جائیں)
اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِہِنَّ عَلِيْمٌ۵۰
بے شک میرا رب توان عورتوں کی چال بازیوں سے خوب واقف ہے ۔ (اورتم بھی بادشاہ ہو۔ بادشاہ کوملک کے ایسے حالات سے باخبر رہنا چاہئے)
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِہٖ۰ۭ
پھر بادشاہ نے عورتوں کوبلوایا اورتحقیقات شروع کیں۔
ان سے پوچھا یوسف کواپنی طرف مائل کرنے کے معاملے میں تمہارا کیا بیان ہے؟
وَمَآاُبَرِّئُ نَفْسِيْ۰ۚ اِنَّ النَّفْسَ
ان عورتوں نے کہا حاشہ للہ ہم نے تویوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔
قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ۰ۡ
اس موقع پرعزیز مصر کی عورت نے کہا۔ اب جب کہ حقیقت حال کا اظہار ہوچکا (میں اقرارکرتی ہوں کہ)
اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ
میں نے ہی یوسفؑ کواپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا۔
وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۵۱
اس وقت یوسفؑ نے کہا، تحقیقات سے میری غرض یہ تھی کہ عزیز مصر کواس بات کا یقین ہوجائے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی
ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَيْبِ
ان عورتوں نے کہا حاشہ للہ ہم نے تویوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔
وَاَنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ كَيْدَ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۵۲
اورواقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کوہدایت نہیں دیتے۔
لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْۗءِ
(اوریہ بھی کہا) میں اپنے نفس کو(با لذات) بری نہیں بتلاتا کیونکہ نفس امارہ (ہرایک کا) بری باتوں ہی کی ترغیب دیتا ہے۔
اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۵۳
بجز اس (نفس) کے کہ جس پرمیرا رب ہی رحم کرے۔ بے شک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
توضیح : نفس وشیطان کے غلبہ وشر سے بچنے کا انبیائی طریقہ انابت الی اللہ ہی ہے۔
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِيْ۰ۚ
(تحقیقات کے بعد) بادشاہ نے کہا یوسفؑ کومیرے پاس لے آؤ تا کہ میں ان کواپنے لیے مخصوص کرلوں۔
فَلَمَّا كَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ۵۴
پھرجب یوسفؑسے گفتگوکی توکہا اب تم ہمارے نزدیک بڑی ہی قدر ومنزلت والے اوربڑے ہی امانت دار انسان ہو۔
قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ۰ۚ
یوسفؑ نے کہا آپ مجھے ملک کے شاہی خزانوں کا افسراعلیٰ بنادیجئے۔
اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ۵۵
میں اس کی حفاظت کروں گا اور اس کے اچھے مصرف سے بخوبی واقف بھی ہوں۔
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ۰ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْہَا حَيْثُ يَشَاۗءُ۰ۭ
اس طرح ہم نے یوسف کوشہر مصر میں با اختیار حاکم بنایا کہ وہ اس سرزمین پر(بلاروک ٹوک) جہاں چاہے رہیں سہیں۔
نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاۗءُ
ہم جس کوچاہتے ہیں اپنی رحمت سے مالا مال کردیتے ہیں
وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ۵۶
اورہم نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔
وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
اور آخرت کا اجر توبہت ہی اچھا ہے، ان لوگوں کے لیے جو(الٰہی تعلیم کے مطابق ) ایمان رکھتے ہیں۔
وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۵۷ۧ
اور متقیانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
(یعنی اللہ تعالیٰ نے جن اعمال سے بچنے کاحکم دیا ہے، بچتے ہیں اور جن اعمال کے کرنے کاحکم دیا ہے، خوش دلی سے انجام دیتے ہیں)
تشریح: چند سال کے بعد مصر کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں قحط شروع ہوا۔ مصر ہی ایک ایسا شہر تھا، جہاں کافی خوش حالی تھی۔ اطراف کے لوگ غلہ لینے کے لئے مصر آنے لگے تھے اس تعلق سے حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کو بھی مصر آنا پڑا اور حصول غلہ کی اجازت کے لئےحضرت یوسفؑ کے سامنے پیش ہونا ضروری تھا۔
وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۵۷ۧ
اور متقیانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
(یعنی اللہ تعالیٰ نے جن اعمال سے بچنے کاحکم دیا ہے، بچتے ہیں اور جن اعمال کے کرنے کاحکم دیا ہے، خوش دلی سے انجام دیتے ہیں)
تشریح: چند سال کے بعد مصر کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں قحط شروع ہوا۔ مصر ہی ایک ایسا شہر تھا، جہاں کافی خوش حالی تھی۔ اطراف کے لوگ غلہ لینے کے لئے مصر آنے لگے تھے اس تعلق سے حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کو بھی مصر آنا پڑا اور حصول غلہ کی اجازت کے لئےحضرت یوسفؑ کے سامنے پیش ہونا ضروری تھا۔
وَجَاۗءَ اِخْوَۃُ يُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَيْہِ فَعَرَفَہُمْ وَہُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ۵۸
اور جب یوسفؑ کے بھائی ان کے پاس حاضر ہوئے تو یوسفؑ نے انھیں پہچان لیا اگرچہ کہ وہ ان کو پہچان نہ سکے۔
وَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ قَالَ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ۰ۚ
اور جب یوسفؑ نےانکا سامان بندھوادیا جس کی انھیں ضرورت تھی تو کہا آئندہ (غلّہ کے لئے) آؤ تو اپنے (علاتی) بھائی کو بھی میرے پاس لے آؤ (تاکہ اس کا حصہ بھی دیا جاسکے۔ یہ یوسفؑ کے حقیقی بھائی تھے)
اَلَا تَرَوْنَ اَنِّىْٓ اُوْفِي الْكَيْلَ وَاَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ۵۹
کیا تم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ میں پیمانہ پوری طرح بھر بھر کردیتا ہوں اور میں مہمان داری بھی خوب کرتا ہوں۔
فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِيْ بِہٖ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِيْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ۶۰
اگر تم ان کو میرے پاس نہ لاؤگے تو تمہیں میرے پاس سے غلّہ نہ ملے گا اور نہ تم میرے پاس آسکوگے۔
قَالُوْا سَنُرَاوِدُ عَنْہُ اَبَاہُ وَاِنَّا لَفٰعِلُوْنَ۶۱
انہوں نے کہا ہم اس سے متعلق اس کےاباّ کو کسی طرح بھی راضی کرلیںگے اور ہم یہ کام کرسکتے ہیں۔
وَقَالَ لِفِتْيٰنِہِ اجْعَلُوْا بِضَاعَتَہُمْ فِيْ رِحَالِہِمْ لَعَلَّہُمْ يَعْرِفُوْنَہَآ اِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَہْلِہِمْ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۶۲
اور یوسفؑ نے اپنے خدّام (کو آہستہ) سے کہا کہ غلّہ کے معاوضے میں ان لوگوں نے اپناجو مال دیا ہے، وہ (چپکے سے) انھیں کے سامان میں رکھ دو تاکہ وہ اپنےاہل و عیال میں پہنچ کر اپنا سامان پہچان لیں اور شاید کہ وہ یہاں آئیں۔
فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْہِمْ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَاَرْسِلْ مَعَنَآ اَخَانَا نَكْتَلْ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۶۳
جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس پہنچے تو کہنے لگے کہ ابا جان آئندہ ہم کو غلّہ دینے سے روک دیا گیا ہے (ماسوائے اس کے کہ ہم اپنے بھائی بن یامین کو ساتھ لے کر جائیں) لہٰذا ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ کردیجئے تاکہ ہم غلّہ لاسکیں اور ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
قَالَ ہَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَيْہِ اِلَّا كَـمَآ اَمِنْتُكُمْ عَلٰٓي اَخِيْہِ مِنْ قَبْلُ۰ۭ
باپ نے کہا۔ کیا میں اس کے بارے میں تم پر ایسا ہی بھروسہ کروں جیسا کہ اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں تم پر کرچکا ہوں۔
فَاللہُ خَيْرٌ حٰفِظًا۰۠ وَّہُوَاَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ۶۴
پس اللہ تعالیٰ ہی سب سے اچھی حفاظت کرنے والے اور وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں۔
وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَہُمْ وَجَدُوْا بِضَاعَتَہُمْ رُدَّتْ اِلَيْہِمْ۰ۭ
اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو (دیکھا کہ) اپنا وہ مال، جو غلّہ کے معاوضہ میں دیا تھا، انھیں واپس کردیا گیا ہے۔
قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَا نَبْغِيْ۰ۭ ہٰذِہٖ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ اِلَيْنَا۰ۚ
(خوشی سے) چلّا اٹھے، ائے ابا ہمیں اور کیا چاہئے؟ یہ ہماری پونجی ہے، جو ہمیں لوٹا دی گئی ہے۔
وَنَمِيْرُ اَہْلَنَا وَنَحْفَظُ اَخَانَا
اور ہم اپنے اہل و عیال کےلئے (پھر) غلّہ لے آئیںگے اور اپنے بھائی کی خوب حفاظت کریںگے۔
وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيْرٍ۰ۭ
اور ایک بارِ شتر زیادہ لائیںگے۔
ذٰلِكَ كَيْلٌ يَّسِيْرٌ۶۵
یہ تھوڑا سا غلّہ ہے۔ (اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی سے ہوجائےگا)
قَالَ لَنْ اُرْسِلَہٗ مَعَكُمْ حَتّٰى تُؤْتُوْنِ مَوْثِقًا مِّنَ اللہِ لَتَاْتُنَّنِيْ بِہٖٓ اِلَّآ اَنْ يُّحَاطَ بِكُمْ۰ۚ
یعقوبؑ نے کہا میں اسکو تمہارے ساتھ بھیج نہیں سکتا۔ جب تک کہ تم اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر مجھ سے یہ پختہ عہد نہ کرو کہ تم اسکو ضرور لے آؤگے۔ البتہ (یہ اور بات ہے کہ) تم سب کسی مصیبت میں گھر جاؤ۔ یعنی مجبور ہوجاؤ۔
فَلَمَّآ اٰتَوْہُ مَوْثِقَہُمْ قَالَ اللہُ عَلٰي مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ۶۶
چنانچہ وہ سب قسم کھاکر باپ سے پختہ عہد کرچکے۔ باپ نے کہا ہمارے اپنے قول و قرار پر پابند رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ نگہبان ہیں۔
(ظاہری اسباب بھی پختہ کرلئے لیکن بھروسہ اللہ تعالیٰ ہی پرکیا۔ ہر کسی کے لئے ایسا ہی حکم ہے)
وَقَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ
اور نصیحت فرمائی ائے میرے بیٹو! تم سب شہر کے ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا۔
وَّادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ۰ۭ
بلکہ مختلف دروازوں سے (دو دو چار چار) داخل ہونا
(فتنہ سے محفوظ رہنے کی ایک ظاہری تدبیر کے طور پر ایسا فرمایا)
وَمَآ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ۰ۭ
(مگر یہ تدبیر بتلاکر) میں تم کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے (ذرا بھی) مستغنی نہیں کرسکتا۔
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ
سارے اختیارات تواللہ تعالیٰ ہی کے دست قدرت میں ہیں(ہوگا وہی جواللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھا ہے)
عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ۰ۚ وَعَلَيْہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۶۷
میں اسی پربھروسہ رکھتا ہوں اوربھروسہ کرنے والوں کواسی پربھروسہ رکھنا چاہئے۔
وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَيْثُ اَمَرَہُمْ اَبُوْہُمْ۰ۭ
اورجب وہ باپ کی نصیحت کے مطابق(شہر میں مختلف دروازوں سے) داخل ہوئے۔
مَا كَانَ يُغْنِيْ عَنْہُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ
کوئی تدبیر انھیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے نہیں بچاسکتی تھی۔
اِلَّا حَاجَۃً فِيْ نَفْسِ يَعْقُوْبَ قَضٰىہَا۰ۭ
ہاں ، یعقوبؑ کے دل میں ایک ظاہری تدبیر کا خیال آیا تھا، جس کو انہوں نے ظاہر کردیا۔
(اس احتیاطی تدبیر کے بتانے سے ان کا منشا ہرگز یہ نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے بے نیازی پیدا ہوجائے اورتدبیر پربھروسہ کرلیا جائے۔ انھیں قطعی یقین تھا کہ کوئی ظاہری تدبیر تقدیر الٰہی کوبدل نہیں سکتی)
وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ
اوریقینا (یعقوبؑ) ہماری دی ہوئی تعلیم سے آراستہ اوربڑے ہی صاحب علم انسان تھے۔
وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۶۸ۧ
لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
توضیح : اکثر لوگوں کے پاس توکل کا مطلب یہ ہے کہ اسباب ظاہری کوترک کردیا جائے۔ توکل کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اسباب ظاہری جوہمارے قابو میںہیں، ان کواختیار کریں اورنتائج کے لحاظ سے یہ اطمینان رکھنا کہ وہی ہوگا جواللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے۔ توکل کا یہ مفہوم بڑے یقین کی بات ہے اوریہ یقین انھیں کونصیب ہوتا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے علم سے سرفراز فرماتے ہیں۔
وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْہِ اَخَاہُ
اور جب وہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسفؑ نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس جگہ دی۔
قَالَ اِنِّىْٓ اَنَا اَخُوْكَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۶۹
کہا میں تمہارا (وہی) بھائی ہوں (جو تم لوگوں کے خیال میں گم ہوگیا تھا) پس، ہمارے یہ دوسرے بھائی جو کچھ بھی کررہے ہیں، اس کا رنج نہ کرنا۔
فَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ جَعَلَ السِّقَايَۃَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْہِ
پھر جب یوسفؑ ان بھائیوں کا غلہ اونٹوں پر لدوانے لگے تو اپنے سگے بھائی کے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔
ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّــتُہَا الْعِيْرُ اِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ۷۰
پھر( جب قافلہ چلنے لگا تو) ایک پکارنے والے نے آواز دی ائے قافلے والو تم چور ہو۔
قَالُوْا وَاَقْبَلُوْا عَلَيْہِمْ مَّاذَا تَفْقِدُوْنَ۷۱
قافلے والوں نے پلٹ کرپوچھا تم کونسی چیز گم کیے ہو؟
قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ
انہوں نے کہا ہمارے بادشاہ کا پیالہ (پانی پینے کا گلاس) گم ہوا ہے۔
وَلِمَنْ جَاۗءَ بِہٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِہٖ زَعِيْمٌ۷۲
اورجوکوئی اس کولے آئے گا، اس کوایک بارِشُتر غلہ انعام دیا جائے گا۔ اورمیں اس کا ضامن ہوں۔
قَالُوْا تَاللہِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْاَرْضِ وَمَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ۷۳
قافلے والوں نے کہا خدا کی قسم تم لوگ جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد مچانے کے لیے نہیں آئے اورنہ ہم چور ہیں۔
قَالُوْا فَمَا جَزَاۗؤُہٗٓ اِنْ كُنْتُمْ كٰذِبِيْنَ۷۴
خدام نے کہا اگر تم جھوٹے نکلے، یعنی چوری ثابت ہوگئی توبتاؤ پھر اس کی کیا سزا ہے؟ (نوٹ: چوری کا جرم بھی فساد فی الارض کی تعریف میں آتا ہے)
قَالُوْا جَزَاۗؤُہٗ مَنْ وُّجِدَ فِيْ رَحْلِہٖ فَہُوَجَزَاۗؤُہٗ۰ۭ
انہوں نے کہا اس کی جزاء یہ ہے کہ جس کے سامان میں وہ نکلے پس وہی اس کی جزاء ہے یعنی جس کے پاس چوری کی چیز نکلے وہ اپنے پاس خدمت گار کی حیثیت سے رکھ لیا جائے گا۔)
كَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِــمِيْنَ۷۵
ہم ظالموں کوایسی ہی سزا دیتے ہیں۔
فَبَدَاَ بِاَوْعِيَتِہِمْ قَبْلَ وِعَاۗءِ اَخِيْہِ
پس اس نے دوسرے بھائیوں کے سامان کی جھڑتی لینی شروع کی۔
ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِّعَاۗءِ اَخِيْہِ۰ۭ
پھراپنے بھائی کے سامان میں سے اس (پیالہ) کونکالا
كَذٰلِكَ كِدْنَا لِيُوْسُفَ۰ۭ
اس طرح ہم نے یوسفؑ کی خاطر یہ تدبیر کی۔
مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاہُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ۰ۭ
کیونکہ ملک کے قانون کے تحت یوسفؑ اپنے بھائی کولے نہیں سکتے تھے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہیں۔
توضیح : شریعت ابراہیمی میں چورکی سزا یہ تھی کہ جس کی چوری کی ہو، اس کا ایک برس تک مملوک غلام بنا کر رکھا جائے اس کے بعد چھوڑدیا جائے۔ یہی سزا یوسفؑ کے بھائیوں نے بیان کی اوراسی کے مطابق بنیامین کورک لیا گیا۔ ورنہ مصر کا قانون کچھ اس سے مختلف تھا۔ اوریہ قانون اجازت نہیں دیتا تھا کہ جس کے پاس سے چیز نکلے اس کوپکڑلیا جائے۔
یعنی
نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاۗءُ۰ۭ وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ۷۶
ہم جسے چاہتے ہیں، درجے بلند کرتے ہیں ( درجات علمی مراد ہیں) اور اللہ علیم ہیں ہرصاحب علم سے بالاوبرتر ہیں(علم میں سب اسی کے محتاج ہیں)
قَالُوْٓا اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ۰ۚ
(اس موقع پربھائیوں نے) کہا گراس نے چوری کی ہے توکچھ عجب نہیں۔ کیونکہ اس کے ایک (حقیقی) بھائی (یوسفؑ) نے بھی چوری کی تھی۔
فَاَسَرَّہَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِہٖ وَلَمْ يُبْدِہَا لَہُمْ۰ۚ
یوسفؑ نے ان کی یہ بات دل میں چھپائے رکھی اوران پرظاہر ہونے نہ دی۔
قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا۰ۚ
( اپنے دل میں) کہا واقعی تم ہی بہت برے ہو۔
وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ۷۷
جوکچھ تم باتیں بناتے ہو(الزام دیتے ہو) اللہ تعالیٰ توبخوبی جانتے ہیں۔
قَالُوْا يٰٓاَيُّہَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَہٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا
(بھائیوں نے یوسفؑ سے) کہا۔ ائے عزیز مصر اس کے باپ بہت بوڑھے ہیں( وہ اس بچے سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انھیں اس کی جدائی برداشت نہیں۔ اسے چھوڑ دیجئے)
فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَہٗ۰ۚ
اس کے بدلے ہم میں سے کسی کوروک لیجئے۔
اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِـنِيْنَ۷۸
ہم توآپ کوایک محسن نیک دل انسان دیکھتے ہیں۔
قَالَ مَعَاذَ اللہِ اَنْ نَّاْخُذَ اِلَّا مَنْ وَّجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَہٗٓ۰ۙ
یوسفؑ نے کہا اللہ کی پناہ جس کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے، اس کے سوا کسی اورکوپکڑکررکھیں۔
اِنَّآ اِذًا لَّظٰلِمُوْنَ۷۹ۧ
ایسا کریں توہم بڑے ہی ناانصاف ہوں گے۔
فَلَمَّا اسْتَيْـــَٔـسُوْا مِنْہُ خَلَصُوْا نَجِيًّا۰ۭ
(یوسفؑ نے جب ان کی درخواست نا منظورکردی) اوروہ اس سے ناامید ہوگئے۔ سب سے الگ ہوکر مشورہ کرنے لگے۔
قَالَ كَبِيْرُہُمْ اَلَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنَّ اَبَاكُمْ قَدْ اَخَذَ عَلَيْكُمْ مَّوْثِقًا مِّنَ اللہِ
بڑے بھائی نے کہا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے خدا کا عہد لیا ہے۔
وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُّمْ فِيْ يُوْسُفَ۰ۚ
اوراس سے پہلے تم یوسفؑ کے معاملے میں کیا کچھ (قصور) کرچکے ہو۔
فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰى يَاْذَنَ لِيْٓ اَبِيْٓ اَوْ يَحْكُمَ اللہُ لِيْ۰ۚ
جب تک کہ ابا مجھے اجازت نہ دیں، میں اس سرزمین سے ٹل نہیں سکتا۔ یا اللہ تعالیٰ ہی میرے لیے کوئی تدبیر فرمائیں۔
یعنی
وَہُوَخَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ۸۰
اوروہ توبہترین فیصلہ کرنے والے ہیں۔
اِرْجِعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْكُمْ فَقُوْلُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ۰ۚ
تم سب اپنے باپ کے پاس جاؤ اورکہو۔ ابا جان آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے۔
(اس نے عزیز مصر کا پیالہ چرا کراپنے سامان میں رکھ لیا تھا)
وَمَا شَہِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حٰفِظِيْنَ۸۱
اورہم نے اپنی آنکھوں سے اس کوچراتے تونہیں دیکھا سوائے اس کے کہ وہاں جوواقعہ پیش آیا ا س بناء پرہم یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اورنہ ہم غیب کے حالات پرقابو پانے والے تھے(چنانچہ وہ اپنے باپ سے ملے اورمزید کہا)
(ہم کوکیا خبر تھی کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آئے گا جس کی وجہ ہم اپنے اس اقرار کوجوآپ سے کیا تھا، پورا کرنے سے قاصر رہیںگے)
وَسْـــَٔـلِ الْقَرْيَۃَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْہَا وَالْعِيْرَ الَّتِيْٓ اَقْبَلْنَا فِيْہَا۰ۭ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۸۲
اورآپ اس بستی والوں سے بھی دریافت کیجئے۔ جہاں ہم تھے اوراس قافلے سے بھی پوچھ لیجئے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں، اورہم اس معاملے میں سچے ہیں۔
یعنی
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا۰ۭ
(یہ سرگذشت سن کر) باپ نے کہا۔ تم نے اپنی طرف سے ایک بات بنالی ہے۔
فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ۰ۭ
پس صبر ہی اچھا ہے۔
عَسَى اللہُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِہِمْ جَمِيْعًا۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۸۳
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کومیرے پاس پہنچادے وہی سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔( اس کی ساری تجاویز حکیمانہ ہیں)
وَتَوَلّٰى عَنْہُمْ وَقَالَ يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ
اوروہ ان سے منہ پھیرلیے اورکہا ہائے افسوس یوسف پر(یوسفؑ کی گم شدگی پربڑا ہی افسوس کرنے لگے)
وَابْيَضَّتْ عَيْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَكَظِيْمٌ۸۴
اورشدت غم سے ان کی آنکھیں سفیدپڑگئیں اوروہ اسی غم میں گھلنے لگے۔
قَالُوْا تَاللہِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ يُوْسُفَ حَتّٰى تَكُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَكُوْنَ مِنَ الْہٰلِكِيْنَ۸۵
(بیٹوں نے باپ کی یہ حالت دیکھ کر) کہا واللہ اگر آپ یوسف کواسی طرح یاد کرتے رہیں گے، ان کے غم میں گھلے جاتے رہیں گے تو بیمار ہوجائیں گے یا اپنے آپ کوہلاک ہی کرلیں گے۔
قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللہِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۸۶
باپ نے کہا میں اپنے رنج وغم کا اظہار اللہ تعالیٰ سے کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جس کوتم نہیں جانتے۔
يٰبَنِيَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُوْسُفَ وَاَخِيْہِ وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۰ۭ
(اور یہ بھی کہا) ائے میرے بیٹو جاؤ یوسف اوراس کے بھائی کوتلاش کرو اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔
اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۸۷
کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافر ہی نا امید ہوتے ہیں۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْہِ قَالُوْا يٰٓاَيُّہَا الْعَزِيْزُ مَسَّـنَا وَاَہْلَنَا الضُّرُّ
پھر جب یہ لوگ مصر جا کر یوسفؑ کی پیشی میں حاضر ہوئے۔ توعرض کیا ائے عزیز مصر ہم اورہمارے متعلقین بڑی تکلیف اورمصیبتوں میں مبتلاء ہیں۔
وَجِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰىۃٍ
ہم بہت ہی تھوڑی سی کم قیمت چیزیں لے کرآئے ہیں۔
فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا۰ۭ اِنَّ اللہَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ۸۸
مگرآپ ہمیں پورا پورا غلہ عنایت کیجئے اورہم پرخیرات کیجئے بے شک اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کواس کا بہترین بدل دیتے ہیں۔
قَالَ ہَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ وَاَخِيْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰہِلُوْنَ۸۹
(اب یوسفؑ سے ضبط نہ ہوسکا، اپنے بھائیوں سے) پوچھا، تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ نادانی میں جوسلوک کیا تھا، کیا وہ تمہیں یاد ہے؟
قَالُوْٓا ءَ اِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ۰ۭ
بھائیوں نے حیرت سے پوچھا، کیا تم ہی یوسف ہو؟
قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَہٰذَآ اَخِيْ۰ۡ
یوسفؑ نے کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں( اوراپنے بھائی کوبتا کرکہا کہ) یہ میرا بھائی ہے۔
قَدْ مَنَّ اللہُ عَلَيْنَا۰ۭ
اللہ تعالیٰ نے ہم پربڑا احسان فرمایا۔
اِنَّہٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ۹۰
حقیقت یہ ہے کہ جوکوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اورمصیبتوں میں صبر سے کام لیتا ہے توایسے نیکوکاروں کا بدل(دنیا میں بھی) اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتے۔
قَالُوْا تَاللہِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللہُ عَلَيْنَا وَاِنْ كُنَّا لَخٰطِــــِٕيْنَ۹۱
بھائیوں نے کہا۔ اللہ کی قسم اللہ نے تم کوہم پرفضیلت بخشی۔ اورواقعی ہم بڑے ہی خطاکار تھے۔
قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۰ۭ
یوسفؑ نے کہا آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔
يَغْفِرُ اللہُ لَكُمْ۰ۡوَہُوَاَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ۹۲
اللہ تمہارے گناہ معاف کردے، وہی سب سے بڑھ کررحم کرنے والا ہے۔
اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا۰ۚ
اب تم میرا یہ قمیص لے جاؤ اوراس کومیرے باپ کے چہرے پرڈال دو، ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں گی۔
وَاْتُوْنِيْ بِاَہْلِكُمْ اَجْمَعِيْنَ۹۳ۧ
اوراپنے تمام گھروالوں(متعلقین) کولے کرمیرے پاس آجاؤ۔
وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيْرُ قَالَ اَبُوْہُمْ اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ۹۴
اورجب قافلہ مصر سے روانہ ہوا توان کے باپ نے کہا میں تویوسف کی خوشبو پارہا ہوں، تم لوگ کہیں یہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں کیسی بہکی بہکی باتیں کررہا ہوں۔
قَالُوْا تَاللہِ اِنَّكَ لَفِيْ ضَلٰلِكَ الْقَدِيْمِ۹۵
اہل خانہ نے کہا خدا کی قسم آپ اب تک اسی قدیم غلط خیال میں مبتلا ہیں۔
فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىہُ عَلٰي وَجْہِہٖ
پھر جب خوشخبری دینے والا آیا اوراس نے یوسف کا قمیص ان کے والد کے چہرے پرڈال دیا۔
فَارْتَدَّ بَصِيْرًا۰ۚ
تواسی وقت ان کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔
یعنی
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ۰ۚۙ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۹۶
باپ نے بیٹوں سے کہا، کیا میں تم سے نہیں کہہ رہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی باتیں جانتا ہوں، جوتم نہیں جانتے۔
قَالُوْا يٰٓاَبَانَا اسْـتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا كُنَّا خٰطِـــِٕـيْنَ۹۷
(بیٹوں نے اعتراف قصورکیا اور) کہا ابا جان ! ہمارے گناہوں کی معافی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے واقعی ہم بڑےہی خطاکار تھے۔
قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيْ۰ۭ
باپ نے کہا میں عنقریب تمہارے لیے اپنے پروردگار سے مغفرت کی درخواست کروں گا۔
اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۹۸
بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰي يُوْسُفَ اٰوٰٓى اِلَيْہِ اَبَوَيْہِ
پھر جب یہ لوگ یوسفؑ کے پس پہنچے تویوسفؑ نے اپنے والدین کواپنے پاس جگہ دی (عزت واحترام کے ساتھ بٹھایا)
وَقَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۹۹ۭ
اور کہا شہر میں چلو اب ان شاء اللہ امن وچین سے زندگی بسر کروگے (یوسفؑ نے ان کا استقبال شہر کے باہر کیا)
وَرَفَعَ اَبَوَيْہِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا۰ۚ
(شہر میں داخلے کے بعد) یوسفؑ نے اپنے ساتھ اپنے والدین کوتخت پربٹھایا اوروہ سب کے سب یوسفؑ کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔
وَقَالَ يٰٓاَبَتِ ہٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ۰ۡ
اوریوسفؑ نے کہا اباجان ! یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جومیں نے پہلے دیکھا تھا۔
قَدْ جَعَلَہَا رَبِّيْ حَقًّا۰ۭ
میرے پروردگار نے اس کوسچا کردکھایا۔
وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْٓ اِذْ اَخْرَجَنِيْ مِنَ السِّجْنِ
اوراس نے مجھ پربڑے احسان کیے کہ اس نے مجھ کوجیل خانہ سے نکالا۔
وَجَاۗءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ
اورتم کودیہات سے یہاں پہنچایا۔
مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطٰنُ بَيْنِيْ وَبَيْنَ اِخْوَتِيْ۰ۭ
اس صورت حال کے بعد کہ شیطان میرے اورمیرے بھائیوں کے درمیان فساد برپا کرچکا تھا (اس طرح سب کا باہم ملنا ممکن نظرنہ آتا تھا)
اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاۗءُ۰ۭ
بے شک میرا پروردگار (غیرمحسوس وغیر مرئی اسباب سے) جس پر چاہے، عنایت فرماتا ہے۔
اِنَّہٗ ہُوَالْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۱۰۰
بیشک وہ بڑا ہی جاننے والا حکمت والا ہے۔
رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ
(پھریوسفؑ نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ)
ائے میرے پروردگار ! آپ نے مجھ کو بادشاہت عطا کی
وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ۰ۚ
معاملہ فہمی اور خواب کی تعبیر کا علم بخشا۔
فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۣ
ائے زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے۔
اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۰ۚ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ۱۰۱
آپ ہی دنیا وآخرت میں میرے کارساز(حاجت روا) ہیں۔
میرا خاتمہ اسلام پرکیجئے اوراپنے نیک بندوں میں شامل کیجئے۔
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ اِلَيْكَ۰ۚ
یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم نے آپ کی طرف وحی کیں۔
وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَہُمْ وَہُمْ يَمْكُرُوْنَ۱۰۲
اورآپؐ تواس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے، جب کہ یوسف کے بھائیوں نے آپس میں یوسف کے خلاف سازش کی تھی۔
وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ۱۰۳
(غیب کی ان باتوں کو کھول کربیان کرنے کے باوجود) لوگوں کی اکثریت ایمان نہ لائے گی، آپ کتنا ہی چاہیں کہ وہ ایمان لے آئیں۔
وَمَا تَسْــــَٔـلُہُمْ عَلَيْہِ مِنْ اَجْرٍ۰ۭ
حالانکہ آپ ان سے کوئی معاوضہ بھی نہیں چاہتے۔
اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ۱۰۴ۧ
بجز اس کے کہ یہ قرآن سارے عالم کے لیے ایک نصیحت ہے۔
توضیح : مذکورۂ بالاآیات میں مندرجہ ذیل حقیقتوں کوبیان کیا گیا ہے۔
۱۔ ایک تویہ کہ رسول اللہﷺ نے جن گزشتہ اورقدیم واقعات کوبیان فرمایا ہے، وہ سنی سنائی باتیں ہیں اورنہ ذہنی اپج، بلکہ ان واقعات کاعلم صرف وحی کے ذریعہ ہوا ہے جوبجائے خود آپؐ کی نبوت کا کھلا ثبوت ہے۔ کیونکہ جوواقعات بیان کیے گئے ہیں، ان کے ظہورکے وقت نہ آپ موجود تھے اور نہ کوئی دوسرا ایسا ذریعہ ہی تھا جس کے ذریعے آپؐ تک یہ باتیں پہنچ سکتیں۔
۲۔ یہ کہ یوسفؑ کے واقعات کوبیان کرکے سرداران قریش کو متنبہ کیا گیا کہ جوندامت اورشرمساری برادران یوسف کے حصے میں آئی، وہی کچھ تمہارا بھی حشرہونے والا ہے۔ کیونکہ جوسلوک برادران یوسف نے یوسف کے ساتھ کیا تھا، وہی سلوک سرداران قریش نے حضور اکرمﷺ کے ساتھ کیا۔ مختصرا ًیہ بات واضح کی گئی کہ جوبھی طاقت اہل حق کی مخالفت کرے گی، بالآخر اس کے لیے ذلت ورسوائی ہے۔ ۳۔ یہ کہ ایمان لانے کا دارومدار انسان کی سمجھ بوجھ اوراس کی لگن کے ساتھ ساتھ ہدایت خداوندی پرہے نہ کہ نبیؐ کی مرضی وخواہش پرجیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ (سورہ القصص آیت ۵۶)
۴۔ یوسفؑ سے ان کے بھائیوں کوعداوت اوردشمنی کا واقعہ بیان کرکے اہل حق کوتسلی دی گئی کہ اگر خاندان قبیلہ اورقوم سب مخالفت پراترآئیں تب بھی اہل حق کوپست ہمت نہ ہونا چاہئے۔
وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
اورزمین وآسمان میں اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے کی کتنی ہی (بے شمار) نشانیاں موجود ہیں۔
يَمُرُّوْنَ عَلَيْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ۱۰۵
جن پر سے یہ گزرتے ہیں، مگر نہ توجہ ہی کرتے ہیں اورنہ اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد ہونے پرایمان لاتے ہیں۔
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِكُوْنَ۱۰۶
اوران میںاکثر لوگ اللہ تعالیٰ کومانتے بھی ہیں تواس طرح کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کوبھی شریک ٹھیراتے ہیں(یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مقرب بندوں کی رائے ومشورے وسفارشات کی بناء پرحق تعالیٰ حکمرانی فرماتے ہیں)
اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِيَہُمْ غَاشِـيَۃٌ مِّنْ عَذَابِ اللہِ
کیا وہ اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آکر انھیں گھیرلے گا؟
اَوْ تَاْتِيَہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۱۰۷
یا دفعتا قیامت آجائے اوران کو اس کا علم بھی نہ ہو۔
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۰ۣؔ
(ائے نبیﷺ) کہئے میرا طریق کارتویہی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں۔
عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ
میں بصیرت پرہوں اورمیری اتباع کرنے والے بھی۔
وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۸
یاد رکھو اللہ تعالیٰ شرک سے پاک ہے اورمیں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا
اورہم نے آپؐ سے پہلے (مختلف بستیوں میں) جتنے بھی رسول بھیجے سب انسان ہی تھے( فرشتے نہ تھے)
نُّوْحِيْٓ اِلَيْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰى۰ۭ
ہم ان کی طرف وحی بھیجتے رہے( یعنی انھیں وحی کے ذریعہ تعلیمات الٰہی سے روشناس کراتے رہے) وہ بستی والوں کوسناتے رہے (پھرآپؐ کے رسول ہونے پرانھیںتعجب کیوں ہے؟)
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰ۭ
کیا ان لوگوں نے ملک میں سیروسیاحت نہیں کی کہ وہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے گزری ہوئی نافرمان قوموں کا کیا انجام ہوا (کس طرح ان کی تباہی وبربادی ہوئی)
وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَيْرٌ لِّـلَّذِيْنَ اتَّقَوْا۰ۭ
اورآخرت کا گھر انھیں کے لیے سزاوار ہے، جومتقی ہیں (یعنی جواللہ تعالیٰ کوالٰہ واحد مان کرالٰہی ونبوی تعلیم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ جن باتوں سے انھیں منع کیا گیا ہے، ان سے بچتے ہیں اورجو کچھ انھیں حکم دیا جاتا ہے بہ ذوق وشوق اس کی تعمیل کرتے ہیں)
اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۱۰۹
کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھوگے ؟
حَتّٰٓي اِذَا اسْتَيْــــَٔـسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ قَدْ كُذِبُوْا
یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اورانھیں گمان غالب پیدا ہوگیا کہ اپنی نصرت ومدد کے بارے میں جوبات قوم سے انھیں نے کہی تھی، اس میں وہ سچے نہ تھے۔
(یعنی یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ شاید ان کی مدد نہ کریں اوروہ اس تعلق سے جھوٹے ثابت ہوجائیں)
جَاۗءَہُمْ نَصْرُنَا۰ۙ فَنُجِّيَ مَنْ نَّشَاۗءُ۰ۭ
ان (پیغمبروں) کے پاس ہماری مدد آپہنچی پھرہم نے جس کوچاہا عذاب سے بچالیا۔
وَلَا يُرَدُّ بَاْسُـنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ۱۱۰
اورہمارا عذاب مجرم قوموں سے ٹالا نہ جائے گا۔
لَقَدْ كَانَ فِيْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۰ۭ
یقیناً سمجھ داروں کے لیے انبیاء علیہم السلام کے واقعات میں عبرت کا کافی سامان ہے۔
مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى
یہ جوکچھ بیان ہوا ہے وہ کسی کی من گھڑت باتیں نہیں ہیں،(اللہ تعالیٰ کا کلام ہے)
وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ
بلکہ جوکتابیں اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں، انکی اس سے تصدیق ہوتی ہے (اس کتاب میں اصولاً وہی تعلیم ہے جوانبیاء علیہم السلام پرنازل ہوتی رہی تھی)
وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۱۱۱ۧ
اور اس میں (تقویٰ تزکیہ عبادت وغیرہ) ہر شئے کی تفصیل ہے۔ اور ہر اس قوم کیلئےجوایمان لے آتی ہے ہدایتیں ہیں، سامان رحمت ہے۔
(ہدایتوں پرعمل پیرا ہونے کی صورت میں ہی رحمت الٰہی شامل حال ہوتی ہے)
نوٹ:۔ کتاب اللہ میں علم الٰہی ہے۔ علم الٰہی میں ہدایت الٰہی اورہدایتِ الٰہی میں رحمتِ الٰہی ہے۔